شوہر نے غصے میں اپنی بیوی کو
تھپڑ مارا اور پھر مناتے ہوئے بولا ”آدمی اُسے ہی مارتا ہے جسے پیار کرتا
ہے“ جواب میں بیوی دو زوردار تھپڑ، چار لاتیں اور دس بارہ ڈنڈے مار کر بولی
”آپ کیا سمجھتے ہیں کہ میں آپ سے پیار نہیں کرتی؟“ چونکہ یہ دونوں آپس میں
ہی شوہر اور بیوی تھے ورنہ میاں بیوی میں ایک دوسرے کے لیے اتنا پیار آج کل
کہاں دیکھنے کو ملتا ہے بلکہ اس طرح کا پیار اب صرف سیاست دانوں کا ہی
مشغلہ بن کر رہ گیا۔ پریس کانفرنسوں اور ٹی وی ٹاک شوز میں روزانہ ایسے
مناظر دیکھے جا سکتے ہیں بلکہ اس دلدل میں صنفِ نازک بھی پھنس چکی ہیں جبکہ
اینکرز حضرات اپنے پروگرامز کی ریٹنگ بڑھانے کے لیے ایسے سیاست دانوں
کودعوت دینا ”ثواب“ سمجھتے ہیں۔ ایسے پیار کو فروغ دینے میں پی پی کی طرف
سے راجہ ریاض اور عبدالرحمن ملک کا ساتھ دینے کےلئے فیصل رضا عابدی بھی
میدان میں کود گئے ہیں جبکہ ماضی کے ”سیاسی اولمپک چیمپئن“ ذوالفقار مرزا
اور بابر اعوان ایک عرصہ تک نفرتیں ختم کرکے خوشیاں بانٹنے کے بعد منظر سے
غائب ہو چکے ہیں۔
اپوزیشن جماعت مسلم لیگ (ن) بھی ایسے ہی پیار کو فروغ دینے میں کسی سے
پیچھے نہیں ہے۔ اس جماعت میں رانا ثناءاللہ کا کوئی ثانی نہیں جو ایک طویل
عرصہ سے اپنی ڈیوٹی ”انتہائی ایمانداری “سے نبھا رہے ہیں جبکہ شوکت خانم
میموریل کینسر ہسپتال اور عمران خان کے بارے میں حالیہ ”حقائق نامہ“ جاری
کرنے کے بعد خواجہ آصف اور چوہدری نثار بھی اُکھاڑے میں کود گئے ہیں۔ حنیف
عباسی بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں جبکہ پیپلز پارٹی پر عددی برتری حاصل کرنے
اور تحریک انصاف کو ”سبق“ سکھانے کے لیے شکیل اعوان جیسے لوگوں کی بھی
”سیاسی ٹریننگ “جاری ہے۔ حنیف عباسی اور شکیل اعوان کی ٹریننگ اس لیے بھی
ضروری سمجھی جاتی ہے کہ روزانہ ٹی وی پر اُصولوں کے بھاشن دینے میں
راولپنڈی سے شیخ رشید احمد کا پلڑا بھاری دکھائی دیتا ہے جبکہ تحریک انصاف
کے کپتان فی الحال تن تنہا دونوں بڑی جماعتوں کو ”سبق“ پڑھا رہے ہیں۔وہ اگر
پانچ منٹ ن لیگ کو ”ٹیوشن“ پڑھاتے ہیں تو ایک آدھ منٹ ضرور پیپلز پارٹی کے
لیے بھی ”مختص “ہوتا ہے جبکہ دیگر جماعتوں میں بھی اِکا دُکا ایسے ہی لوگ
موجود ہیں۔ لندن اولمپکس میں تو پاکستان کوئی بھی تمغہ نہ جیت سکا البتہ
اگر ایسے سیاست دانوں کی ٹیم تیار کرکے وہاں بھیجی جاتی تو یقینا ”سونے کا
تمغہ“ مل ہی جاتا۔
سُنا ہے تیرہ اگست کی رات راولپنڈی کی لال حویلی میں عمران خان کی تحریک
انصاف اور شیخ رشید احمد کی عوامی مسلم لیگ میں ”سیاسی نکاح“ ہونے جا رہا
ہے۔ ماضی کے ٹی وی ٹاک شوز ”کھنگالیں“ تو پتہ چلے گا کہ دونوں جماعتوں کے
”چیف صاحبان“ کے درمیان ایسی نوک جھونک چلتی رہی کہ دور دور تک ”نکاح“ کی
اُمید نظر نہیں آتی تھی مگر پھر یکدم ہی اُمید بھر آئی ہے۔ سونامی خان تو
یہاں تک کہتے رہے ”میں ٹی وی پر کہتا ہوں اللہ مجھے شیخ رشید جیسا سیاست
