یہ نسخہ بھی آزمائیں

آج جو حالت پاکستان کی ہے اور جس طرح اندرونی اور بیرونی سازشوں کے چنگل میں یہ ملک پھنسا ہوا ہے کبھی ایسی ہی حالت ایران کی بھی تھی ایک طرف روسی یلغار تھی کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہی تھی اور دوسری جانب برطانیوں خفیہ اداروں نے ملکی نظام تہ و بالا کر رکھا تھا، بادشاہ شاہ احمد کاچار کی حالت راجہ پرویز اشرف اور یوسف رضا گیلانی جیسی تھی۔طاقت کا منمبہ کابینہ کے کرپٹ وزیر تھے جو ملکی حالت کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے تھے۔ فوج کا مورال انتہائی پست تھا جبکہ جرنیل بڑی بڑی جاگیروں اور عالی شان محلوں میں دار عیش لے رہے تھے۔ صوبائی حکومتیں کمزور اور بد انتظامی کا شکار تھی ۔ کرمان اور سیستان میں انگریز اور روسی مداخلت ہی تھی کہ دونوں بڑی قوتوں کے ایجنٹ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے مقامی ایجنٹوں کی مدد سے ایرانیوں کا خون بحا رہے تھے۔ افغانستان ہمیشہ کی طرح گریٹ گیم کا اکھاڑہ بنا ہو ا تھا۔ اور ایران اس کھیل سے بری طرح متاثر ہو رہا تھا۔ بغداد پر انگریز کی گرفت تھی اور ترکی کمال ازم کی لپیٹ میں آ رہا تھا۔

روڈ ٹو مکہ کا مصنف محمد اسد لکھتا ہے کہ ہر قوم میں ایک ہیرو چھپا ہوتا ہے ایرانیوں کو بھی سپاہی محمد رضا کی صورت میں ایک ہیرو میسر آگیا۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے اور بالیشوک انقلاب کے بعد روسیوں نے شمالی ایران سے فوجیں واپس بلانی شروع کیں تو روس کیمونسٹ انقلاب کی زد میں آ گیا ۔ کیمونسٹ انقلابیوں کی مدد سے ایرانی صوبہ گیلان کے ایک بڑے سردار کوچک خان نے بغاوت کر دی اور پے در پے ایرانی فوجی یونٹوں کو پیچھے دھکیلنا شروع کر دیا۔ ایرانی افسر روسیوں کے نام سے گبھراتے تھے اور جدھر سے دباﺅ پڑتا وہاں سے بھاگ نکلتے۔ ایسے ہی ایک محاز پر روسی توپخانے نے بمباری شروع کی تو افسروں نے پسقدمی کا حکم دے دےا۔ ایرانی سپاہی بھاگ رہے تھے کہ ان پرسپاہی رضا نے اپنے ساتھیوں کو للکارہ اور طعنہ دیا ۔ رضا نے کہا اے دارا، خسرو، جمشید ،کیقباد اور کنان کی اولادو کچھ غیرت کرو آخر تم بھاگتے کیوں ہو؟ سپاہیوں نے کہا ہمیں لڑانے والا کوئی نہیں ، ہمارے پاس کوئی منصوبہ نہیں ، ہمارا کوئی لیڈر نہیں ، ہم کیسے لڑیں ؟ رضا نے کہا میرے پاس منصوبہ ہے، میں تمارا لیڈر بنوں گا اور میں تمہیں لڑاﺅ نگا کیا تمھیں منظور ہے۔افسرمیدان سے بھاگ گئے اور جوانوں نے کہا ہاں ہم تمہیں لیڈر مانتے ہیں اور ہمیں تمہاری قیادت منظور ہے۔ رضا نے کچھ سپاہیوں کو مورچہ بند کیا اور ایک ٹکڑی کی مدد سے روسی توپخانے کی بیٹری پرعقب سے حملہ آور ہوا۔روسی فوجی مارے گئے اور توپوں کا رخ روسیوں کی جانب ہو گیا۔مورچہ بند سپاہی آگئے بڑھے اور روسیوں کو پیچھے دھکیلنا شروع کر دیا۔ بادشاہ سلامت کو خبر ہوئی تو چٹے ان پڑ ھ رضا کو میدان جنگ میں ہی کپتان بنادیاگیا۔ رضا نے اپنے نام کے ساتھ خان کا اضافہ کر لیااور قزاق قبائلیوں کو فوج میں بھرتی کر کے ایک بریگیڈ ترتیب دیا۔

