22 اور23جون کی شب مجھے ”دورے کا
سامنا “ کرنا پڑا ، یہ دورہ کسی غیر ملک کا نہیں تھا بلکہ ” دل کا تھا“ہم
صحافیوں کو بہترین کارکردگی کے نتیجے میں کبھی کبھی ایسے بھی دور ے کا
سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ اللہ کا شکر ہے کہ کئی دیگر کی طرح اس دورے کے نتیجے
میں میری روح کو پرواز نہیں کرنا پڑا۔۔۔ اللہ ہم سب کو صحت مند زندگی عطا
کرے آمین،اور ہرایک کو ایسے دورے سے بچاکر حکمرانوں اورسیاست دانوں اور ان
کے چہیتوں کی طرح بیرون ممالک کے دورے کرائے آمین۔
اب میں آپ کو اس دورے سے حاصل ہونے والی معلومات سے آگاہ کروں، یقین کریں
کہ مجھے ہارٹ اٹیک ہوا اس کا یقین نہیں آرہا تھا مگر سینے میں عجیب طرح کے
درد کے باعث اور بیوی کی مسلسل ضد کی وجہ سے میں نے امن فاﺅنڈیشن کی
ایمبولینس طلب کرلی اس سے زیادہ کچھ طلب کرنے کا نہ تو اختیار ہے اور نہ ہی
حیثیت ،اس پر سوار ہوتے ہی ایمبولینس کے اسٹاف نے مجھے بیٹھنے سے منع کرکے
زبردستی لٹادیا اور میں کراچی یونیورسٹی روڈ کے قریب واقعہ ( Dow Institute
of Health Management) جسے ڈاﺅ میڈیکل یونیورسٹی ہسپتال بھی کہا جاتا ہے ،
پہنچ گیا ،میرا اس اسپتال کا پہلا دورہ تھا ۔۔۔۔اس لئے اللہ کا شکر ادا کیا
کہ دردِ دل ہی سہی کسی طرح اس عالیشان عمارت کا ویزٹ کرنے کا موقعہ توملا
صحافتی نبض چوکنا ہوگئی معلوم ہوا کہ 2003 میں افتتاح کیئے جانے والے اس
منصوبے کے تحت ابھی تک صرف اوپی ڈی اور ایمرجنسی فنکشنل ہوسکی ہے لیکن
اطمینان ہوا کہ ہنگامی طور پر ڈاکٹر اور دیگر اسٹاف بھی سرگرم ہے ڈاکٹر نے
ای سی جی کرانے کے بعد مجھے یقین دلایا کہ ” آپ کو ہارٹ اٹیک ہوگیا ہے اس
لئے آپ کسی بڑے ہسپتال چلے جائیں “ وہ ڈاکٹر مسیحا جیسا ہی تھا بار باراس
نے کہا آپ پریشان نہ ہو لیکن ساتھ ہی اس نے کسی لمحے اپنے اسٹاف کو کہا کہ
فوری ایمبولینس کو روک لو کہیں وہ چلے نہ جائے ڈاکٹر کی تشویش اور مجھے
تسلی دینے کے انداز سے مجھے واقعی اطمینان ملا اور میں اس سوچ میں گم ہوگیا
کہ ایسے بااخلاق انسان ہی حقیقی مسیحا ہوتے ہیں۔
وہاں سے ایمبولینس میں سوار ہوتے ہوئے مجھے ایمبولینس اسٹاف نے کہا کہ بہتر
ہے کہ آپ نیشنل انسیٹیوٹ آف ہارٹ ڈیزیز (این آئی سی وی ڈی ) چلیں ،لیکن میں
نے کہا کہ نہیں کراچی انسیٹیوٹ آف ہارٹ ڈیزیز چلیں انہوں نے کہا لیکن وہاں
تو کوئی فائدہ نہیں ہوگا وہ لوگ تو کچھ نہیں کریں گے لیکن میرے اصرار پر وہ
