" شوڑا مار"دے یہ لفظ گذشتہ بارہ
سالوں سے شعبہ صحافت میں ہونے کی وجہ سے سن رہا ہوں ابتداء میں تو شوڑے مار
کی سمجھ نہیں آتی تھی کہ اس کا مطلب کیا ہے بعد میں کچھ صحافی دوستوں نے
سمجھا دیا کہ شوڑا مار " پیسے لینے کو " کو کہتے ہیں اور کون کون شوڑا ماری
کررہا ہے -وقت کیساتھ ساتھ میدان صحافت میں شوڑا ماروں کی تعداد میں بھی
کسی حد تک اضافہ ہوا ہے اور ماڈرن دور میں طریقے بھی نئے آگئے ہیں -اب تو
سرکار بھی شوڑے ماری کو فروغ دے رہی ہیں اور کچھ وزراء اپنے"صوابدیدی
اختیارات" استعمال کرکے غریب عوام کا ٹیکس اس مد میں استعمال کررہے ہیںتاکہ
ان کی واہ واہ ہو-
کچھ عرصہ قبل ہمارے ایک دور کے رشتہ دار پشاور پریس کلب میں ملنے کیلئے آئے
کینٹین میں اس کیساتھ چائے پینے کیلئے بیٹھے تو اس نے بیٹھتے ہی طعنہ دیا
کہ "یار تم بھی شوڑے مار ہوگئے ہو لیکن اتنے شوڑے مارے کہ پیسے لینے کے
باوجود خبریں نہیں چلاتے "غصہ تو مجھے بہت آیا لیکن میں نے اس سے پوچھا کہ
بھائی میرے میں نے کب تم سے پیسے لئے ہیں میری تو تم سے خبروں کے حوالے سے
رابطہ بھی نہیں ہوتا تو اس نے جواب میں ایک شخص کا نام بتا دیا کہ ایک
پرگرام میں یہ شخص آیا تھا اور اس نے پروگرام کی کوریج کے بعد مجھ سے خرچہ
پانی مانگا جو میرے اس رشتہ دار نے اسے دیدئیے بعد میں کہا کہ یہ خبر مسرت
اللہ کو بھی دے جانا تو اس شخص نے مزید پیسوں کا مطالبہ کیا کہ اسے پیسے
بھی دینے ہیں اور اس کا خرچہ زیادہ ہے سو اس نے شوڑا تو دیدیا لیکن دوسرے
دن اخبار میں خبریں نہیں آئی اور اسے دکھ ہوا جو اس نے مجھے بتا دیا جس شخص
کے بارے میں اس نے مجھے بتایامیں نے اسے پریس کلب میں بلوالیا کہ میں نے تم
سے کب پیسے لئے ہیں جس پر متعلقہ شخص آئیں بائیں شائیں کرنے لگا اس دوران
گرما گرمی ہوگئی اور اس دوران اس شخص نے اعتراف کیا کہ اس نے شوڑا ماری تو
کی ہے لیکن بقول اس کے میں نے مسرت اللہ کا نام نہیں لیا خیر درمیان میں
کچھ دوستوں کی آنے کی وجہ سے جھگڑا تو ختم ہوگیا لیکن مجھے اندازہ ہوگیا کہ
شوڑاماری کیلئے کیسے کیسے طریقے لوگ اپناتے ہیں-
شعبہ صحافت سے تعلق رکھنے والے کچھ لوگ اس معاملے میں اتنا ماہرہوگئے ہیں
کہ کھڑے کھڑے لوگوں کو بیچ دیتے ہیں اور ساتھ والے کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ
کس نے کس کو کتنے میں بیچ دیا ہے ایسے لوگ بھی میں نے میدان صحافت میں
دیکھے ہیں جنہوں نے اپنے بلڈنگ قائم کردئیے ہیں حالانکہ اس شعبے میں آنے سے
قبل ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہوتا تھا تاہم اب ایسے ماہر شوڑا مار ہوگئے ہیں
کہ ان کی روزانہ کی آمدنی دو ہزار سے پانچ ہزار روزانہ تک ہیں اور یہ سلسلہ
