ہوا کے دوش پر۔ سائیبر ادب

میں اڈی اڈی جاواں ہوا دے نال

ہوا کے دوش پر اڑنے کی خواہش نہ صرف زبیدہ خانم کو تھی، بلکہ فی زمانہ ہر شعبہ زندگی کی ہے۔ گزشتہ ایک دہائی سے یہ دنیا ہواؤں میں اڑی جا رہی ہے۔ کیا کاروبار، لین دین، کیا دفتری معاملات، کیا علم و فن اور کیا تفریح۔ سب اسی ہوا ؤ و ہوس میں ہیں ۔ ہر شعبے کے ساتھ اب لفظ ای لگ چکا ہے جیسے ای کامرس، ای نیوز پیپر، ای میگزین، ای فارم وغیرہ وغیرہ۔ہمارے اردو فورمز کے زندہ دلان نے اس کا ترجمہ‘ برقی’ کیا ہے لہٰذا ای بکس کو برقی کتابیں کہا جاتا ہے۔نہ ہوئے شفاف تحریک کے بانی جناب اکرام اللہ انور صاحب، ورنہ وہ اس زمرے میں کئی ایک خوفناک الفاظ ایجاد کر چکے ہوتے۔ اب تو خیر سے جرائم بھی اسی زمرے میں آتے ہیں اور سائیبر جرائم کہلاتے ہیں۔

پچھلے چند سالوں کو چھوڑ کر یہ دنیا بنیادی طور پر نہ صرف کاغذ سے منسلک رہی ہے بلکہ اسی کاغذ پر کلیتاً انحصار کیے ہوئے تھی یعنی بقول غالب کاغذی تھا پیراہن ہر پیکرِ تصویر کا۔

ایک مشہور روسی ادیب کا افسانہ اس وقت ہمیں یاد آ رہا ہے جس میں موصوف ایک مشکل صورتحال میں بری طرح پھنس جاتے ہیں۔ ایک کرم فرما انھیں اس صورتحال سے نکلنے کا رستہ سمجھاتے ہوئے ان کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ ایک تصدیق نامہ لے آئیں، ان کا کام ہو جائے گا۔ وہ حضرت اپنی جیب میں ہاتھ ڈال کر ایک خط نکالتے ہیں اور متعلقہ کلرک کے ہاتھ میں تھما دیتے ہیں۔

کلرک اس کاغذ پر لکھی ہوئی عبارت کا پہلا جملہ‘‘ ہم تصدیق کرتے ہیں کہ۔۔۔۔۔’’ پڑھ کر ان کا مسئلہ حل کر دیتا ہے۔

کم و بیش یہی صورتحال ہر شعبہ زندگی میں تھی۔ کتاب، کاپی، خط، تصدیق نامہ، تار، انسانی زندگی کا انحصار انھی چند کاغذوں پر تھا۔ہمارے ہاں تو محکمہ ڈاک کی کارکردگی الا ماشاء اللہ لیکن مغربی ممالک میں صورتحال کچھ یوں تھی۔ شرلاک ہومز عموماً اپنے ساتھی ڈاکٹر واٹسن کو خط لکھا کرتے تھے کہ ‘‘ آج ساڑھے چار بجے کی ریل گاڑی سے یہاں پہنچ جائیے۔’’

کہتے ہیں کہ سب سے بڑا بیوقوف وہ ہوتا ہے جو اپنی کتاب کسی کو پڑھنے کے لیے عاریتاً دیدے۔ اور اس سے بڑا بیوقوف وہ ہوتا ہے جو کتاب پڑھ کر واپس بھی کر دے۔ اب سے پیشتر کتابیں مانگ کر پڑھنے کا رواج عام تھا۔ ‘‘ مانگے کی کتا بیں واپسی پر’’ کچھ اس قابل نہ رہ جاتیں کہ انھیں دوبارہ پڑھا جا سکے۔ ایک شاعر نے تو ایک عجیب شکوہ کیا۔

مجھ کو شکوہ ہے مرے بھائی کہ جاتے جاتے

لے گئے ساتھ مری عمرِ گزشتہ کی کتاب

یہ کتاب کاغذی تھی یا برقی، اس کا علم مصنف کو نہ ہو سکا۔

اِدھر فنونِ لطیفہ اور دیگر اصنافِ ادب کا بھی یہی حال تھا۔ کاغذ کے ساتھ ان کا اٹوٹ رشتہ کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ کسی ادیب، شاعر، افسانہ نگار، ناول نگار، کہانی نویس، سیاح، انشاء پرداز کی معراج اسکی تخلیقات کا چھپ کر بازار میں آ جانا ہوتا تھا۔ اور اسی امید میں وہ راتیں کالی کیے بیٹھے دفتر پہ دفتر سیاہ کیے جاتے تھے۔