رضا کو چند یو م بعد میجر ، پھر کرنل اور آخر میں قزاق بریگیڈ کا بریگیڈکمانڈر بنا دیا گیا۔ گیلان میں بغاوت ختم کرنے کے بعد رضا نے اندرونی حالات پر توجہ دی اور قزاق بریگیڈ کے دوافسروں اور اپنے دوست صحافی ضیاالدین کی مدد سے شاہی محل پر قبضہ کر لیا۔ رضا نے احمد شاہ کو حکم دیا کہ وہ کرپٹ کا بینہ کا خاتمہ کرے اور اس کے تجویز کندہ اشخاص پر مشتمل نئی کا بینہ کا اعلان کرے ۔ احمد شاہ نے شاہی فرمان جاری کیا جسکے مطابق رضا وزیر دفاع اور ضیاالدین وزیراعظم بن گیا۔ کرپٹ کا بینہ کو قزاق بریگیڈ نے گرفتار کر لیا۔ بہت سے مارے گئے اور جو گرفتار ہوئے انکا انجام بھی برا ہوا۔ ایرانی اشرافیہ جو لوٹ کھسوٹ میں ملوث تھی ملک سے بھاگ گئی اور جو بھاگ نہ سکے وہ قزاق بریگیڈکے ہتھے چڑ ھ گئے ۔

یہ زمانہ 1921ءکا تھا جب علم و ادب کا گہوارہ ایران ان پڑھ سپاہی رضا اور اس کے قزاق بریگیڈ کی گرفت میں آرہا تھا۔ ضیاالحق کے ساتھی جنرل چشتی اور پرویز مشرف کے جنرل عزیز اور عثمانی کی طرح رضا کے ساتھی افسر جلد ہی منظر سے ہٹ گئے۔ رضا بدستور وزیر دفاع رہا اور وزیر اعظم ضیاالدین نے لندن سے سرنکالا اور سیاسی پناہ حاصل کر لی۔ رضا خان نے دوستوں سے جان چھڑائی اور دشمنوں کی طرف متوجہ ہوا۔ اسکا پہلاہدف قاچار قبیلے کا آخری بادشاہ احمد شاہ تھا۔وزیر اعظم رضا خان نے اعلان کیا کہ بادشاہ سلامت طویل رخصت پر یورپ جارہے ہیں۔ رضا خان نے احمد شاہ کا سامان بھندوایا اور شاہی جلوس کے ساتھ عراق کی سرحد تک گیا۔ سرحدی چوکی پرایرانی فوج نے احمد شاہ کو شاہی سلامی پیش کی اور وزیر اعظم رضا خان نے جھک کر بادشاہ کا ہاتھ چوما اور کہا "اگر حضور اعلیٰ کبھی زندگی میں ایران آئے تو یہ کہنے پر مجبور ہو جائینگے کہ رضا خان اس دنیا کے متعلق کچھ بھی نہیں جانتا"۔