تاحال جاری ہے -صحافیوں کو پیسے دینے جسے ہمارے ہاں شوڑا ماری کہتے ہیں کی
عادت سیاستدانوں اور پولیس نے ڈال دی ہے جسے اب کچھ صحافی اپنا حصہ سمجھ کر
وصول کرتے ہیں مختلف سیاسی پارٹیاں تو خبریں چلوانے کیلئے صحافی کو
ادائیگیاں کرتی ہیں کچھ دن قبل ہمارے صوبائی حکومت نے بھی ایسے ہی ایک
سلسلہ شروع کردیا یعنی "شوڑا ماری " کو فروغ دینے کیلئے سرکار کی سرپرستی
میں پروگرام ترتیب دیا گیا لیکن شکر ہے ہماری طرح کچھ "سرپھرے "صحافی میدان
میں آگئے اور غریبوں کی کمائی جو کہ "صوابدیدی اختیارات"کی نذر ہورہی تھی
کا سلسلہ روک دیا گیا-
کچھ عرصہ قبل پشاور یونیورسٹی کے شعبہ صحافت کے زیر انتظام ایک تربیتی سیشن
میں حصہ لینے کا موقع ملا جہاں پر صحافیوں اور سیاستدانوں کو آمنے سامنے
بٹھایا گیا اور ایک دوسرے کے دل کی بھڑاس سنانے کا موقع دیا گیا جس میں کچھ
سیاسی لوگوں نے صحافیوں پر شوڑاماری کرنے کا الزام لگایا اور کہا کہ یہ
خبریں پیسے لگا کر چلواتے ہیں اور اگر صحافت کا شعبہ صحیح انداز میں چلے تو
یہ قوم لوگ کی رہنمائی کرسکتے ہیں-ہمیں تو سمت کا پتہ نہیں کیونکہ ہم لوگوں
کی اپنی "سمت "ٹھیک نہیں قوم اور وہ بھی پاکستانی قوم کی سمت کیسے ٹھیک
کرینگے - ہمارے شعبہ صحافت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ قوم کی رہنمائی
بھی کرتے ہیں حالانکہ یہاں پر شریف صحافی تنخواہ کیلئے کام کرتے ہیں انہیں
رہنمائی کا پتہ نہیں جبکہ کچھ مخصوص لوگ صحافت کی آڑ میں پیداگیری اور شوڑے
ماری میں مصروف عمل ہیں خیر تربیتی سیشن میں جب میں نے سیاستدان سے کہا کہ
آپ لوگ شوڑے ماری کو فروغ دے رہے ہیں تو ہمارے اپنے کچھ صحافی دوستوں کو
میری یہ بات بری لگی میں نے اس بات کی وضاحت بھی کردی کہ کچھ لوگ جو ہمارے
صفوں میں بیٹھ کرسیاستدانوں کی " پی آر او شپ"کررہے ہیں کچھ لوگ کو مذہبی
جماعتیں اس چکر میں چیکس کی شکل میں ادائیگی کرتی ہیں اور کچھ صحافی ماہوار
شوڑا ماری پر سفید کو سیاہ اور سیاہ کو سفید بنا رہے ہیں اور ان لوگوں کی
وجہ سے نئے آنیوالے اور اس شعبے میں" تنخواہ"کیلئے کام کرنے والے شریف
صحافی نہ صرف بدنام ہورہے ہیںکیونکہ سفید کو سیاہ اور سید کو سفید بنانے
والوں کو شوڑا ماری کی مد میں اچھے پیسے ملتے ہیں جو دوسرے صحافیوں کیلئے
تحریص و ترغیب کا باعث بن رہی ہیں - صحافیوں پر شوڑا ماری کا الزام لگانے
والے سیاستدان ہی اس مرض کو صحافیوں میں عام کرنے میں اہم کردار ادا کررہے
ہیں-
صحافیوں کو پیسے دینے کا مرض پولیس میں بہت زیادہ ہے چونکہ یہ لوگ اپنے
افسران بالا کو خوش کرنا چاہتے ہیں اس لئے خبروں میں کاروائی سی سی پی او
کی ہدایت پر ڈی ایس پی کے حکم پر متعلقہ ایس ایچ او نے کارروائی کی جیسی
