جن کے پاس بہت کچھ ہوتا ہے وہ
حالات دیکھ کر اور اُن کے بارے میں سوچ سوچ کر پریشان رہتے ہیں۔ اُن کی
پریشانی اور خدشات ایسے نہیں کہ سمجھ میں نہ آسکیں۔ اگر حالات خراب ہوں اور
لوٹ مار کا بازار گرم ہو تو جائے گا اُنہی کے پاس سے جن کے پاس کچھ ہوگا۔
مگر لطیفہ یہ ہے کہ جن کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں وہ حالات کے بارے میں
زیادہ سوچتے ہیں اور اُس سے بھی کہیں زیادہ پریشان رہتے ہیں! پاکستانی عجیب
قوم ہیں۔ جن معاملات میں پریشان ہونا چاہیے ان کا جشن مناتے ہیں اور جن
باتوں کو ہنسی میں اُڑا دینا چاہیے اُن کے بارے میں سوچ سوچ کر جان ہلکان
کرتے رہتے ہیں۔ 65 سال سے چشم فلک نے یہ تماشا دیکھا ہے کہ جو کچھ بھی ہے
وہ مہنگا ہی ہوتا جاتا ہے، کِسی صورت نرخ نیچے آنے کا نام نہیں لیتے۔ اب تک
تو اِس کیفیت کا عادی ہو جانا چاہیے تھا مگر قوم ہے کہ مہنگائی سے نالاں
اور پریشان رہتی ہے۔ بھیڑ بکری بھی چُھروں اور بُغدوں کے عادی ہوچکے ہیں
اور ہنستے ہنستے ذبح ہو جاتے ہیں مگر ہم ہیں کہ اب بھی مہنگائی کے بُغدا
دیکھ کر چیخنے چلّانے لگتے ہیں! پتہ نہیں یہ بچپنا کب جائے گا!
لوگ کہتے ہیں کہ حکومت نے ساڑھے چار سال میں کیا ہی کیا ہے؟ حکومت پر تنقید
کرتے کرتے اب لوگ اُس کے نمایاں کارناموں کی تلاش میں جُت گئے ہیں۔ بہتوں
کے نزدیک یہ بُھوسے کے ڈھیر میں سُوئی تلاش کرنے جیسا ہے! یہ تو حکومت کو
underestimate کرنے والی بات ہوئی! اِس بات پر کوئی غور نہیں کرتا کہ اِس
حکومت نے ساڑھے چار سال گزار لیے! یہ کیا کِسی کارنامے سے کم ہے؟
یہ الگ بات مَیسّر لب گویا نہ ہوا
دِل میں وہ دُھوم کہ سُنتے ہیں زمانے والے!
جب بھی کوئی حکومت تشکیل پاتی ہے، لوگ توقعات کا سُوئیٹر بُننا شروع کردیتے
ہیں۔ نئی نویلی حکومت سے طرح طرح کی توقعات وابستہ کرنے کے فوراً بعد
بہترین اقدامات اور اُن کے اِنتہائی خوش گوار نتائج کا انتظار کیا جانے
لگتا ہے۔ یہ تو سراسر ظلم ہے۔ بے چاری نئی حکومت نے ابھی ڈھنگ سے سُکون کا
سانس بھی نہیں لیا ہوتا کہ اُس پر تنقید کے ڈونگرے برسائے جانے لگتے ہیں۔
ایک ”ذرا سی“ یعنی یہی کوئی دو چار ارب روپے کی کرپشن سامنے آ جائے تو
مخالفین اور میڈیا والے چیخ چیخ کر آسمان سر پر اُٹھا لیتے ہیں! معمولی سی
کرپشن بھی اب ہمیں اِس لیے بڑی دِکھائی دینے لگی ہے کہ روپیہ دِن رات بے
وقعت ہوتا جارہا ہے! بے وقعت روپے کے مقابل اپنی اہلیت ثابت کرنے کے لیے
حکمرانوں کو زیادہ کرپشن کرنی پڑتی ہے! اب کیا کوئی ”دے مار ساڑھے چار“
والی محنت کے ذریعے مِلنے والی حکمرانی کا فائدہ بھی نہ اُٹھائے؟ عوام کو
سوچنا چاہیے کہ حکومت جو کچھ بھی کرتی ہے وہ بھلائی ہی کے لیے ہوتا ہے۔
بقول نواب اسلم رئیسانی بھلائی بھلائی ہوتی ہے، چاہے آپ کے لیے ہو یا آپ کے
خلاف ہو!
لوگ کہتے ہیں کہ حکومت نے کیا دیا؟ حکومت کا کوئی تحفہ غلام احمد بلور سے
بڑھ کر ہوسکتا ہے! ساڑھے چار سال کے دوران غلام احمد بلور کے ہاتھوں ریلوے
کے محکمے نے جو ”شاندار ترقی“ کی ہے اُس پر تنقید کرنے والے اب تک نچلے
نہیں بیٹھ رہے۔ کبھی کِسی نے اِس بات پر غور کیا ہے کہ غلام احمد بلور کی
شکل میں ہمارے پاس ایٹم بم سے بھی بڑا ہتھیار موجود ہے! کِسی بھی دُشمن ملک
سے نمٹنے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ اُس ملک کو کِسی نہ کِسی طرح گھسیٹ
کر غلام احمد بلور کے قدموں میں ڈال دیا جائے! پھر دیکھیے کہ لوگ پوچھا
کریں گے کیسا مُلک اور کون سا مُلک!!
یہ بھی حکومت کا کارنامہ ہے کہ جس سیاست دان کی دی ہوئی ڈیڈ لائنز نے بجلی
کے بحران کو مزید تقویت بخشی اُسے وزیر اعظم کے منصب پر فائز کردیا گیا!
یعنی حکومت نے یہ اُصول متعارف کرایا ہے کہ جو کچھ نہ کر پائے اُسے سب کچھ
بنادو! اگر کِسی اور حکومت کو ایسا اُصول متعارف کرانے کی توفیق نصیب ہوئی
ہو تو بتائیے!
اِسی حکومت نے ہمیں نواب اسلم رئیسانی جیسی شخصیت سے متعارف کرایا جنہوں نے
”ڈگری ڈگری ہوتی ہے چاہے اصلی ہو چاہے نقلی“ کہہ کر تمام آنے والے زمانوں
کے لیے سدا بہار فارمولا دیا۔ اب اصلی اور نقلی کا جھگڑا مِٹ چکا ہے یعنی
بے فکر ہوکر ایک ہی جملے میں بحث سمیٹ لیجیے! ”رئیسانی فارمولا“ زندگی کے
ہر معاملے کو اپنی باہوں میں ایسے بھینچ لیتا ہے کہ پھر اُس میں ٹھیک سے
سانس لینے کی بھی تاب نہیں رہتی!
سپریم کورٹ نے راجہ پرویز اشرف کو بھی طلب کرلیا ہے۔ یعنی حکومت بچانے کے
لیے ایک اور ذبیحے کی تیاری کی جارہی ہے! ایسی حکومت آپ کو اور کہاں ملے گی
جو اپنے آپ کو برقرار رکھنے کے لیے عوام کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم کی بھی
قربانی دیتی ہو! اگر کہیں ہے تو ہمیں بھی دِکھائیے۔ |