محمد اسد کے مطابق سانپ اور سیڑھی کا یہ کھیل دس سال کے اندر اندر مکمل ہوا۔ محمد اسد لکھتے ہیں کہ تہران میں جرمن ایمبیسی کے ھیڈ کلرک نے انھیںبتایا کہ دس سال پہلے محمد رضا ایمبیسی کے باھر سنتری کی ڈیوٹی انجام دیتا تھا اور تہران کی کسی جھوپڑپٹی میں رہائیش پذیر تھا۔ وہ ایک بھدا اور بظاہر بیوقوف سپاہی تھا ۔ وہ ڈھیلی ڈھالی وردی میں ملبوس رہتا اور کبھی بھی اپنی وردی کو دھونے یا استری کر نے کی زحمت نہ کرتا ھیڈ کلرک نے بتا یا کہ کبھی کبھی وہ رضا کو بلا کر اسے ارجنٹ لیٹر دیتا اور کبھی کبھی ساتھ دو چار گالیاں بھی دیتا کہ جلدی جا کر لیٹر وزارت داخلہ میں دے آﺅکہیں بازار میں نہ گومتے رہنا ۔ پھر ھیڈ کلرک آہ بھرتا اور کہتا ،"دیکھو میں آج بھی کلرک ہی ہوں اور ان پڑ ھ رضا خان کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے" آج پاکستان کی حالت 1921,اور1924کے ایران سے مختلف نہیں مگر اس ملک میں کو ئی قزاق سپاہی محمد رضا خان بھی نہیں ۔ رضاخا ن ان پڑ ھ تھا مگر ملک ریا ض کچھ نہ کچھ پڑھا لکھا بھی ہے ۔
سپاہی رضا نے میدان جنگ میں قزاق سپاہیوں کی مدد سے اپنی ترقی کا آغاز کیا جبکہ ملک ریاض نے جرنیلوں کی مدد سے راولپنڈی اور لاہور کے ارد گرد فتوحات کے جھنڈے گاڑ دیے ۔ رضا خان دس سال میں وزیر اعظم اور 15سال بعد ایران کا بادشاہ بن گیا جبکہ ملک ریاض 15سالوں میں بادشاہ تو نہ بنا مگر بادشاہ گربن گیا ۔ پاکستان کی قومی قیادت ملک ریاض سے خائف ہے اور قومی اسمبلی اس کی سہولیات کے لیے قانون سازی پر مجبور ہے ۔ عوام بد حال اور بد ہواس ہے اشرافیہ ملک ریاض سے متفق اور بیورو کریسی خدمت گزار اور تا بعدار ہے۔ ملک ریاض کا دفتر جرنیلوں کاری ایمپلائمنٹ اور صحافیوں کا سہولت سنٹر ہے۔ملک ریا ض کو کسی قزاق بر یگیڈکی بھی ضرورت نہیں اسکے پاس پہلے سے ہی سیالکوٹ بر یگیڈ موجود ہے۔ 9جرینلوں کی کمان 15ہزار ریٹا ئر ڈ فوجی قزاق بریگیڈ سے بہتر کام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ ملک ریاض صلاحیتوں کے لحا ظ سے سپاہی رضا خان سے بدرجہا بہتر تقاضوں سے بہرہ ور ہے ۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ چوہدری شجاعت حسین کی جانب سے اتحادی سیاسی جماعتوں کے قائدین کی ایک کانفرنس بلائی جائے اور جناب صدر صا حب ایک حکم کے ذ ریعے ملک ریاض کو ملک کا بادشاہ تسلیم کرلیں ۔ اسطرح یہ ملک ملک ریاض کی منشاءکے مطابق حکومتیں ٹوٹنے کے عذاب سے بچ جائے گا۔ سیاستدان پہلے سے ہی ملک ریاض سے ادھار کھائے اور اسکی دی ہوئی بلٹ پروف گاڑ یو ں اور دیگر سہولےات کے ساتھ حکومتی امور میں بھی شامل رکھیں گے میں دعوے سے کہتا ہوں کہ بادشاہ ملک ریاض چوہدری شجاعت ، آصف علی زرداری ، نواز شریف ، اسفند یار ولی ، الطاف حسین ، عمران خان اور دیگر کی نسبت ملکی نظام بہتر طور چلائیں گے ۔ چند مہینوں میں ریلوے ، واپڈا ، پی آئی اے اور دیگر ا دارے کمرشلائز ہوجائیں گے اور بہترانداز سے چلیں گے۔ ریکوڈک کا سونا ، تانبا ، پیتل مارکیٹ میں پہنچ جائے گااور تھر کا کوئیلا بجلی پیدا کرنے لگے گا ، کالا باغ اور باشاہ ڈیم بن جائیں گے اور ایم کیو ایم ، اے این پی اور قوم پرستوں کو ان کا حق ایڈوانس میں دے دیاجائے گی ملک ریاض کو پتہ ہے کس کی کیا قیمت ہے اور ادائیگی کیسے کرنی ہے۔امریکہ فوج اور یورپی یونین کو بھی ملک ریاض پر اعتراض نہ ہوگا ۔یورپی اقوام اور امریکہ بادشاہوں کو پسند کرتا ہے چونکہ ان سے ڈیل کرنا آسان رہتا ہے جب سے ملک ریاض نے عدلیہ کے ساتھ سینگ پھسانے کی غلطی کی ہے اسے احساس ہو گیا ہے کہ رعونیت اور تکبر کے بجائے سادگی اور غریب پروری کے لبا دے میں کرپشن کرنا آسان رہتا ہے ۔ سنا ہے کہ ملک ریاض نے اپنے متاثرین اور محصور بستیوں میں مفت راشن تقسیم کرنا شروع کر دیا ہے اور جن دیہاتوں کے گرد گہری کھائیاں اور مٹی کے پہاڑ کھڑ ے کیے تھے وہاں کچھ آسانیاں فراہم کرنے کا فیصلہ بھی کیا ہے ۔ ملک ریاض نے اپنے متاثرین سے دعا کی بھی اپیل کی ہے کہ سپریم کورٹ سے فارغ ہوکر انھیں مزید سہولیات دی جائینگی ۔ ملک ریاض کو چاہیے کہ وہ بادشاہ بننے سے پہلے محصور رین بحریہ ٹاﺅ ن کو ماڈل بستیو ں میں بدل دیں اور ان لوگوں کو بحریہ ٹاﺅن میں نوکر یاں دے کر انھیں آباد کردیں ۔ ماڈل بستیوں کے ساتھ ماڈل زرعی فارم بھی بنائیں تو یہ لوگ ان کی رعایا میں سب سے پہلے شامل ہونگے اور سیالکوٹ بریگیڈکا حصہ بن جائینگے ۔ ملک صاحب اگر بحریہ ٹاﺅن کو کوئی اسلامی نام دے دیں تو دینی جماعتوں کے لیے انھیں بادشاہ تسلیم کرنے میں آسانی رہے گی۔

