ماشاءاﷲ پاکستان 65برس کا ہو گیا
ہے۔اس 14اگست 2012 کوہم آزادی کا 65واں جشن منا رہے ہیں خوشی کے اس پر مسرت
مو قع پر میں تما م محب وطن پاکستانیوں کو اپنی طرف سے دل کی گہرائیوں سے
آزادی کی مبارکباد پیش کرتا ہوں ۔ ہم ہر سال آزادی کا یہ دن بڑے ہی جوش
وخروش اور جذبے کے ساتھ منا تے ہیںاور اس خاص دن پراپنے جذبات کا اظہار
کرنے کے لیے ہم قومی نغمے گنگناتے ہوئے اپنے شہر ، گلیوں ، محلوں اور چوکوں
کو رنگا رنگا جھنڈیوں سے سجا تے ہیں اور اپنے گھر وں کی چھتوں پر بلند سے
بلندتر پاکستانی سبز ہلالی پرچم لہر ا کر اپنی آزادی کاپر چار کرتے ہوئے اس
پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ پاکستا ن جو آج ہماری پہچان ہے اور ےہ آزادی جس پر
آج ہم اتنا اعترا رہے ہیں یہ سب کچھ اتنی آسانی سے حاصل نہیںہوا بلکہ ےہ
آزادی جیسی نعمت نتیجہ ہے ایک نڈر ،بے باک ،جواں مرد کی انتھک محنت او
رکاوشوں کا آج پاکستان دنیا کے نقشے پر موجود ہے وہ عظیم ہستی عظیم
رہنماءاور عظیم قائد محمد علی جناح تھے جن کی وجہ سے آج پوری دنیا میںہم
جانے اور پہچانے جاتے ہیں قائد اعظم کی سیاسی زندگی کا آغاز انگلستان سے
ہوا مشہور کانگریسی لیڈر دادابھائی نوروجی کے کارکن تھے اور نورو جی
محمدعلی جناح سے بے حد متاثر تھے آپ کی سرگرمیا ں دیکھ کر دادابھائی نورو
جی نے پیشنگوئی کی تھی کہ یہ نوجوان ایک نہ ایک دن ملک کی سیاست پر آفتاب
بن کر چمکے گا۔بابائے قوم محمدعلی جناح کی تقریروں میں خطبات کا جادہ تھا
وہ کم سے کم الفاظ میں بڑی سے بڑی باتیں کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے ان کا ہر
لفظ ہیرے کی طرح جڑا ہوتا تھا ۔1940ءکے تاریخ ساز اجلاس کی صدراتی تقریر
میں قائد اعظم نے فرمایا ! ہندو اور مسلم انڈیا کی تقسیم ضروری ہے مسلمان
صر ف ایسی آزادی چاہتے ہیںجو سب کے لیے ہومسلمان قومیت کی ہر تعریف کے
اعتبار سے ایک الگ قوم ہیںجو اپنا ایک منفرد مذہب ،تہذیب وتمدن ،فلسفہ ،معاشرتی
و سیاسی نظام رکھتیں ہیں اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ ہم مذہبی ،روحانی ،تہذیبی
، و سیاسی،اقتصادی او رسماجی اعتبار سے پوری طرح آزاد ہوں اور ہندو مسلم دو
پرامن ہمسائیوں کی طرح رہیں ہم ایسے کسی دستور کو برداشت نہیں کرسکتے جو
مستقل اکثریت کو حاکم بنا د ے اس لیے اب سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں کہ
ہندوستان کی دو بڑی قومیںخود کو دو مختار مملکتوں میں تقسیم کریں۔آخر کار
ہمارے عظیم قائد محمد علی جناح کی محنت رنگ لائی اور 14اگست 1947کو دنیا کے
نقشے پر ایک اور ریاست ابھرکر سامنے آئی جس کا نام پاکستان رکھا گیا ےہ جو
آج ہم آزادی کے جشن منا رہے ہیں اور ایک آزاد خودمختیار زندگی گزار رہے
ہیںےہ سب اس عظیم قائد محمد علی جناح کی مرہون منت ہے۔آزادی پاکستان کے بعد
15اگست 1947ءکو پاکستان کی پہلی کابینہ نے حلف وفاداری اٹھایا اور پاکستان
کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان مقرر ہوئے اس موقع پار قائداعظم نے فرمایا
! پاکستان وجود میں آگیا ہے اور ےہ قائم رہنے کو بنا ہے اور ایک دوسرے موقع
پر آپ نے فرمایا پاکستان کا قیام مشکل کام نہ تھا بلکہ مشکل کام اب شروع
ہوا ہے سب سے مشکل کام اسے پر وقار حشیت سے زندہ و پائند ہ رکھنا ہے۔قدرت
نے پاکستان کو سب کچھ دیا ہے او ر اب اس محنت کا ثمر ہ خود انہیںملے گا ہم
سب کا فرض ہے کہ وطن کے لیے کام کریں اور اس کی عزت بڑھائیں،علم تلوار سے
بھی زیادہ طاقتور ہے اس لئے علم کو اپنے ملک میںبڑھائیںکوئی آپ کو شکست
نہیںدے سکے گا،ہمیںتہذیب شرافت کو بھی ہاتھ سے نہیںچھوڑنا چاہیے ،کفایت