مجھے کے آئی ایچ ڈی لے آئے میں آپ کو یہاں واضع کروں یہ بلدیہ کراچی کا
ہسپتا ل ہے اور صرف سات سال قبل یعنی جون 2005میں اس کا افتتاح کیا گیا تھا
اس ہسپتال کو کراچی کے دوسرے بڑے سرکاری ہسپتال کی حیثیت حاصل ہے اس اسپتال
کی خاص بات یہ بھی ہے کہ یہاں انجیوپلاسٹی اور انجیوگرافی کی نہ صرف
سہولیات حاصل ہیں بلکہ یہاں یہ سہولیات NICVD کے مقابلے میں کم چارجز پر
فراہم کی جاتی ہیں اور شائد یہ ہی وجہ تھی کہ میں نے اس اسپتال پہنچنے کو
ترجیح دی۔ بہرحال جب مجھے یہاں بیڈ پر لٹایا گیا تو ایک نوجوان میرے پاس
پہنچا اور اس نے میری ای سی جی نکالی ساتھ ہی بلڈ پریشر چیک کرکے خاموش چلا
گیا اس وقت میر ا بلڈپریشر /130 160 تھا لیکن وہ بغیر کچھ کہے ، پوچھے اور
اپنے چہرے سے کوئی اظہار کئے چلاگیا کچھ دیر بعد ایک اور صاحب یہاں آئے وہ
ڈاکٹر جیسے لگے رہے تھے انہوں نے کسی پولیس اہلکار کی طرح مجھ سے دریافت
کیا کہ کیا ہوا ؟ میں نے ڈاﺅ میڈیکل کی ECGٓان کو دکھانے کی کوشش کی تو
انہوں نے فوری کہا ”اسے اپنے ہاتھ میں رکھیں آپ کی ECG باالکل صحیح ہے “
میں نے کہا مگر آپ چیک تو کرلیں اسے انہوں نے فوراََ کہا اس کی ضرورت نہیں
مجھے پھر میں نے کہا تو اب آپ ہی بتائیں کہ کیا ہوا مجھے ؟ ان ڈاکٹر
نماءشخص نے بتایا کہ آپ کا بلڈپریشر بڑھا ہوا ہے ابھی ڈرپ اور انجیکشن
لگاتے ہیں کم ہوجائے گا اور آپ گھر جاکر نیند کی گولی کھاکر سوجانا۔ وہ
ڈاکٹر پورا ”الٹا “ نہیں تھا البتہ الٹے ہاتھ سے لکھ رہا تھا چونکہ میں بھی
Left Hand ہوں اس لئے ایک یہ ہی بات میں سینے میں شدید درد کے باوجود نوٹ
کرسکا لیکن اس کے گفتگو کے انداز سے مجھے زندگی میں پہلی بار احساس ہوا کہ
Left Hand بھی بد تمیز اور بد اخلاق ہوتے ہیں ورنہ میں نے تو آج تک اپنے
علاوہ جس Lefty شخص کو بھی دیکھا وہ بہت ہی خوش مزاج اور خوش اخلاق نظر
آیاآپ یقین کریں کہ میں آئینہ بہت کم دیکھتا ہوں اس لئے نہیں کہ مجھے میرا
چہرہ اچھا نہیں لگتا بلکہ اس لئے کہ یہ تو ” دوسروں کے دیکھنے “ کے لئے ہے۔
خیر جی تقریباََ ایک گھنٹہ KIHD میں قیام کے بعد مجھے وہاں سے زندہ سلامت
رخصت کردیا گیا، میں اس بات پر ہی خوش تھا کہ زندہ ہوں ۔گھر پہنچ کر میں
ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق نیند کی ایک عدد ٹیبلیٹ لی اور سوگیا جب اٹھا تو
