” اگر امید کوئی پالیسی نہیں ہے
تو مایوسی بھی کوئی پالیسی نہیں ہے۔ “ خوبصورت وسرسبز لان میں سنگی میز کے
آگے رکھی کرسی پربیٹھتے ہوئے میرے ذہن میں لندن کانفرنس کے درمیان ایک بڑے
منصوبہ ساز کے کہے الفاظ تازہ ہوگئے۔ہوا کے جھونکے نے فائل کے کاغذات پلٹ
دیے۔ گھنے درختوں کے سائے طویل ہوچلے تھے، رنگ برنگے پھولوں سے لدے باغ میں
پراسرار خاموشی کا راج تھا، گہری سانس لے کر میں اس فائل کے مندرجات پر غور
کرتے ہوئے خیالات کا سلسلہ پیچھے دور تک جا نکلا۔
غیب دانی میرا شوق تھا نہ پیشہ ، کب اور کیوں مجھے اس علم سے دلچسپی اور
پھر عبورہواکچھ ٹھیک سے یادنہیں پڑتا۔ بس میری زبان سے نکلے چند حوصلہ افزا
الفاظ لوگوں کو اپنے خواب اور خواہش سے قریب نظر آتے ،یوں درخشاں مستقبل کی
تڑپ ان کو جدوجہد پر اکساتی تو وہ مجھے گرو کہنے لگے حالاںکہ اس میں میرا
کوئی کمال نہ ہوتا۔دھیرے دھیرے انسانوں کو امید دلاتے مزہ آنے لگا ، لوگ
گرم جوش مصافحہ کرنے لگے ، مجھے دیکھ کر کھڑے ہونے لگے تو اس میں میرا کوئی
دوش نہ تھا۔ مجھے اسکی طلب کل تھی نہ آج ۔زراعت کی ماسٹر ڈگری کے بجائے یہی
میری پہچان تھی۔ آھستہ آھستہ شہرت نے میرا یقین اس خفیہ صلاحیت پر بڑھا دیا۔
کیا کروں ؟ بس میں فطرتاََہی امید پرست ہوں قنوطی نہیں
ریاست چمنستان پر قبضے کا معاملہ حیرت انگیز بلکہ ناقابلِ یقین سی بات تھی
کہ ویسٹ لینڈ کمپنی کے بارے میں امید افزا تو کیا کچھ بھی نہیں سوجھ رہا
تھا۔ مستقبل بینی آسان نہیں مگر آج مجھے احساس ہواکہ یہ توانتہائی ناقابل ِاعتبار
سائنس ہے۔ ممکنات تو انسان کے ارادے سے بندھے فلسفہ کا نام ہے ۔ سوچوں کا
تسلسل ٹوٹ گیا کہ اسی لمحہ گھریلو ملازم دانیال نے آکر سیل فون مجھے
پکڑادیا ۔ دوسری جانب ویسٹ لینڈ کمپنی کے نصف سے زیادہ کے مالک مسٹر جارج
تھے ۔ویسٹ لینڈ کی فائل پھڑپھڑاکر گھاس پر جا گری ۔
” مسٹر فریڈ کل ہمیں جائے وقوع کے معائنے کے لئے جانا ہے ، سویرے تیار رہیں
۔گاڑی آپ کو لینے آئے گی ۔“
دانیال نے جھک کر feasibility report پکڑائی ۔” کھانا تیار ہے ۔ “
” ہوں ، صبح میرا ناشتہ نہ بنانا صرف بلیک کافی ۔“
ویسٹ لینڈکمپنی کی تاریخ رہی کہ جس ملک پر دستِ شفقت رکھا وہ خوشحالی کی
راہ ترک کرکے خود کشی پر آمادہ ہوگیا۔ دوستی یا شراکت داری کسی کو راس نہ
آتی۔ ویسٹ لینڈ میں ضم ہونے کے بعد اس کا نام و نشان ہی باقی نہ رہتا۔اب
اچانک کمپنی کو کیا سوجھی کہ دور دراز خطّہ ِزمین کا انتظام سنبھالنے کے
بہانے ڈھونڈ نکالے ۔اگر چہ میرے سامنے موجود فائل میں لگے معاہدوں پر دستخط
شدہ کاغذات گرفت یا قبضہ کی نشاندہی کررہے تھے ۔یہ بات ہی کم عجیب تھی
منصوبہ کے اختتامی لمحوں میں مستقبل کی صورت گری کا مشورہ لینے میرے پاس
چلے آئے۔ اس میں جوراز پنہاں تھا وہ تا حال میری نظروں سے اوجھل تھا۔ شاید
حیران کن ،پراسرار اتّفاق تھا کہ میرے grand parents great کا تعلق بھی
چمنستان نامی اسی سرزمین تھا جس کے لیے کل کا سفر تیّار تھا،اگر چہ کہ
پشتوں بعد مجھے اس سے خاص تو کیا معمولی سا بھی لگاﺅ نہ تھا۔میں تو اس
ماحول کاحصّہ بن چکا تھا، جارج ، سائمن اور فریدالدّین یعنی مجھ میں چنداں
فرق نہ تھاسوائے گندمی رنگت کے جو سرخ وسفید سے واضح الگ نظر آتی ۔
رات نیند آنے تک میں اس معمّہ میں اپنے انتخاب پر غور کر تا رہا۔میری یاد
داشت میں کبھی گرینڈ ما کی آواز گونجتی۔
