تحریر : محمد اسلم لودھی
پاکستان عطیہ خداوندی ہے ۔یہ خطہ ارضی 9 لاکھ مسلمانوں کی شہادتوں اور
ہولناک واقعات اور سانحات کے بعد قائداعظم کی ولولہ انگیز قیادت میں ایک
قوم کی شکل اختیار کرکے حاصل کیاتھا ۔اس وقت نہ صرف قائداعظم کو مکار
انگریزوں اور سازشی ہندووں کی سازشوں کا سامنا تھا بلکہ مسلمانوں میں بھی
جی ایم سید اور عبدالغفار خان ( سرحدی گاندھی )جیسے وطن فروش پاکستان بنانے
کے سخت مخالف تھے ان کی وفاداریاں پاکستان بننے کے بعد بھی بھارت کے ساتھ
رہیں بلکہ اب بھی ہیں۔ اب جبکہ قیام پاکستان کو 65سال ہوچلے ہیں نہ صرف
پاکستان دو حصوں میں تقسیم ہوچکا ہے بلکہ باقی ماندہ ملک بھی تقسیم در
تقسیم کا شکار ہوکر اپنی حقیقی اساس٬مقصد حیات اور نظریے کو فراموش کرتا
جارہا ہے ۔ کراچی جسے پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی قرار دیاجاتا ہے ایم کیوایم ٬اے
این پی اورپیپلز پارٹی کے عسکری گروپوں کی مار دھاڑ اور قتل و غارت گری کی
وجہ سے افریقی ملک صومالیہ کا منظر پیش کررہا ہے جہاں ہر روز انسانی لاشے
اٹھتے ہیں ہر روز کروڑوں روپے بھتہ مافیا کی نذر ہوجاتے ہیں درجنوں بوری
بند نعشیں کراچی کے شہریوں کو نفسیاتی مریض بنا رہی ہیں۔ صوبہ بلوچستان جو
جغرافیائی محل و قوع ٬معدنی دولت اور تین سو کلومیٹر طویل ساحل سمندر کی
وجہ سے پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک میں شامل کرسکتا ہے ۔ بلوچ عوام کو
بنیادی حقوق نہ دینے کی وجہ سے آج وہی بلوچستان نہ صرف پاکستان کے ہاتھ سے
سرکتا جارہا ہے بلکہ وہاں پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہرانا اور قومی ترانہ
گانا بھی موت کو آواز دینے کے مترادف ہے ۔ امریکہ اور بھارت دونوں بلوچستان
کو پاکستان سے الگ کرنے کے لیے بین الاقوامی سطح پر سازشوںمیں مصروف ہیں ۔صوبہ
سرحد جسے ملک دشمن جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے سپرد کرکے اس کی پہچان ہی
تبدیل کردی گئی ہے بلکہ اے این پی کی ناراضگی سے ڈر سے حکمرانوں نے پاکستان
کو سیلاب سے بچانے ٬ بجلی کی فراہمی اور زراعت کے لیے وافر پانی مہیا کرنے
والے کثیر المقاصد منصوبے کالا باغ ڈیم کو مکمل طور پر ختم کرکے پاکستان
دشمن ہونے کا ثبوت دیا ہے ۔صوبہ پنجاب جو پاکستان کا دوسرا نام ہے اور جہاں
آج بھی بے باک صحافی مجید نظامی ¾ مفکر پاکستان ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ؒ
کے فرزند ڈاکٹر جاوید اقبال ٬ ڈاکٹر رفیق احمد جیسے عظیم المرتبت افراد کی
موجودگی میں نظریہ پاکستان کو سکول کی سطح پر پرموٹ کیاجارہا ہے لیکن
حکمران پنجاب کو کئی حصوں میں تقسیم کرکے پاکستان کی اساس اور بنیاد کو
کمزور کرنے کی جستجو کررہے ہیں بلکہ ایوان صدر پر قابض 60 ملین ڈالر کے
مالک صدر صاحب سرائیکی صوبہ بنانے میں اتنے پرجوش ہیں کہ پارلیمنٹ کی
کمیٹیاں بھی تشکیل دے دی گئی ہیں ۔عوام کو گونا گوں مسائل سے چھٹکارا دلانے
کی بجائے انہیں قومیت پرستی کی جانب دھکیلا جارہا ہے۔اگر یہ کہاجائے تو غلط
نہ ہوگا کہ آج قیام پاکستان سے بھی بدترین حالات کا ہمیںکو سامنا ہے اس وقت
تو قائداعظم کی جرات مندانہ قیادت کی وجہ سے ہم پاکستان کی شکل میں ایک خطہ
ارضی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے لیکن آج قائداعظم کی خوبیوں جیسا کوئی
لیڈر دور دور تک دکھائی نہیں دیتا جو 18 کروڑ پاکستانیوں کو لڑی میں پرو کر
ایک قوم کی شکل دے سکے ۔افسوس تو اس بات کا ہے کہ اس وقت جتنی بھی سیاسی
جماعتیں میدان سیاست میں موجود ہیں ان جماعتوں کے تمام قائدین نہ صرف کرپشن
کے الزامات کی زد میں ہیں بلکہ کسی حد تک کرپشن میں ملوث بھی ہیں ۔ان حالات
میں صرف قومی سطح پر دو شخصیات اس کسوٹی پر پورا اترتی دکھائی دے رہی ہیں
ان میں سے ایک چیف جسٹس افتخار محمد چودھری ( جنہوں نے خودکوکرپشن کے خلاف
مزاحمت کی علامت اور پاکستان کانجات دھندہ ثابت کیا ہے ) اور دوسرے ڈاکٹر
عبدالقدیر خان ہیں جو صرف پاکستانی قوم کو دنیا کی باوقار قوموں کی صف میں
شامل کرنے اور دفاعی اعتبار سے پاکستان کو نا قابل تسخیر بنانے کے لیے اپنا
سکھ چین اور مالی مفادات قربان کرچکے ہیں بلکہ ان بدترین حالات میں قومی
ایک بار پھر پاکستانی قوم کو مسائل کی دلدل سے نکالنے کا عزم لے کرمیدان
میں اترے اگر پاکستانی قوم نے ان کا ساتھ دیا تو مجھے یقین ہے کہ مایوس
نہیں کریں گے ۔یہ کہاجاسکتا ہے کہ اگر قائداعظم نے پاکستان بنایا تھا تو
ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ایٹم بم بنا کر پاکستان کو ہمیشہ کے لیے محفوظ
کردیا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ 18 کروڑپاکستانی اپنے ذاتی اور سیاسی
مفادات کو بالائے طاق رکھ کر افتخار محمد چودھری کو بے رحم احتساب کے لیے
اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو پاکستان کی قیادت کے لیے ان کے شانہ بشانہ چلنے
کا عہد کریں ۔وگرنہ پیپلز پارٹی ٬ مسلم لیگ ق ٬ ایم کیو ایم ٬ اے این پی
جیسی مفاد پرست جماعتیں پاکستان کوصفحہ ہستی سے مٹانے میں کوئی کسر نہیں
چھوڑیں گی۔ |