شاعری کا مزاج اک ذرا مختلف تھا۔ شاعر کی معراج مشاعرے میں اسکے سامنے شمعِ محفل کا آ جانا اور سامعین و حاضرین کے دادو تحسین کے ڈونگرے ہوتے تھے۔ لیکن پھر رفتہ رفتہ شاعری بھی اسی ڈھنگ میں رنگی گئی تھی اور شاعر کی معراج بھی اس کے مجموعہ کلام کا چھپ کر کتابی شکل میں آ جانا ٹھہرا۔

اب سے کم و بیش دس سال پہلے ایک تحریک اٹھی اور عرصہ چند سال میں اس نے پوری دنیاء کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ یہ تحریک پیپر لیس آفس یا بنا کاغذ دفتر کی تحریک کہلاتی ہے۔ ای میل جو اب تک ایک غیر رسمی تبادلہ خیال تصور کیا جاتا تھا، اس نے آہستہ آہستہ رسمی خط و کتابت کی شکل اختیار کر لی۔

انٹر آفس میمو یا بین الدفتری یاد داشتوں اور خطوط نے بھی ای میل میں جگہ پائی۔ کتابیں برقی نوع میں تبدیل کی جانے لگیں۔بین الاقوامی جہازوں سے سامان کی ترسیل اور کسٹم حکام سے اسے چھڑانے کے عمل کو بھی سائیبرا دیا گیا۔ اب جہاز کی آمد سے پہلے اس کی غیر کاغذی سائبر کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے تاکہ سامان کی آمد کے ساتھ ہی اسے، بلا تاخیر منزلِ مقصود کی طرف روانہ کیا جا سکے اور باعثِ تاخیر امور کو پہلے ہی نمٹا دیا جائے۔ہوائی جہاز کے ٹکٹ بھی جو کاغذی پیراہن میں دستیاب ہوتے تھے، اک دن ان کے جی میں کیا آئی کہ عریاں ہو گئے۔ہمارے پاس ہمسایہ دوست ملک چین سے ایک انجینئر صاحب وارد ہوئے اور ہمیں ان کے ساتھ کام کا موقعہ ملنے کی وجہ افسرِ تعلقاتِ عامہ بھی بنا دیا گیا، یعنی افسر بکارِ خاص برائے چینی انجینئر دوست۔ ہم اس ذمہ داری کے ملنے پر پھولے نہ سمائے اور فوراً اس چینی دوست سے اس کے جہاز کے ٹکٹ کا مطالبہ کر دیا تاکہ اسے واپسی کے سفر کے لیے بکنگ کی خاطر اپنے دفتر بھجوا سکیں۔ اس کے جواب نے ہم پر واضح کر دیا کہ ہم تکنیکی طور پر اکیسویں صدی میں داخل ہو چکے ہیں۔ اس نے بتایا کہ چونکہ وہ ای ٹکٹ پر سفر کرتا ہوا یہاں تک پہنچا ہے لہٰذا اس کے پاس کوئی کاغذی ثبوت موجود نہیں۔ اس نے ائر پورٹ پہنچ کر اپنا شناختی کارڈ پیش کیا اور کہا کہ اس کی فلائٹ بک کی جاچکی ہے۔ ائر پورٹ حکام نے کمپیوٹر پر چیک کر کے اسے بورڈنگ پاس عطا فرما دیا ور اس طرح وہ پاکستان پہنچ گیا۔ہم بہت خوش ہوئے اور کراچی واپس آتے ہوئے ہم نے بھی لاہور ائر پورٹ پر اپنے ٹکٹ کا نمبر دکھایا جو ہمیں برقی ذرائع سے حاصل ہوا تھا اور ٹرمنل کی عمارت میں داخل ہونے کی کوشش کی جس پر ہمیں واپس باہر ہوائی کمپنی کے حکام سے مشورے کے لیے کہا گیا تاکہ ہم ایک کاغذ پر چھپا ہوا ٹکٹ حاصل کر سکیں۔ ہمیں یقینِ کامل ہو گیا کہ ہم بناء کاغذ کی اکیسویں صدی میں داخل ہو چکے ہیں۔

نوبت بایں جا رسید کہ ردی کی ٹوکری جو مدیروں اور پبلشروں کی بہترین دوست ہوا کرتی تھی، اب ری سائیکل بِن میں تبدیل ہو گئی ہے۔ اب مدیروں اور پبلشروں کو تازہ واردانِ بساط ہوائے دل کی تخلیقات یعنی ردّی کے ٹھکانے لگانے کے بارے میں ذرا بھی فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں رہی۔ ایک ماؤس کلک ان بد نصیب تخلیقات کو تحت الثریٰ کی عمیق گہرائیوں میں پھینک دیتی ہے، اور بیچارے تازہ واردان ماضی کی طرح انِ کی نگاہِ تغافل کا شکار ہو کر طاقِ نسیاں پر دھرے رہ جاتے ہیں اور اس طرح گوشہ گمنامی کے بھیانک غار میں چھپ جاتے ہیں۔

