14اگست گذر گیا ،یہ میرے ملک کا
66 واں یومِ آزادی تھا۔کل صبح میںسوچوں کھویا ہواتھا کہ وہ آگیا اور میرے
دل و دماغ میں چھاگیا اور مجھ سے باتیں کرنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاں بھائی !آج منگل کو اپنے ملک کی سالگرہ ہے 65 ویں،مبارک ہو تم کو ، اس
نے گہری سانس لیتے ہوئے اور فکر مندانہ اندازمیں کہا، میں نے کہا ہاں خوش
ہو تم ؟ ہاں خوش تو ہوں لیکن شکر بہت ادا کرتا ہوں،اس نے میری طرف دیکھے
بغیر جواب دیا ۔۔۔۔مگر سوچ کیا رہے ہو؟ میں نے پوچھا۔۔۔۔وہ بولا سوچ رہا
نہیں ،سوچتا ہوں اکثر ۔۔۔۔۔وہ کچھ توقف سے بولا یہ سب کیسے ہوگیا ؟کیا ،
میں نے سوال کیا ۔۔۔وہ بولا یار یہ بتاﺅ تم نے کبھی مچھلی کا شکار کیا ہے؟
میں نے کہا نہیں ، مگر کیوں ؟۔۔۔۔۔۔اس نے کہا اس کا مطلب یہ ہوا کہ تم کو
سیاست سے باالکل دلچسپی نہیں! میں نے کہا نہیں بھائی ایسی کوئی بات نہیں ہے
،سیاست سے بہت دلچسپی ہے۔۔۔۔۔۔۔اس نے مسکراتے ہوئے مجھے سوالیہ انداز میں
دیکھااور کہنے لگا تم کو صرف سیاست کو دیکھنے کی حد تک دلچسپی ہوگی؟
بھائی یہ بتاﺅ اس سے ہمارے یوم آزادی کا کیا تعلق ہے؟میں نے پوچھا ، اس نے
کہا ہمارے یومِ آزادی کا؟؟وہ پھر مسکرایا اور بولا بھائی ”ہمارا یومِ آزادی“
پھر وہ کہنا شروع ہوا ہماری آزادی کا دن ۔۔۔ کیاتم پاگل ہو ؟ ۔۔۔بھائی ابھی
صرف ہم اپنے ملک کی یومِ آزادی کی بات کررہے ہیں، خوشی اس بات کی ہے کہ اس
کو آزاد ہوکر 65 سال گذر چکے ہیں۔۔۔۔یار یہ تو سب سے بڑا معجزہ ہے۔۔۔۔۔۔کیونکہ
۔۔۔ ہم پر حکمرانی کرنے والے یہ سیاستدان ،سرمایہ دار ، جاگیردار، تاجر ،
بیورو کریٹ اورتو اور امیر اور بااثر افراد تو صرف مچھلی کا شکار کر رہے
ہیں پھر بھی ۔۔۔۔۔۔ الحمداللہ اپنا ملک قائم و دائم ہے، اللہ ہمارے ملک کو
ہمیشہ قائم رکھے آمین۔
میں اب خاموشی سے اسے دیکھتا رہا ، اس نے کہا کیوں سچ بول رہا ہوں نا! میں
نے کہا ہاں آگے بولو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تم کو پتا ہے مچھلی کا شکار کرنے والے کو
تالاب ،دریا یا سمندر سے کوئی غرض نہیں ہوتی وہ توصرف شکار سے دلچسپی رکھتا
ہے۔۔۔۔۔۔باالکل ہمارے رہنماﺅں ان نام نہاد بلکہ خود ساختہ لیڈروںکی طرح
۔۔۔۔۔ اور اگر اس میں بھی اسے ناکامیابی ہوئی تو وہ قریب ہی بیٹھے ماہی
گیروں سے مچھلی خرید کر فاتحانہ انداز میں اپنے گھر لوٹ جاتا ہے اور اپنے
شکار پر ناکامی کے باوجود خریدی گئی مچھلیوں کو دکھاکر محلے میں اپنے آپ کو
بڑا شکاری ظاہر کرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ کہتے کہتے رک گیا اور کھل کھلاکر ہنسنے
لگا۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔ ۔کیوں ایسا ہی ہوتا ہے نا ہمارے ایوانوں میں ؟وہ کھل
کھلاتے ہوئے سوال کرنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے پوچھا کیا ہوا ہنس کیوں رہے ہو؟ ۔۔۔۔۔۔۔ہنستے ہوئے بولا یار ۔۔۔یار
