دنیاکے معرض وجودمیں آنے سے اب
تک اسلام سے زیادہ مہذب اورجامعہ دین نہ کوئی تھا،نہ کوئی نہیں ہے اورنہ
کوئی ہو گا۔اسلام نے انسانی زندگی کے ہرباریک سے باریک پہلو پرروشنی ڈالی
ہے ۔اسلام میں انسانوں کے ایک دوسرے کیلئے فرائض اوران کے بنیادی حقوق سمیت
ان کی عزت نفس کوبڑی اہمیت دی گئی ہے ۔اسلام میں مختلف فرض عبادات اورنیک
اعمال انجام دینے کاطریقہ کار وضاحت سے بیان کردیا گیا ہے اوراسلام کے
نزدیک جوامورناپسندیدہ ہیں وہ بھی بیان کردیے گئے ہیں ۔جس طرح اللہ تعالیٰ
اپنے بندوں کوکئی قسم کی نعمتوں سے نوازنے کے باوجودان پراپنااحسان نہیں
جتاتااوران کے گناہوں کی پردہ پوشی کرتا ہے اورانسان کوبھی کہا گیا ہے وہ
بھی دوسرے انسان کے گناہوں سے پردہ نہ اٹھائے۔ اس طرح سے اللہ تعالیٰ کو
ایک انسان کادوسرے انسان پراحسان جتانااورایک دوسرے کی عزت نفس پامال
کرناسخت ناپسندہے ۔حضرت عمرفاروقؓ رات کے اندھیرے میں بھیس بدل کرگلیوں میں
گشت کرتے اورمنظرعام پرآئے بغیرضرورت مندوں کی مددکرتے اوراناج کی بوریاں
اپنے کندھوں پراٹھااٹھاکرمحتاجوں کی دہلیز تک لے جاتے تاکہ محتاج اورضرورت
منددوسروں کے سامنے شرمندہ نہ ہوں۔
حضرت عمرفاروق ؓ کی اہلیہ عاتکہ کہتی ہیں ،حضرت عمرفاروق ؓ سونے کیلئے
بسترپرلیٹتے تھے توان کی نیند ہی اڑجاتی تھی اوربیٹھ کرروناشروع کردیتے تھے
۔میں پوچھتی تھی ،امیرالمومنین کیا ہوا۔وہ کہتے تھے ،مجھے سرور کونین حضرت
محمد کی امت کی خلافت ملی ہوئی ہے اوران میں مسکین بھی ضعیف بھی ،یتیم بھی
ہیں اورمظلوم بھی ہیں۔مجھے ڈرلگتا ہے اللہ تعالیٰ مجھ سے ان سب کے بارے میں
دریافت کرے گا،اگرمجھ سے کوتاہی ہوگئی تومیں اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول کو
کیا جواب دوں گا۔سیّدناعمرفاروق ؓ کہتے تھے :اللہ کی قسم ،اگردجلہ کے
دوردرازعلاقے میں بھی کسی خچر کوراہ چلتے ٹھوکرلگ گئی تومجھے ڈر لگتا ہے
کہیں اللہ تعالیٰ مجھ سے یہ سوال نہ کردے ،اے عمرتونے وہ راستہ ٹھیک کیوں
نہیں کرایا تھا۔عہدحاضر میں کوئی صدر،وزیراعظم،گورنر یاوزیراعلیٰ ایسا ہے
جوحضرت عمرفاروق ؓ کی پیروی کرتے ہوئے عوام کی پریشانیوں اورمحرومیوں سے
آگہی کیلئے بھیس بدل کررات کے اندھیرے میں شہرکی گلیوں میں گشت کرتاہو۔اب
تو روٹی کیلئے لوگ اپنی عزت اورغیرت تک کوفروخت کرنے پرمجبور ہیں۔بھوک کے
مارے لوگ موت کوگلے لگا رہے ہیں مگر ہے کوئی حکمران جورات بھرنہ سوتا
ہواوراللہ تعالیٰ کے دربار میں جوابدہی کے ڈرسے رات بھرروتا ہو۔ہمارے ہاں
ایسے افراد کی کمی نہیںجوایک دو وقت کی روٹی سے محروم ہیں اوردوسری طرف
حکمران طبقہ ہے ،ان کے دسترخوانوں پربیسوں اقسام کے کھانے اورمشروبات ہوتے
ہیں۔
حضرت فاطمہ زہرا ؓ کافرمان ذیشان ہے ،''تمہاری نیت کی پیمائش اس وقت کی
جاتی ہے !جب تم کسی ایسے انسان کی مددکروجس سے تمہیں کوئی امید نہ
ہو''۔شیرخداحضرت علی ؓ ؓکافرمان ہے '' گناہ پرندامت گناہ کومٹادیتی ہے
اورنیکی پرغرورنیکی کوبرباد کردیتا ہے''۔حضرت شیخ سعدی ؒ کاقول ہے ''دوست
وہ جواپنے دوست کاہاتھ اس کی پریشانی اورتنگی میں پکڑتا ہے ''۔حضرت ابوبکر
صدیق ؓ فرماتے ہیں ''انسان ضعیف ہے،تعجب ہے وہ کیونکر اللہ تعالیٰ