”وہاں باغ میں ٹھنڈے ،میٹھے پانی کے چشمے رواں ہیں،پھلوں، پھولوںکی مہک سے
لدا “اور میرے پیچھے بیٹھے گرینڈ پا ناک سکیڑ کر اس مہک کو تازہ کرتے جو ان
کے دل ودماغ میں بسی ہوئی تھی۔ ڈیڈی ان کی نقل اتارتے ،گہری سانس
کھینچتے،مجھے ان کی گود میں ڈال دیتے ۔ ”پاپا بالکل وہی خوشبو چمن جیسی “
”اور تم پرندے بھول گئیں کتنی سریلی چہکار گھنٹوں سنتے “میرے کم گونانااس
تذکرے کو مکمل کردیتے ۔
”چمنستان کتنا موزوں نام “اداس نانو تو کرب سے ساری زندگی نہ نکل سکیں ۔
مگر فائل کے مطابق وہاں کھنڈر ہے، خستہ حالی ، ٹھنڈے پانی کے چشمے کڑوے
ہوگئے،باغ جھلس گئے،پرندے نقل مکانی کر گئے یوں کمپنی نے ازراہِ ترّحم اس
فضول بے کار زمیں کوبعوض انتہائی خطیر رقم اپنے تصرّف میں لیا ہے ، اس سے
پہلے بھی کئی بار بھاری امدادی قرضوں سے چمنستان کی حالت بہتر بنانے کی
کوشش کی گئی جو رائیگاں گئی۔ میرے آباءواجداد کا ملک نیلام ہوامگر میرے دل
میں کوئی کسک نہ اٹھی ۔
صبح گاڑی میں بیٹھتے ہوئے میں نے اپنے شاندار گھر پر بھر پور نظرڈالی۔ صرف
بتّیس سال کی عمر میں جائیداد اور اثاثے میری ملکیت تھے۔ ھیلی کاپٹر تیّار
تھا ، جارج ، سائمن کا جوش وخروش دیدنی تھا ،نعرے مارتے ، جام چڑھاتے۔ہوس
کے شعلے آنکھوں سے لپک رہے تھے۔ زمین سے زندگی فنا کرنے کے لئے کیا کچھ نہ
ہوا ہوگا۔سفر کب تمام ہوا ؟ میں تو اپنے بچپن کی سیر کو نکل گیا تھا کہ وہ
دونو ں چھلانگ مار کے اترے۔
تا حدِ نگاہ خس و خاشاک ،جھاڑ جھنکار ، اڑتا ہوا گرد وغبارسوکھے پتّوں کا
ڈھیر ،ٹنڈ منڈ درخت ، سنسان راستے ،نوحہ کرتی ہوائیں ،د یمک خوردہ بورڈ
سرحدِچمنستان کا اعلان میں سکتہ میں آگیا۔یہ تھا چمنستان ؟؟؟ جس کے خوش نما
قصّے سوچتا آیا تھا۔جس کی خوشحالی اور خوبصورتی کی مثالیں کتابوں میں درج
تھیں ۔ ”شکر ہے میرے بزرگ اس خوفناک منظر کونہیں دیکھ پائے۔ “
مگر یہ کیا !! میرے اترنے کی نوبت نہ آئی آسمان مٹیالا پڑگیاکہ ہزار ہا
ہزار چھوٹے چھوٹے پرندے جھنڈ کی شکل میں نمودار ہوئے اور جارج سائمن کمپنی
پر حملہ آور ہوئے۔خدا کی پناہ !! اتنی ننھی مخلوق اور انتقام کا جوش،پروں
کی سرسراہٹ نہیں بلکہ سیٹی جیسی آواز رونگٹے کھڑے کررہی تھی، سیدھا آنکھوں
میں چونچیں مار کر اندھا کردیا تھا، ان کی فلک شگاف چیخیں ، لہو لہان وجود،
کہیں سے بھی وہ جارج سائمن نہیں تھے جو تھوڑی دیرپہلے تھے، تڑپ تڑپ کر جاں
دیتے جلد ہی لاشوں میں بدل گئے ۔کیا مٹّھی برابر چڑیاں وحشی طاقت ور دشمنوں
کو اپنے گھونسلوں کو اجاڑنے ،چمن کو صحرا بنانے کے جرم اتنا بڑا اپ سیٹ کر
سکتی ہیں ؟؟؟میں اپنا سر گھٹنوں میں چھپائے سوچ ہی سکتا تھا۔تو کیا اس ملک
کے باشندوں نے چڑیاﺅ ں برابر بھی حوصلہ نہ کیا؟؟؟میرے ہم وطنوں نے امید کا
روشن چراغ کیوں گل کر دیا؟؟؟
ایک مستقبل بیں امید کے خوش آئند الفاظ کے سوا کچھ بھی نہیں منتقل کرنا
چاہتا ۔اس کہانی میں اپنا کردار مجھے اب سمجھ میں آیا تھا!!
یہ تو میں بتانا بھول گیا کہ گرینڈ پا کی زمین پر میری اور ساتھیوں کی محنت
خوب رنگ لائی ہے ۔میلوں تک پھیلی ارہر ،مکئی ،سرسوں کی لہلہاتی فصلیں نشانِ
امید ہیں۔باغوں کے درمیا ں گذر گاہ خالق کی حمد وثنا میں مشغول خوش الحان
پرندوں کی چہکار سے گونجتی ہے، ہوا کے جھونکے عطر بیز خوشبوہر سو اڑاتے ہیں
اوروہ مخصوص مہک سانسوں میںاتر کر مجھے مسحور کررہی ہے کیا آپ کو بھی × |