وہی عید شاپنگ کا ٹنٹا

بعض ایونٹ خواہ دِل کش اور دِل رُبا دِکھائی دیتے ہوں، تاثیر اُن کی خاصی رنج بخش ہوتی ہے۔ سیانوں نے سچ ہی کہا ہے کہ ہر چمکیلی چیز سونا نہیں ہوتی۔ ہر سال رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی عید کی تیاریاں آسیب بن کر ہمارے حواس پر سوار ہو جاتی ہیں۔ عید شاپنگ بھی ایک ایسا ہی معاملہ ہے جو نزدیک اور دونوں سے یکساں دِل کش اور دلچسپ دکھائی دیتا ہے مگر جو اِس مرحلے سے گزرتا ہے کچھ وہی جانتا ہے کہ
.... کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک!

عید الفطر کی آمد میں ابھی وقت ہے مگر اِس سے قبل ہی عیدالاضحیٰ کا سماں پیدا ہوچلا ہے۔ تنخواہیں دھڑا دھڑ ذبح ہو رہی ہیں، بلکہ بعض صورتوں میں تو اُن کا جھٹکا کیا جارہا ہے! لوگ جب اہل خانہ کے ساتھ عید شاپنگ کے لیے گھر سے نکلتے ہیں تو آنے والے مہینے کے لیے گھریلو خریداری پر فاتحہ پڑھ لیتے ہیں! وہ جانتے ہیں کہ جب کوئی ذبح ہونے کو تیار ہو تو چُھری کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا! لوگ عید شاپنگ کے لیے کچھ اِس اہتمام کے ساتھ بازاروں کا رُخ کرتے ہیں گویا
آج واں تیغ و تبر باندھے ہوئے جاتا ہوں میں
عُذر میرے قتل کرنے میں وہ اب لائیں گے کیا!

گھر والوں کو عید کی بھرپور شاپنگ کرانے کے بعد جب لوگ گھر واپس آتے ہیں تو اُن حالت دیکھ کر خیال آتا ہے
میں خود مرنے پہ راضی تھا، قضا کے ہاتھ کیا آیا!

آج کل شہر میں جس طرف نظر دوڑائیے، عید کی تیاریوں کے بھاگ دوڑ دکھائی دیتی ہے۔ ایسے میں یوم آزادی کی آمد نے بھی جشن منانے کا معاملہ دو آتشہ کردیا ہے۔ بعض غریبوں کا حال تو کچھ ایسا ہے کہ جشن آزادی کے لیے خریدے ہوئے پرچم ہی سے عید کا جوڑا تیار کرنے کا سوچ رہے ہوں گے! اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عید پر اُن کے ہاتھ میں پرچم کا ڈنڈا ہی رہ جائے!

مہنگائی کا عالم تو یہ ہے کہ کل کلاں کو لوگ عید کی آمد پر مسرت کے اہتمام کا سوچنے سے بھی خوف کھائیں گے! جس طرف دیکھیے اور جہاں بھی جائیے، خون پسینہ بہاکر کمائے جانے والے چند روپے غریبوں کے ہاتھ سے یوں نکلتے پھسلتے دکھائی دیتے ہیں جیسے مقناطیس کے دو مخالف سِرے ایک دوسرے سے نہ ملنے پر تُلے رہتے ہیں! جن کی آمدنی محدود ہو اُنہیں عید کی خریداری کرتے ہوئے دیکھنا بجائے خود دلچسپ تماشے سے کم نہیں! بازار جائیے تو ہر طرف سامان کم اور تماشے زیادہ دکھائی دیتے ہیں۔ بھیڑ کا یہ عالم ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے ٹکرائے بغیر گزر نہیں سکتے۔ مگر جب شاندار بھیڑ دیکھتے ہوئے دکانداروں کو بھرپور سیل کی مبارک باد دیجیے تو وہ شِکوہ کرتے ہیں کہ لوگ بازاروں میں خریداری کم اور تفریح زیادہ کرتے ہیں! دکاندار یہ بھی کہتے ہیں کہ چھوٹے علاقوں میں تو یہ حال ہے کہ کِسی لڑکی کو دھاگے کی ایک ریل یا ڈریس مٹیریلز کا کوئی اور آئٹم خریدنا ہو تو دو تین لڑکیوں کو لیکر بازار جاتی ہے! یعنی دکانداروں کے ہاتھ تو کچھ خاص نہیں آتا، بس یہ ہے کہ ”اہل نظر“ کے لیے تھوڑا بہت رونق میلہ لگا ہوا ہے! یہ وہی کیفیت ہے جو قربانی کا جانور جانور خریدنے کے موقع پر دکھائی دیتی ہے۔ یعنی جانور خریدنے والا ایک ہوتا ہے اور اُس کی معاونت کے لیے گاڑی میں پندرہ افراد سوار ہوتے ہیں!

حالات اور اُن کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مہنگائی نے کچھ ایسی عجیب کیفیت پیدا کردی ہے کہ اب لوگ ہر چیز میں تفریح کا پہلو تلاش کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ پریشانیاں سیلابی ریلے کی طرح اُمڈی چلی آتی ہیں اور اُن سے نمٹنے کی عجیب و غریب حکمتِ عملی دلچسپ تماشوں کو جنم دیتی ہے! عید بھرپور انداز سے منانے کی سکت جن میں برائے نام رہی ہو وہ جب جشن طرب کا اہتمام کرنے نکلتے ہیں تو کیفیت کچھ یہ ہوتی ہے کہ
زندگی! تو نے مجھے قبر سے کم دی ہے جگہ
پاؤں پھیلاؤں تو دیوار سے سَر لگتا ہے!

لطیفہ یہ ہے کہ لوگ زندہ رہنے کے لیے درکار وسائل کو بھی عید شاپنگ کی بَھٹّی میں جھونک دیتے ہیں۔ اور اِس کے بعد اُن پر کیا گزرتی ہے یہ ہم آپ سب اچھی طرح جانتے ہیں کیونکہ ہم پر تو یہی کچھ گزرتی رہی ہے! ایسے میں دانش مندی تو یہ ہے کہ اہل خانہ کو عید شاپنگ کے وعدے پہ ٹرخاتے ٹرخاتے رمضان کے پہلے دو عشرے گزار لیجیے اور تیسرا عشرہ اعتکاف میں گزار دیجیے!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 524560 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More