وہ ٹی وی اینکر ، تجزیہ نگار اور دانشور جنھیں ملکی حالات کا غم کھائے جا رہا ہے اور وہ ملک کے مستقبل سے مایوس ہیں انھیں اب بادشاہی کا تجربہ کرنا چاہیے۔ پچھلے پینسٹھ سالوں سے سیاست دانوں اور جرنیلوں نے جس انداز سے یہ ملک چلایا اس کی مثال نہ سیاسی اور جمہوری تاریخ میں ملتی ہے اور نہ ہی ڈیکٹیٹر شپ میں۔ سیاست دان جمہوریت چلانے کے لیے جرنیلوں کا سہارہ لیتے اور جرنیل حکمران بنتے ہی سیاست دانوں سے رشتہ داریاں جوڑ لیتے ہیں۔ ایوب خان نے سیاسی اور صنعتی گھرانوں سے رشتے قائم کیئے اور ضیا الحق نے سیاست دانوں اور دینی جماعتوں کو اپنا ہم خیا ل بنا لیا۔ گجرات کے چوہدری، لاہور کے میاں، ملتان کے مخدوم ، سند ھ اور بلوچستان کے سردار، وڈیرے ، پےر ، جاگیرداراور خیبر پختونخواہ کے خان، جرنل ضیا الحق کی حکمرانی کو سہارہ دیتے رہے۔ جرنل مشرف کی ٹیم میں مائینس میاں باقی سارے چہرے وہی تھے جو دس سال تک جرنل ضیا الحق کے دیدار سے فیض حاصل کرتے رہے۔

اب ذرا سیول سوسائیٹی کا جائزہ لیں تو تصویر کا دوسرا رخ بھی ایسا ہی ہے۔ سکندر مرزا نے ایوب خان کو وزیر دفاع لگایا اور فوج کا سہارہ لیا ۔ رضا خان کی طرح ایوب خان نے بھی سکندر مرزا کو سلیپنگ گون میں جہاز پر بٹھایا اور تہران بجھوا دیا۔ ذولفقار علی بھٹو نے ضیا الحق کا چناﺅ کیا اور اپنے انجام کو پہنچے۔محترمہ بینظیر نے اسلم بیگ سے خفیہ معائدہ کیا مگر تجربہ ناکام رہا۔ میاں نواز شریف اور فوج کے درمیان اچھے تعلقات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ۔ میاں صاحبان کرکٹ کے کھلاڑی بھی تھے اور کھیل کے اصولوں سے باخوبی واقف ہیں۔ فوجی دوستی میں لائن ائینڈ لینتھ کا خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے ۔ میاں صاحبان پر ہیوی مینڈیٹ کا بوجھ پڑا تو وہ بنیادی اصولوں سے انحراف کرنے لگ گئے ۔ میاں صاحبان یہ بھی بھول گے کہ کھیتی باڑی بیلوں اور ٹرکٹوں سے کی جاتی ہے ہاتھیوں اور ٹینکوں سے نہیں۔ ہاتھی اور ٹینک کھیت تباہ کرتے ہیں آباد نہیں! میاں صاحب نے مشرف کا چناﺅ کیا اور مشرف نے انھیں چلتا کیا وہی سیاسی خانوادے پیر، وڈیرے، گدی نشین اور سردار جو کبھی ایوب خان کے ساتھ تھے ان کے پوتے پوتیاں اور بیٹے بیٹیاں پرویز مشرف کی حکومت میں بھی موجود رہے۔ فوج اور پیپلز پارٹی میں این آر او ہوا تو مسلم لیگ (ق) نے اس کی تعریفوں کے گیت گائے اورخوشیوں کے بینڈ بجائے۔

فوج نے اپنے وعدے کا پاس کیا اور حکومت کو جمہوریت کی آڑ میں کرپشن اور بد انتظامی کا لائسنس مل گیا۔ وہ سب گھرانے جو پرویز مشرف کی روشن خیال حکومت کا حصہ تھے زرداری حکومت کا حصہ بن گے۔ جمہوریت، آمریت، ضیاالحق کا شرعی نظام ، بھٹو کا سوشل ازم اور پرویز مشرف کی روشن خیالی سب نظام ناکام ہو گیے اور ،ملک بد حال اور قوم خستہ حال ہو گئی ۔ اب اگر بادشاہی نظام کے نسخے کو بھی آزماءلیا جائے تو اس میں کیا حرج ہے۔
asrar ahmed raja
About the Author: asrar ahmed raja Read More Articles by asrar ahmed raja: 95 Articles with 90690 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.