جوانتہائی قوی اورقادرہے اس کے احکامات کی نافرمانی کرتا ہے''۔حضرت انس ؓ
سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ''جوشخص کسی
پریشان حال انسان کی مددکرے،اللہ تعالیٰ اس کیلئے تہتر(73)مغفرتیں لکھے گا
جن میں سے ایک مغفرت تواس کے تمام کاموں کی اصلاح کیلئے کافی ہے
اوربہتر(72)قیامت کے روزاس کیلئے درجات بن جائیں گی''۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں کچھ برسوں سے زکوٰة اورصدقات پرسیاست چمکانے کاسلسلہ
شروع ہوگیا ہے ۔اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ خیرات اور صدقات زیادہ پسندیدہ ہیں
جوانسان اپنے دائیں ہاتھ سے دے تواس کے بائیں ہاتھ کومعلوم نہ ہو۔سیاسی
اورسماجی شخصیات کی طرف سے ماہ صیام کے دوران زکوٰة کی رقوم سے راشن خرید
کرمستحقین میں تقسیم کیا جاتا ہے اورانہیںاس کیلئے میڈیا کوریج کاخصوصی
طورپراہتمام کرنانہیں بھولتا۔ان شہرت کے بھوکے سیاستدانوں کی بدنیتی کے سبب
مستحقین کی سفیدپوشی کابھرم بھی جاتا رہا ہے۔کچھ سرمایہ داراورسیاستدان
توراشن پراپنی یااپنے قائدین کی تصاویرتک چھاپ دیتے ہیں اورراشن صرف اپنے
اپنے حلقہ کے ووٹرزکوان کے شناختی کارڈزدیکھنے اورتسلی کرنے کے بعد دیاجاتا
ہے۔بعض لوگ اپنی نام نہاد این جی اوزکے پلیٹ فارم سے راشن تقسیم کرتے ہیں
اوراس کی میڈیا کوریج مخیر حضرات سے پیسہ بٹورنے کیلئے استعمال کی جاتی
ہے۔ضرورتمندوں اورمحتاجوں کوقطار میں کھڑے کرکے انہیںباری باری راشن دیتے
وقت ان کی تصاویراورفلمیںبنائی جاتی ہیں جو ٹی وی اوراخبارات کی زینت بنتی
ہیں۔یہ طریقہ کاراسلامی تعلیمات کے منافی ہے،کسی سرمایہ داراورصاحب ثروت
کویوں نادارشہریوں کی عزت نفس سے کھیلنے اوران کی مفلسی کامذاق اڑانے کاحق
نہیں پہنچتا۔ اسلام نے جس مہذب اندازسے زکوٰ ة اورفطرانے کی تقسیم کاحکم
دیا ہے اس سے تجاوزنہ کیا جائے۔اللہ جانے ہمارے مفتی اورمولانا حضرات اس
فرسودہ اوربیہودہ طریقہ کارپرکیوں خاموش ہیں،انہیں اس ڈھونگ کی حوصلہ شکنی
کیلئے اپناکرداراداکرنا ہوگا ۔اسلام توکہتا ہے اگرآپ کسی بھکاری کوخیرات
نہیں دیناچاہتے یادینے کی استطاعت نہیں رکھتے تواسے دھتکارنے یااس کے ساتھ
حقارت سے پیش آنے کی بجائے اُس سے سلجھے ہوئے اندازمیںمعذرت کریں کیونکہ
اسلام کسی انسان کی دل آزاری کی اجازت نہیں دیتا۔ ہمارے پاس مال ودولت اللہ
تعالیٰ کی دی ہوئی اوراس کی امانت ہے ہم نے اس امانت میں سے دوسرے حق داروں
کوان کاحق دینا ہے لہٰذا دکھاواکرناجائز نہیں۔کچھ احباب کااس بات پرتوکامل
یقین ہے کہ انسان کورزق دینے کاوعدہ اللہ تعالیٰ نے کیا ہوا ہے مگروہ زکوٰة
ادانہیں کرتے ۔زکوٰة دینا کس طرح اورکس پرفرض ہے اس کی تفصیلات قرآن پاک کی
تفسیر میں بیان کر دی گئی ہیں ،دین فطرت کے دوسرے ارکان کی طرح زکوٰة کے
حوالے سے اللہ تعالیٰ کے احکامات سے انحراف نہیں کیاجاسکتا۔ جس پرزکوٰة
اداکرنا فرض ہے وہ ضروراوربروقت زکوٰة تقسیم کرے مگرزکوٰة تقسیم کرتے وقت
مستحقین کی عزت نفس کااحترام ملحوظ خاطررکھنا ناگزیر ہے۔
گندم امیرشہرکی ہوتی رہی خراب
بیٹی کسی مزدورکی فاقوں سے مرگئی |