میرے بستر سے اٹھنے سے قبل ہی سینے میں درد اٹھ رہا تھا ،بس پھر کیا میں
سوچوں میں ڈوب گیا ، میں سوچ رہا تھا کہ کونسا ڈاکٹر صحیح تھا ڈاﺅ کا یا
KIHD کا کہ اسی اثناءمیں بیوی کی پیار بھری آواز آئی ۔۔۔۔۔(آپ کو تو پتا ہی
ہوگا کہ بیویاں ایسے مواقعو ں پر خوش اخلاق ہوہی جاتی ہیں)۔اس نے پوچھا
کیسی طبعیت ہے، میں نے جواب دیا کہ یار درد تو اب بھی ہورہا ہے ، بلڈ پریشر
چیک کرنا چاہئے، یہاں میں آپ کو بتا دوں کہ تقریباََ تین سال قبل مجھے ہونے
والے فالج کے حملے کی وجہ سے میرے گھر پر فرسٹ ایڈ کی تمام سہولیات
موجودہیںبلکہ بیٹی ، چھوٹا بیٹا اور بیگم ڈاکٹر تو نہیں لیکن نرس بن چکے
ہیں اللہ نے چاہا تو میری بیٹی اپنی خواہش کے مطابق ڈاکٹر بھی بن جائے گی
انشاءاللہ، اس لئے بیگم نے بلڈ پریشر چیک کیا اور تشویشناک انداز میں کہا
یہ تو اب بھی بڑھا ہوا ہے۔۔۔۔۔مجھے اللہ نے ہمت دی جس کی وجہ سے میں نے
فیصلہ کیا کہ اب کل صبح کسی ہسپتال میں کنسلٹنٹ سے رابطہ کریں گے جمعرات سے
ہفتے کی صبح تک میں سینے کے درد کی کیفیت میں مبتلا رہا تاہم جب ہفتے کو
میں ایک نجی اسپتال پہنچا تو وہاں موجود کنسلٹنٹ ڈاکٹر امان اللہ نے میری
دونوں ہسپتالوں کی ECG دیکھتے ہی کہا کہ ” آپ کوD KIH والوں نے ایڈمٹ نہیں
کیا، آپ کے ساتھ بہت زیادتی کی انہوں نے ، آپ کی دونوں ECG خراب آئی ہیں
اگر اس ڈاکٹر نے ڈاﺅ کی ای سی جی نہیں دیکھی تو کیا ہوا مگر کراچی ہارٹ
ڈیزیز کی ای سی جی بھی تو ہارٹ اٹیک شو کررہی ہے ! ڈاکٹر امان اللہ کے چہرے
پر گہری تشویش اور فکر واضع تھی پھر انہوں نے بغیر وقت ضائع کئے اپنے اسٹاف
کو بلایا اور ہنگامی بنیادوں پر میری ٹریٹمنٹ شروع کی اس دوران میرے بچپن
کے اور صحافت کے دوست جو میری اصل دولت اور اصل رشتے دار ہیں کو اطلاع ملی
سب سے پہلے جیو نیوز کے اظہر حسین، عقیل رانا اسپتال پہنچ گئے فہیم صدیقی
نے فون پر رابطہ کیا جب کہ طارق ابوالحسن ،مسعود انور اور موسیٰ کلیم کراچی
سے باہر ہونے کی وجہ سے دیگر کو مطلع کرتے رہے پھر ان دوستوں کو ڈاکٹر امان
اللہ نے بتایا کہ میری فوری انجیو پلاسٹی ہونا بہت ضروری ہے اور یہ سہولت
ان کے اسپتال میں ابھی موجود نہیں ہے جس پر میرے ساتھیوں نے مجھے ملک کے سب
سے بڑے دل کے سرکاری اسپتال منتقل کرنے کا فیصلہ کیا۔
یہاں میں قارئین کو یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ اس تحریر کا مقصد نہ تو