خدا خوش رکھے ان امریکن کمپنیوں کو جنھوں نے ایک طرف تو سائیبر اشتہار بازی سے پیسہ بنایا اور دوسری طرف ہم جیسے خانماں آبادوں کے لیے نیٹ پر مفت جگہ کا انتظام کر دیا کہ ہم اس پر اپنی تمام تر غیر شائع شدہ تخلیقات کو نمایاں طور پر عوام الناس کے لیے پیش کر سکیں۔ ہمارا وطیرہ یہ رہا ہے کہ ہم اب تک اپنی رودادِ شہرِ ذات کو صفحہ قرطاس پر منتقل کرنے کے بعد خود ہی اپنے گھر کی ردی کی ٹوکری کی نظر کر دیتے تھے ۔

وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے، ہم اپنی وضع کیوں بدلیں

سبک سر بن کے کیا پوچھیں کہ ہم سے سرگراں کیوں ہو

اب ہم ان مدیروں اور پبلشروں سے کیسے پوچھتے کہ آپ نے ہماری اس تخلیق کو ردی کی ٹوکری میں ڈالتے وقت کیا سوچا تھا۔ ہم جی کڑا کر کے اپنی تخلیقات کو خود ہی زمین میں دفن کر دیتے اور مطمئن ہو جاتے۔ بالآخر ایک دن اچانک ہم پر منکشف ہوا کہ ہم بھی اپنے کمپیوٹر پر اردو لکھ سکتے ہیں اور سائبر فائلیں بنا کر انٹرنیٹ پر اپنا ذاتی بلاگ بنا سکتے ہیں۔ پھر کیا تھا، ہم بھی ماڈرن زمانے کے سائبر ادیب بن گئے اور اپنا ذاتی بلاگ بنا کر اپنی نئی تخلیقات اس پر ڈھیر کرنے لگے۔ ایک دن یونہی سرفینگ کرتے ہوئے اردو کا ایک ویب پیج نظر آیا تو اس کے ممبر بنے اور وہاں بھی ہماری تخلیقات کو جگہ دی گئی، اسی اثناء میں کئی اردو فورمز پر ممبر بنے تو جو پذیرائی ہوئی اس نے سائبر ادب کی اہمیت کے بارے میں ہمارے ایقان کو راسخ کر دیا۔اِدھر ایک اردو فورم پر اپنے تعارف میں ہم نے انتہائے انکساری سے ایک جملہ لکھا کہ‘‘ ہم ایک کتاب لکھ رہے ہیں جو تقریباً مکمل ہے، یعنی لکھ چکے ہیں، صرف پبلشر کا ملنا باقی ہے’’۔ اس جملے نے ایک برقی پبلشر کو گھائل کر دیا اور انھوں نے مہربانی اور شفقت کا معاملہ کرتے ہوئے بطور برقی پبلشر ہماری کتاب کا سائبر ایڈیشن چھاپنے کی پیشکش کر دی جو ہماری زندگی میں اس قسم کی پہلی پیشکش ہے۔ اسی طرح اردو سائبر لائبریریوں کو دیکھا تو دل باغ باغ ہو گیا۔ کوششیں جاری ہیں کہ اردو کی بہترین تخلیقات کو جلد از جلد نیٹ پر اپنے کرم فرماؤں کے لیے محفوظ کر دیا جائے۔ اللہ پاک ان کوششوں کو بار آور کرے، اس کام میں برکت عطا فرمائے اور ان چند سر پھرے کارکنان کو خوش رکھے۔

ہوا کے دوش پر، سائبر ادب کا مستقبل کیا ہوگا؟ کیا ہم بناء کاغذ کے دفتر کی طرح بناء کاغذ کا ادب دیکھ سکیں گے؟ کیا تمام ادب برقی حالت میں منتقل ہو پائے گا؟ کیا کبھی سائبر ادب کو کاغذی ادب جیسی پذیرائی نصیب ہو سکے گی؟ ادیب کو پیسے تو شاید پہلے بھی نہیں ملتے تھے، لیکن کیا مدیروں اور پبلشروں کی اجارہ داری کبھی ختم ہو سکے گی؟ ان سوالات کے جواب ہمیں مستقبل ہی سے مل سکیں گے لیکن اردو اور ادب کی جو خدمت اردو فورمز اور سائبر اردو لائبریریاں کر رہی ہیں وہ لائقِ صد ستائش ہے۔ اللہ ان اردو فورمز کو قائم و دائم رکھے اور انھیں دن دونی اور رات چوگنی ترقی عطا فرمائے اور ان کے منتظمین کو اردو کی اس گراں قدر و بیش بہا خدمت کا صلہ عطا فرمائے اور انھیں خوش رکھے۔ ( آمین)

٭٭٭
M. Khalil ur Rahman
About the Author: M. Khalil ur Rahman Read More Articles by M. Khalil ur Rahman: 15 Articles with 17908 views http://www.urduweb.org/mehfil/threads/%D8%A8%D9%82%D9%84%D9%85-%D8%AE%D9%88%D8%AF%DB%94-%D9%85%D8%AD%D9%85%D8%AF-%D8%AE%D9%84%DB%8C%D9%84-%D8%A7%D9%84.. View More