یہ بھی واقعی بڑے شکاری ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔میں نے کہا کون بھائی ؟ بولا ارے ےار
یہ ہی یہ جن لوگوں کا میں نے پہلے ذکر کیا ہے نا یہ سب مچھلی کے شکار کی
طرح معصوم عوام کا شکار کیئے جارہے ہیں۔۔۔۔اس معصوم کی یہ بات سنکر میں خود
بھی ہنسنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔اس نے بولا آگئی نہ ہنسی ۔۔بس ہنستے رہو اور شکر ادا
کرو کہ یہ سیاست دان، بیوروکریٹ،جاگیردار ، سرمایہ دار،زمیندار اور اب
”بھائی لوگ “ بھی معصوم قوم کو کم از کم ہنسنے کا موقعہ تو فراہم کررہے ہیں
۔۔۔۔ہمیں مچھلی کی طرح گرفت میں لے رہے ہیں۔۔۔۔۔۔تم ذرا غور تو کرو جیسے
بعض لوگ مچھلیوں کو اپنے عقیدے کے مطابق کبھی کبھی دانہ ، یا آٹے کے
گولیاںڈالنے کے لئے سمندر، دریا یا تالاب کے گرد پہنچ جاتے ہیں باالکل اسی
طرح تو یہ چہرے ووٹ لینے کے لئے ہمارے محلوں میں جمع ہوجاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔یار
ہم معصوم لوگوں سے اچھی تو یہ مچھلیاں ہیں جو اپنے شکاریوں سے کبھی کبھار
اپنی خوراک تو حاصل کرہی لیتی ہیں۔۔۔۔۔
یہ کہتے ہوئے وہ افسردہ ہوگیا ۔۔۔۔کہنے لگا تم اپنی آزادی کی بات کررہے تھے
نا؟ ارے آزاد تو اصل میں یہ سیاست دان ہیں جو جاگیردار، سرمایہ
دار،زمیندار، بیوروکریٹ اور بھائی لوگ ہیں۔ ان پر کوئی قانون ،کوئی اصول ،
کوئی ضابطہ لاگو نہیں ہوتا اور کوئی بھی ادارہ غیرقانونی ،غیرآئینی ، غیر
اصولی اور غیر اخلاقی باتوں سے انہیں نہیں روک سکتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تم بھی کوشش
مت کرنا ورنہ مارے جاﺅ گے ،یہ تو وہ ہیں جو اپنے مفاد کے لئے آئین اور
قانون بھی بدل دیتے ہیں انہیں پاکستان کے غریب اور معصوم لوگوں سے کوئی
سرکار نہیں بھائی! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ تو بھوکی ننگی ، بہری اور بزدل قوم کو بے
وقوف ہی سمجھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔کیوں نہیں سمجھیں گے ؟۔۔۔۔۔یہ تو نہ ہوتے ہوئے
بھی اپنے آپ کو ایسا ہی بنائے ہوئے ہیں۔۔۔۔۔۔اس لئے یہ انہیں کچھ بھی سمجھ
سکتے ہیں۔۔۔۔کچھ بھی بناسکتے ہیں۔۔۔ کیونکہ ہم آزاد نہیںہیں ،ہم 65 سال بعد
بھی ان کے ہاتھوں قید میں ہیں یا پھر انہوں نے ہمیں یرغمال بنایا ہوا
ہے۔۔۔۔کوئی تو بات ہے کہ ہم آج بھی صرف ملک کی آزادی کا دن ہی مناپارہے ہیں
اور انتظار کررہے ہیںکہ ”آخرہم کب آزاد ہونگے ؟ “ ان انگریزوں کے پیروکاروں
کے چنگل سے۔۔۔۔؟
وہ معصوم کون تھا جو مجھے بری طرح جھنجھوڑ ڈالا؟؟؟ ۔۔۔۔۔شائد کوئی خواب یا
میرے اندر کا ایک مخلص پاکستانی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جو اپنے معصوم بیٹے کے اس جملے
سے کہ ” ابو کیا سوچ رہے ہو چلو جھنڈیاں لگاتے ہیں آج 14اگست ہے نا؟ # |