خبریں چھپنے سے خوش ہو جاتے ہیں اس لئے یہ لوگ ایسے خبریں چلوانے کیلئے
صحافی کو شوڑا ماری کی عادی کرواتے ہیں -تقریبا ایک ماہ قبل ایک تھانے میں
پریس کانفرنس کی اطلاع آئی مجھے اس ڈیوٹی کیلئے کہا گیا پریس کانفرنس کیلئے
وقت بارہ بجے کا تھا میں وقت مقررہ پر پہنچ گیا ساتھ میں ایک اور ٹی وی
چینل کا صحافی بھی موجود تھا تاہم ڈی ایس پی صاحب جو کہ پریس کانفرنس کرنے
والے تھے آدھ گھنٹے تک نہیں آئے میں نے دوسرے ٹی وی چینل کے ساتھی کو کہا
کہ نکل چلو یہ ہمیں لیٹ کروا رہے ہیں جب ہم دونوں نکلنے لگے تو متعلقہ ایس
ایچ او نے ہمیں زبردستی روک لیا کہ بس صاحب آنے والے ہیں کچھ صحافی دوست
اور بھی موجود ہیں پریس کانفرنس کے بعد موقع پر ہمیں لے جایا گیا اور
کارروائی دکھائی گئی جب ہم نکل رہے تھے کچھ مخصوص صحافیوں کو ایس ایچ او
پانچ پانچ سو روپے دینے لگا جب ہم گاڑی میں بیٹھنے لگے تو اس نے گاڑی میں
پانچ سو روپے کا نوٹ پھینک دیا اور کہا کہ یہ تمھارا "خرچہ پانی" ہے میں نے
اسے واپس کردیا کہ بھائی میری اوقات اتنی نہیں اور دوسری سب سے بڑی بات کہ
میں "خرچے پانی"والا صحافی نہیں اس پر ایس ایچ او ناراض ہوگیا اور کہا کہ
یہ دوستی میں دے رہا ہوں میں نے اسے جواب دیا کہ بھائی میرے دوستی کرنی ہے
تو "خبروں " پر دوستی کرو کہ جیسے کچھ ہو تو مجھے پہلے بتا دیا کرو اس سے
نہ صرف مجھے بروقت خبریں ملیں گی بلکہ تمھاری کارکردگی بھی آئیگی میں نے
پیسے نہیں لئے ایس ایچ او نے اس وقت بات تو مان لی لیکن اس کے بعد اس نے
رابطہ کرنا ہی بند کردیا-اسے اندازہ ہوگیا کہ یہ شوڑا ماری والا نہیں اس
لئے اسے اپنے مخصوص لائن میں نہیں لایا جاسکتا اس لئے اس نے مجھے اپنے لسٹ
سے ہی نکال دیا-خیر خبریں تو مجھے اب بھی مل رہی ہیں لیکن چونکہ میں شوڑا
مار نہیں اس لئے بروقت خبریں کبھی کبھار مس ہو جاتی ہیں-
میں اپنے آپ کو اونچے سطح کا صحافی نہیں سمجھتا اور نہ میں ہوں میں بھی ایک
عام سا آدمی ہوں جس کی خواہشات بہت ساری ہیں لیکن جب حلال سے اللہ تعالی دے
رہا ہو تو " شوڑا ماری "کی ضرورت ہی کیوں ہے -شوڑا ماری کے معاملے میں
صحافی تنظیموں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہیں کہ وہ اپسے "شوڑا ماری"کرنے والے
افراد کیلئے کوئی قانون /ضابطہ مقرر کرے تاکہ شوڑا ماری کرنے والے صحافی کی
حوصلہ شکنی ہو اسی طرح اخبارات کے مالکان/نیوز ایڈیٹرز بھی اس معاملے میں
اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں تو تبھی اس کی روک تھام ہوسکتی ہیںاسی کے ساتھ
ساتھ اگر حکمران جو کہ خود بھی غریب عوام کے ٹیکسوں پر " پل "رہے ہیں اپنے
" صوابدیدی اختیارات"کا استعمال بند کردے تو ہمارے ہاں " شوڑا ماری "بند
ہوسکتی ہیں- |