دان کبھی نہ بنائے“ جبکہ جواب میں شیخ رشید احمد عمران خان کو ”معمولی سا
کپتان “اور اُن کی پارٹی کو ”تانگے کی سواری “ سے تشبیہ دیتے رہے۔ قاف لیگ
جو ایک عرصہ تک ”قاتل لیگ“ سمجھی جاتی تھی پھر ”سیاسی بندھن“ کے بعد پیپلز
پارٹی کے لیے ”قابل لیگ“ بن گئی ہے۔ ”لوٹے“ کہلائے جانے والے مشرف کے ساتھی
بھی ”ہم خیالیئے“ بن کر نواز لیگ کا حصہ ہیں۔ ایم کیو ایم اور اے این پی
بھی پیپلز پارٹی کے ”ہم نوالے“ اور ”ہم پیالے“ ہیں جبکہ اب ”عوامی“ اور
”سونامی“ کا بھی سیاسی نکاح قریب ہے۔
دونوں میں ”سیاسی نکاح“ ہونے کو ہے مگردعوتِ ولیمہ میں مدعو مہمان یہ
سمجھنے سے عاری ہیں کہ لال حویلی کا ولیمہ ”دلہن“ کا سمجھ کر کھایا جائے یا
”دولہے“ کا۔یقینا یہ ایک ایسی دلہن کا ہی ولیمہ ہو سکتا ہے کہ جس نے بیک
وقت دو دولہوں بلکہ ”دولہے میاﺅں“ کو اپنی زلفوں کا اسیر بنا رکھا تھا جبکہ
”نکاح“ بھی دونوں میں سے کسی ایک سے ہی ہونا ممکن تھا۔ سونامی خان کی نظر
میں شیخ رشید اب ایک ”باوقار سیاست دان“ جبکہ شیخ رشیدکی نظر میں سونامی
خان ”اُمید کی کرن“ بن گیا ہے۔ اللہ کرے نکاح کی یہ تقریب بخیر و عافیت سے
انجام پائے ورنہ چند دن پہلے تک یہ اطلاعات تھیں کہ دلہن سے شادی کے
خواہشمند رائیونڈ اور میانوالی سے تعلق رکھنے والے دو ایسے دولہے ہیں کہ جو
آپسی تعلقات میں انتہائی مخالف سمجھے جاتے ہیں جبکہ دلہن پریشان تھی کہ اس
کھینچا تانی میں اگر وہ ”ریجیکٹ“ ہو گئی تو پھر نہ صرف ہمیشہ کے لیے
”کنواری“ رہ جائے گی بلکہ آئندہ ”انتخابی بارات“ میں اے این پچپن اور این
اے چھپن کے گھروں میں پڑا ”جہیز کا سامان“ بھی کوئی اور لے اُڑے گا۔
جشنِ آزادی کی رات ہونے والے اس ممکنہ ”سیاسی نکاح“ میں دولہے کے کردار سے
زیادہ دلہن کی ”چالاکی“ قابلِ تعریف ہے۔گزشتہ انتخابات اور پھر ضمنی
انتخابات میں ناکامی کے بعد ”دلہن“ نے چالاکی دکھا کر پہلے دو مخالف ”دولہے
میاﺅں“ کو اپنی زلفوں کا اسیر بنایا اور ساتھ ہی یہ تاثر بھی عام کر دیا کہ
وہ تیرہ اگست کی رات لال حویلی میں اصل راز سے پردہ اُٹھائے گی۔ یہ راز چوں
کہ پَردے میں چھپا رہا، اس لیے عام تاثر یہی تھا کہ لاٹری یقینا رائیونڈ
والے ”دولہے میاں“ کی ہی نکلے گی جبکہ دلہن بھی صرف ”ہاں“ کے انتظار میں
تھی مگر پھر یکدم ہی اس دولہے میاں نے ”ناں“ کر دی۔ اس ”ناں“ کی ایک وجہ یہ
تھی کہ اس ” شادی“ کی صورت میں دولہے میاں کو بعض باراتیوں کی طرف سے
ناراضگی اور سخت مزاحمت کا سامنا تھا جبکہ خود دولہے کو بھی یہ شک تھا کہ
اگر جشنِ آزادی کی رات لال حویلی میں اُس کے ساتھ ”سیاست“ ہو گئی اور دلہن
نے براستہ موٹروے رائیونڈ آنے کے بجائے براستہ جی ٹی روڈ میانوالی جانا
پسند کیا تو پھر نہ صرف اپنی ”بدنامی“ ہوگی بلکہ ”باراتیوں کا ”اعتماد“ بھی
ختم ہو جائے گا۔ اس لیے ”انگور کھٹے ہیں“ کے محاورے کو اب ”ناں“ میں ہی
بدلنا بہتر ہے۔ |