اپنے دوستوں کی تعریف کرنا ہے اور نہ ہی اپنی بلکہ صرف اور صرف سرکاری
اسپتالوں اور وہاں کے علاج معالجہ کے حوالے سے آگاہ کرنا ہے۔
میں اپنے دوستوں کی مدد سے قومی ادارہ برائے امراض قلب پہنچ گیا ، یہ
اسپتال صحافی دوستوں کے تعلقات کے نتیجے میں میرے لئے VIPٹریٹمنٹ کا باعث
بنا ، جس روز مجھے یہاں ایڈمٹ کیا گیا اسی روز رات تقریباََ ساڑے گیارہ بجے
میری انجیو پلاسٹی کردی گئی میرا پورا خاندان اس ہنگامی علاج پر بہت خوش
ہوا 27 جون کو مجھے اسپتال سے چھٹی دیدی گئی میں گھر آگیا اب مجھے دوبارہ
لیکن کبھی کبھار سینے میں درد رہنے لگا ، میں نے فیصلہ کیا جو کچھ علاج
میرا ہوا اس کے بارے میں second opinion لینا چاہئے اور سینے میں ہونے والے
درد کے بارے میںڈاکٹر امان اللہ ہی سے رابطہ کرناچاہئے اس ضمن میں نے اپنے
دو ڈاکٹر دوستوں سے بھی رائے لی انہوں نے کہا کہ اچھا ہے اگر کسی اور سے
بھی رجوع کرلیا جائے جس کے بعد میں دوبارہ ڈاکٹر امان اللہ کے پاس پہنچ گیا
انہوں نے انتہائی اخلاقیات کا مظاہرہ کرتے ہوئے میرا معائنہ کیا پھر
انجیوپلاسٹی کی سی ڈی چیک کی ۔۔۔سی ڈی چیک کرتے ہوئے ڈاکٹر کے چہرے کا رنگ
اڑ گیا اور میں ان کا چہرہ دیکھ کر فکر مند ہوگیا تاہم زیادہ ٹنشن لینے کے
بجائے میں نے اپنے اوپر قابو پایا دماغ کو اللہ کی جانب لے گیا کہ وہ ہی سب
کچھ کرنے اور بہتر کرنے والا ہے ،۔۔۔ ڈاکٹر امان اللہ نے کہا پریشان مت
ہونا ہوسکتا ہے یہ میرا شبہ ہو ۔۔۔۔۔۔۔کہ آپ کی انجیو پلاسٹی درست نہیں
ہوئی ہے اور شائد اب دوبارہ انجیوپلاسٹی کرنا پڑے ۔۔۔۔۔انہوں نے thallium
scan stress test تجویز کردیا یہ ٹیسٹ انشاءاللہ میں جلد کرالوں گا کیونکہ
یہ مجھے کرانا ہے اس کے بغیر یہ واضع نہیں ہوسکے گا کہ اب کیا ”چل رہا ہے
میرے من میں“۔
لیکن یقین کریں کہ میں اکثر یہ ہی سوچتا ہوں کہ کراچی انسیٹیوٹ ہارٹ ڈیزیز
جیسے اسپتال حکومت نے کیوں رکھے ہوئے ہیں؟؟ کیونکہ بقول کئی ڈاکٹرز کے آپ
کے ساتھ یہاں پر علاج نہیں زیادتی کی گئی ہے۔
لیکن میں سوچتا ہوں کہ اگر انجیوپلاسٹی کی رپورٹ ڈاکٹر امان اللہ کے شبے کے
مطابق نکلی تو پھر کس کس سے شکایت کریں گے اور ان اداروں کے ڈاکٹرز کے بارے
میں کیا کہا جائے گا؟سچ تو یہ ہے کہ میرے وطن میں سب کچھ اللہ توکل چل رہا
ہے صرف حکمران ہیں جو اپنی ” صلاحیتوں “ سے چلے جارہے ہیں انہیں کوئی نہیں
ہے جو گام دے اور عوام کی طرف متوجہ کرائے۔ |