شعاری ایک قومی دولت ہے،ہماری نجات کا راستہ صر ف اور صر ف اسوہ حسنہ
ہے،میں آپ کو مصروف عمل ہونے کی تاکید کرتا ہوں کام کاماور بس کام ،سکون کی
خاطر صبروبرداشت اور انکساری کے ساتھ اپنی قوم کی سچی خدمت کرتے
جائیں،حکومت کا پہلا فریضہ امن وامان برقرار رکھنا ہے تاکہ مملکت کی جانب
سے عوام کو ان کی زندگی املاک اور مذہبی اعتقاد کے تحفظ کی پوری پوری ضمانت
حاصل ہو،تمام سرکاری ملازمین بڑے سے بڑے اور چھوٹے سے چھوٹے ہم سب مملکت کے
ملازم اور خادم ہیں۔قائداعظم کی پاکستان بنانے کی جدوجہدمحض اس لیے نہیں
تھی کہ دنیا کے نقشے پر ایک اور ریاست کا اضافہ ہوجائے بلکہ ان کا اصل مقصد
یہ تھا کہ مسلمانوں کو تہذیبی ، فکری اور مذہبی آزادی حا صل ہو،آزاد مملکت
میں ہر ایک شخص چاہے وہ امیر ہو یا غریب سب کو برابرکا ا نصاف حاصل ہو،
قانون کی بالا دستی ہو ،سیاستدان عوام پر حکمرانی کرنے کا نہیں بلکہ جذبہ
خدمت رکھتے ہوں ،افسر شاہی vip,کلچر کا خاتمہ ہو ، عوام کے ووٹ سے بننے
والے حکمران اپنے آپ کو قوم کا خادم سمجھیںاور سرکاری افسران بغیر کسی
سیاسی دباﺅ کےاپنے فرائض کو انجام دیں اب سوال ےہ پیدا ہوتا ہے کہ آزادی کے
65سال گزارنے کے بعد بھی کیا ہم نے قائد اعظم محمد علی جناح کی خواہشات کو
پور ا کیا ہے ؟کیا ہم نے ایسا آئینی خاکہ تیا ر کر لیا ہے جو بغیر کسی
امیتاز و تفریق کے سب ساتھ ےکسا ںسلوک کا حق اور ہر فرد ظلم اور جبر سے
نجات دلا سکے اور معاشرتی بُرایوں کا قلمع قمع کرے ایک پاکیز ہ ماحول دے
سکے اور جہاں جیو او رجینے دو کا اصول مرتب ہو عزت اور ناموس اووقار کا دور
دورہ ہو۔لیکن بڑے ہی افسوس اور شرمندگی سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم نے نہ صر ف
قائد کے خوابوں کو چکنا چور کیا ہے بلکہ ہم نے ہر وہ عمل کیا ہے جسے نہ
کرنے کی انہوں نے ہمیںتلقین کی تھی اور پاکستان کی سربلندی کے لئے قائد کے
بنائے ہوئے سنہری اصولوں کی پامالی کی ہے یہی وجہ ہے کہ ایک آزاد مملکت میں
رہنے کے باوجود آج بھی ہم صوبائیت ،لسانیت اورقومیت کے غلام ہیں ہم سندھی ،بلوچی
،پختونخوان اور پنجابی تو ہیں لیکن پاکستانی نہیںہیں۔ ےہاں آئین اور قانون
کی پابندی صر ف اور صر ف غریب عوام پر عائد ہوتی ہے جہاں ایک جیب کاٹنے
والے کو تو ایک سال تک کی سزا بھگتنا پڑتی ہے لیکن وہ لوگ جو قومی خزانے
لوٹ لوٹ کر کھاگئے اور ڈکار تک نہیں مارا اُن کو نہ کوئی پوچھنے والا ہے
اور نہ اُن کے لئے کوئی سزا ءہے قانون اور انصاف صرف اُس کے لئے ہے جس کی
جیب میں پیسہ ہے۔ پاکستان کاکوئی قومی ادارہ ایسا نہیں بچا جہاں کرپشن کا
بازار گرم نہ ہو چھوٹے چپراسی سے لیکر بڑے افسر تک سب رنگ برنگے نوٹوں کے
پجاری ہیں سائلین اپنے مسائل کے حل کے لئے سرکار ی دفاتر کے چکر کاٹ کاٹ کر
اپنی جوتیاں گھسا دیتے ہیںلیکن مجال ہے کہ ہمارے افسران کے کانوں پرجوں تک
رینگتی ہو۔ کرپشن، دہشت گردی، لاقا نونیت اور بیڈ گورننس آج ےہ ہے پہچان
قائد کے پاکستان کی اور کیا ےہی پاکستان تعبیر ہے قائد اعظم محمد علی جناح
کے اُس خواب کی جو انہوں پاکستان کو عظیم سے عظیم تر بنانے کے لئے دیکھا
تھا ؟ یقینا نہیں تو پھر ہمارے یہ آزادی کے جشن اور یہ خوشیاں ادھوری ہیں
جب تک ہم کرپشن ،بدامنی،بے روزگاری،مہنگائی ،جہالت،منافقانہ سیاست،بھتہ
خوری، دہشت گردی، ذخیرہ اندوزی، بجلی ،گیس کی لوڈشیڈنگ اور نااہل حکمرانوں
سے آزادی حاصل نہیں کرلیتے۔14 اگست ہم1947ءہم نے پاکستان بنا یا تھا لیکن
اب ہم نے پاکستان بچانا ہے تو آﺅ سب مل کر اور ایک ہوکر یہ عہدکریں کہ ہم
ان برائیوں سے آزادی حاصل کر کے رہیں گے اور انشاءاﷲ پاکستان کو عظیم تر
بنانے والے قائد کے خواب کو حقیقت کا رنگ دیں گے۔ |