”کیابات ہے دیکھاپھرچھیدے دا
کھڑاک“یہ وہ الفاظ تھے جو میرے کانوں میں پڑے ۔ میں سمجھا کہ دیہاتی لوگ
ہیں کسی اپنے ساتھی رشید عرف شیدے کا ذکر کررہے ہیںمگر جب مجھے آواز دے کر
یہ بتایا گیا کہ یار شیخ رشید نے کھڑا ک کردیاتو پہلے میںیہ سمجھا کہ شیخ
صاحب نے کوئی بڑا معرکہ مار لیا ہے ۔ جب میں نے ان سے پوچھا تو معلوم ہوا
کہ شیخ صاحب سے عمران خان نے رابطہ کر لیا ہے اور ان کے درمیان سیاسی اتحاد
ہورہا ہے اور عمران خان نے یقین دہانی کرادی ہے کہ وہ شیخ صاحب کے مقابلے
میں اپنا امیدوار کھڑا نہیں کریںگے اور اس کا باقاعدہ اعلان شیخ رشید کے
جلسے میں جو لیاقت باغ میں ہوگا اس میں عمران خان شرکت کرکے خود کریں
گے۔میرے ذہین میں فوراً 2005 والی بات آئی جو عمران خان نے ایک ٹاک شو میں
کہی تھی کہ ”اللہ مجھے شیخ رشید جیسا سیاستدان کبھی نہ بنائے“اور پھر اس کے
جواب میں شیخ رشیدنے کہا تھا ”عمران ایک معمولی سا کپتان تھا اور اب یہ
تانگے کی سواری ہے“ مگر آج 2012میں ان کے جذبات دیکھ کرا ور سن کر ہنسی آتی
ہے عمران خان کہتا ہے ”شیخ رشید جیسا باوقار سیاستدان بہت کم پید ا ہوتے ہے“
اورجوا ب میں شیخ صاحب فرماتے ہیں ”عمران خان امید کی کرن ہیں“
مجھے سمجھ نہیں آیا کہ سونامی خان کو کیا ضرورت پیش آئی کہ وہ شیخ رشید سے
سیاسی اتحاد کرے۔خان صاحب کی گڈی تو ہوا میں اتنا اونچا اڑ رہی ہے کہ اس
کاٹنا تو دور اس سے پیچا لگانا ہی مشکل نظر آرہا ہے۔پی ٹی آئی والوں کی نظر
میں وہ” ن لیگ“ کو تو کلٹی کرچکے ہیںاور اب بس روٹی، کپڑا اور مکان والوں
کی باری ہے اور اس کے بعد میدان صاف ہے۔ خانصاحب نے تو شایداپنے لیے
شیروانی بھی سلوا لی ہوتو پتا نہیں؟
پہلے نمبر پر عمران خان کی پارٹی میں وہ لوگ شامل ہورہے ہیں جن کو حکومت
میں رہنے کا چسکا پڑ چکا ہے۔ دوسرے عمران خان کے مشیر اللہ جانتے ہیں کہ
کیا کررہے ہیں جو ایسے مشورے دے رہے ہیں جیسے ملک کے ووٹر اندھے اور بہرے
ہیں۔ساری عوام جانتی ہے کہ قریشی، میاں ، سردار، قصوری، سندھو ،رانااور
لغاری خاندان کس کس دور میں کس کس کے ساتھ رہ چکے ہیں اور کیا کیا مفاد
اٹھا چکے ہیں۔ خان صاحب تو ایک انقلابی لیڈر بننے چلے تھے شاید” منڈیلا“ یا”
خمینی “مگر ان کے مشیروں نے تو ان کو روایتی سیاستدان بنا دیا جو کرسی کی
خاطر ہر جائز اور ناجائز کام کرنے کو تیار ہیں۔
بات ہورہی تھی چھیدے کے کھڑاک کی۔میرا ذہین فوراًاس بات پر گیا جو ٹی وی کے
ایک لائیو ٹاک شو میں شیخ صاحب نے کہی تھی کہ ملک کو بچانے کے لیے نواز
شریف کو قدم بڑھانا ہوگااور جب پروگرام کے میزبان نے سوال کیا کہ کیا تم
نوازشریف کا ساتھ دو گے تو انہوں نے بڑے جذباتی انداز میں کہا تھا کہ”
ہاںمیں نوازشریف کا ساتھ دونگا“۔ پھر کیا ہوا ؟ کچھ دن سے سنا بھی جارہا
تھا کہ شیخ صاحب اور ن لیگ میں کوئی دال پک رہی ہے مگر دال کے پکنے سے پہلے
ہی شیخ صاحب نے ایک اور ڈش تیا ر کرڈالی۔ویسے بھی شیخ صاحب ایک باصلاحیت
سیاست کے ماہر کھلاڑی ہیں اور انہوں نے ایک اچھاکھیل کھیلا ہے۔ شیخ صاحب
چاہتے تو ایک اینٹ کی مسجد کو جامع مسجدمیں ضم کرسکتے تھے جیسے ممتازبھٹو
نے اپنی پارٹی کو ن لیگ میں ضم کردیامگر شیخ صاحب نے دورکی سوچ کر اتحاد
کوفوقیت دی کیونکہ وہ ایک جاذب نظر سیاستدان ہیں ویسے بھی اتحاد تو بنتے ہی
ٹوٹنے کے لیے ہیں۔
شیخ صاحب کو علم ہے کہ اگر سونامی خان نہ جیتا تو کیا ہوا جو بھی پارٹی
برسر اقتدار آئے گی تو وہ پی ٹی آئی سے اتحاد ختم کرکے جیتنے والوں کے ساتھ
اتحادکر لیں گے اوراس طرح لاٹھی بھی نہ ٹوٹے گی اور سانپ بھی مرجائے گا۔
دیکھو آگے آگے یہ سیاست کیا کیا رنگ دکھاتی ہے اور کون کون سے برجوں کو
ملاتی اورگراتی ہے۔
پھر کیا تھا جس وقت سیاست کی یہ باتیں میری سمجھ میں آئیں تو پھر میرے منہ
سے بھی یہی الفاظ نکلے” واہ واقعی یہ چھیدے کا کھڑاک ہے“۔ |