کشیدگی ہے کہ ختم ہونے کا نام
نہیں لے رہی۔ محاذ آرائی کا پارہ چڑھتا جارہا ہے۔ اداروں اپنا اپنا وقار
بچانے کے نام پر آپس میں ٹکرانے سے بھی گریز نہیں کر رہے۔ عدلیہ اپنی بات
منوانے پر تُلی ہوئی ہے۔ اور حکومت بھی پسپائی کو تیار نہیں۔ بقول غالب
وہ اپنی خُو نہ چھوڑیں گے، ہم اپنی وضع کیوں بدلیں!
قوم حیران ہے کہ یہ تماشا بلا ٹکٹ کب تک دیکھے۔ ساڑھے چار سال سے حکومت کی
تمام جدوجہد کسی نہ کسی طرح ”جمہوریت“ کو بچانے سے وابستہ رہی ہے۔ جس حکومت
سے ہمیں توقع تھی کہ قوم کو تحفظ فراہم کرے گی وہ اپنا وجود بچانے میں کھپ
گئی!
ایک خط ہے کہ لکھا نہیں جارہا اور جب تک وہ لکھا نہیں جائے گا، بحران ختم
ہوگا نہیں۔ عدلیہ کا واضح فرمان ہے کہ وزیر اعظم کو صدر کے خلاف کرپشن کی
تفتیش دوبارہ شروع کروانے کے لیے سوئس حکومت کو خط لکھنا ہے۔ ایک وزیر اعظم
نے انکار کرکے پارٹی میں ”شہید“ کا درجہ پالیا! ہماری سیاست نے شہادت کا
مرتبہ پانا کتنا آسان کردیا ہے!
پیپلز پارٹی خوش نصیب ہے کہ اُس کی صفوں میں اب بھی ایسے وفادار ہیں جو
پارٹی کی ”حرمت“ پر اور پارٹی لیڈر کے چرنوں میں وزارتِ عُظمٰی بھی قربان
کرسکتے ہیں! ہم تو یہ سوچتے ہیں اور دِل مسوس کر رہ جاتے ہیں کہ اِس پیارے
وطن کو ایسے وفادار کب ملیں گے! جو لوگ وطن سے محبت کے دعوے کرتے ہیں وہ
ذرا جیالوں سے سیکھیں کہ وفا کیا ہوتی ہے اور تعلق کیسے نبھایا جاتا ہے!
عدلیہ اور حکومت کے درمیان محاذ آرائی نے دونوں کے لیے رمضان کی مبارک
ساعتیں بھی کشیدہ کردی ہیں۔ قوم عید کی تیاری کر رہی ہے اور دوسری طرف
ادارے تصادم کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ لوگ حیران ہیں کہ عید کے فوراً بعد کیا
ہوگا۔ ہونا کیا ہے، ایک اور وزیر اعظم ”جمہوریت“ کی چوکھٹ پر قربان ہو جائے
گا۔ یعنی
پُلاؤ کھائیں گے احباب، فاتحہ ہوگا!
اہل وطن اب تک سمجھ نہیں پائے ہیں اُنہیں ساڑھے چار سال میں جمہوریت نے
ایسا کیا دے دیا ہے جسے بچانے کے لیے حکومت وزیر اعظم کی قربانی دینے سے
بھی دریغ نہیں کر رہی! عدلیہ چاہتی ہے کہ اُس کی بات مان لی جائے، سوئس
حکومت کو خط لکھ دیا جائے اور صدر کے خلاف کرپشن کے کیسز کی سماعت دوبارہ
شروع کردی جائے۔ مگر سوال یہ ہے کہ اِس سے کیا ہوگا؟ کیا مہنگائی کا جن
دوبارہ بوتل میں بند ہو جائے گا؟ جن کی جیب سے ساڑھے سال کے دوران خون
پسینے کی کمائی نکالی گئی ہے اُنہیں کچھ ریفنڈ مل پائے گا؟ پرائم ٹائم میں
ٹی وی اسکرین پر سیاسی بحث کے دوران تھوک اُڑانے والوں کے پاس بھی اِن
سوالوں کے جواب نہیں۔ اور ہوں بھی کیسے؟ عوام کو ریلیف دینا اُن کی ترجیحات
میں شامل ہی نہیں۔ اگر بھولے بھٹکے بہبودِ عامہ کے چند ایک اقدامات ہو
جائیں تو بے چارے ارباب اختیار کو اِس خطا پر معاف کردینا بھی غیر سیاسی
نیکی ہے!
اگر ایک اور وزیر اعظم بھی نام نہاد جمہوریت کی چوکھٹ پر قربان ہوگیا تو
کیا ہوگا؟ معزول وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کہتے ہیں کہ یہ عمل ملک توڑنے
کے مترادف ہوگا۔ قیاس آرائی کا بازار گرم ہے۔ صدر زرداری بھی کیا نصیب لائے
ہیں کہ ایک اُنہیں بچانے کے لیے سیاسی بکرے ذبح ہوئے جارہے ہیں اور دوسری
طرف مفادِ عامہ کا جھٹکا جاری ہے۔ قوم منتظر اور متفکر ہے کہ عید کے بعد
کیا ہوگا۔ عدلیہ کے وقار کو بلند رکھنے اور صدر کو سلامت رکھنے کا فریضہ
ایک ساتھ انجام دیا جائے گا۔ یعنی ہمیں راجہ پرویز اشرف کے ستارے بھی گردش
ہی میں دِکھائی دے رہے ہیں۔ لوگ سوچ رہے تھے کہ گیلانی کے بعد کِسے وزیر
اعظم بنایا جائے گا۔ راجہ پرویز اشرف اِس مسند پر براجمان ہوئے تو بہتوں کی
ہنسی چھوٹ گئی۔ مگر خیر، پیپلز پارٹی اِن چھوٹی چھوٹی باتوں کی چنداں پروا
نہیں کرتی۔ راجہ پرویز اشرف کے بعد وزیر اعظم کون ہوگا، یہ دیکھنا بجائے
خود دلچسپ تماشے سے کم نہیں۔ پاکستانیوں کو بھی پتہ نہیں کیا کیا دیکھنا
ہے! وزیر اعظم ہاؤس کا تو یہ حال ہے کہ
کل چمن تھا، آج اِک صحرا ہوا
دیکھتے ہی دیکھتے یہ کیا ہوا!
اِس صحرا کو ابھی کتنے سراب دیکھنے ہیں یہ تو اللہ ہی جانتا ہے۔ رہ گئے ہم
تو ہمارا مقدور ہی کیا؟ ہمیں تو خاموش تماشائی کا کردار ادا کرنا ہے اور ہر
سیاسی تماشے کے خاتمے پر تالیاں پیٹنی ہیں! |