احکام شریعت(مسائل اور جوابات)متفرق

سوال نمبر۱:عید کے چھ روزرے کب رکھیں نیز کیا عید کے فورا بعدایک ساتھ یہ چھ روزے رکھنے ضروری ہیں یا نہیں
جواب عید کے دن روزہ رکھنا ممنوع ہے لہذا عید کا دن چھوڑ کر شوال کے پورے ماہ میں کسی بھی دن پے درپے یا متفرق طور پر چھ روزہ رکھنا مستحب اور بڑے ثواب کا کام ہے
حدیث مبارکہ ہے کہ جس نے رمضان المبارک کے روزے رکھے پھر اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو یہ ایسا ہے جیسے پورے سال کے روزے رکھے ہوں ۔
صحیح مسلم

سوال نمبر۲: بعض لوگ جمعۃ الوداع کو چاررکعت نفل پڑھتے ہیں کیااس طرح نوافل پڑھنے سے تمام قضاء نمازیں معاف ہوجاتی ہیں
جواب: قضائے عمری کامذکورہ طریقہ محض باطل وجہالت وبدعت ہے اس کی شریعت میں کوئی اصل نہیں ہے اس کاثبوت نہ تورسول اللہﷺ سے ثابت ہے نہ صحابہ سے نہ ہی کسی مجتہدوامام سے، اورنہ ہی اس طرح نمازپڑھنے سے کوئی ثواب کی امیداس لئے کہ نمازکوبغیرکسی عذرشرعی کے اپنے وقت سے قضاکرناگناہ اورپھرساراسال اس نمازکی قضا نہ کرنابلکہ رمضان المبارک کے آخری جمعہ کاانتظاکرنااورعلی الاعلان اس کااظہارکرنابھی گناہ ہے۔حدیث پاک میں ہے
’’حضرت انس فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺنے فرمایا:جوشخص نمازپڑھنابھول جائے توجب بھی اسے یاد آئے اس وقت پڑھ لے‘‘۔
[جامع الترمذی،ابواب الصلاۃ]
رسول اللہ ﷺکے فرمان عالیشان سے یہ بات ماخوذ ہے کہ جب نمازاپنے وقت مقررہ سے رہ جا ئے تو جس وقت یادآئے تو اس کو فوراپڑھ لیا جا ئے ۔
اورجان بوجھ نمازکی ادائیگی میں تاخیرکرناگناہ کبیرہ ہے اوریہ گناہ صرف ادائیگی سے معاف نہیں ہوتاجب تک آدمی توبہ یاحج نہ کرلے ۔
[الدرالمختار،کتاب الصلاۃ،باب الاذان]
اورفوت شدہ نمازوں کومسجدمیں قضاکرناسنت نہیں ہے اس لئے کہ اس میں تشویش اورتغلیظ ہےاوراس نمازکومسجدمیں قضاکرنامکروہ ہے،اس لئے کہ تاخیرگناہ ہے توپس اس کااظہارنہ کیاجائے
[الدرالمختار، کتاب الصلاۃ،باب الاذان]۔
ہاں اگرکسی جگہ کے تمام مسلمان اس میں مبتلاء ہوگئے ہوں اوران کی نمازیں قضاہوجائیں تواس صورت میں فرصت ملتے ہی ان نمازوں کو جماعت کیساتھ قضاکرنے کی اجازت ہے نہ کہ رمضان المبارک کے انتظارکاحکم،جیساکہ غزوہ خندق کے دن جب رسول اللہ ﷺاورصحابہ کرام علیہم الرضوان جنگ میں مشغول تھے اس وقت باختلاف روایات کچھ نمازیں رہ گئی تھی جن کوبعدمیں جماعت کیساتھ اداکیاگیا۔
حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ
’’بے شک رسول اللہ ﷺکی غزوہ خندق کے دن مشرکین کیساتھ مشغول ہونے کی وجہ سے چارنمازیں چھوٹ گئی یہاں تک رات کاکچھ حصہ جتنااللہ نے چاہاچلاگیا،تورسول اللہ ﷺنے حضرت بلال کواذان کاحکم فرمایاتوحضرت بلال نے اذان کہی ،پھراقامت کہی توظہرکی نمازاداکی ،پھراقامت کہی توعصرکی نمازاداکی ‘پھراقامت کہی تومغرب کی نمازاداکی،پھراقامت کہی توعشاء کی نمازاداکی‘‘ ۔
[جامع الترمذی،ابواب الصلاۃ]
خلاصہ کلام یہ کہ مذکورہ طریقے پر ادا کیے جانے والے نوافل بدعت ہیں ان کی کوئی شرعی حیثیت نہیں۔

سوال نمبر۳: صدقہ فطر سب پر لازم ہے تو جو غریب شخص ہے ہ کہاں سے صدقہ فطر ادا کرے
جواب فطرہ ہر شخص پر واجب نہیں بلکہ صدقہ فطر کی ادائیگی اس شخص پر واجب ہوتی ہے جو مالک نصاب ہو (جس کے پاس ساڑھے سات تولہ سونا یاساڑھے باون تولہ چاندی یاان کی قیمت موجود ہویا00050,روپے اپنی ضرورت سے زائد ہوں )جس کے پاس اتنی مالیت نہیں ہے تو اس پر صدقہ فطرادا کرنا واجب اور ضروری نہیں ہے
لہذا جو غریب ہے شرعی فقیر ہے تو وہ خود زکوۃ و فطرہ لینے کا مستحق ہے نہ کہ اس پر ہی صدقہ فطر لازم ہو ورنہ اگر سب پر ہی خواہ فقیر ہو یا نہ ہو صدقہ فطر لازم کیا جائے تو پھر صدقہ فطر دیا کس کو جائے گا


سوال نمبر۴: کیا صدقہ فطر عید کی نماز سے پہلے ادا کرنا درست ہے۔
جواب:عید بلکہ رمضان سےبھی قبل اگر صدقہ فطر دیا جائے تو درست ہے بہتر یہ ہے کہ عید کے دن نماز عید پڑھنے سے پہلے دیا جا ئے اور عید کی نماز کے بعد بھی دے سکتے ہیں اور اگر گزشتہ سالوں کا صدقہ فطر نہ دیا ہو تو کتنا ہی عرصہ گزر جا ئے وہ دینا بھی لازم ہے

سوال نمبر ۵: عیدین میں کوئی رکعت نکل جائے یا پہلی رکعت کی تکبیرات ہوجانے کے بعد نماز میں شامل ہو تو کس طرح نماز ادا کریں گے۔

جواب:اگر پہلی رکعت میں اس وقت شامل ہوا کہ امام صاحب نے تکبیرات ادا کرلی ہیں اب قرات فرما رہے ہیں تو نماز شروع کرتے ہی تینوں تکبیریں ادا کرلیں اور یہ یاد رہے کہ یہ تینوں تکبیریں تکبیر تحریمہ کے علاوہ ہیں یعنی کل چار تکبیریں ادا کرلیں اور اگر ابھی تکبیریں نہ کہیں تو رکوع میں تکبیر یں ادا کرلیں-

اسی طرح اگر امام کو رکوع میں پایا تو اگر تکبیر تحریمہ کے بعد کھڑے ہونے کی حالت ميں تینوں تکبیریں ادا کرنا ممکن ہو تو کھڑے ہونے کی حالت میں تکبیر تحریمہ کے بعد یہ تینوں تکبیر یں ادا کریں پھر رکوع میں امام کے ساتھ شامل ہوجائیں -

اور اگر یہ ڈر ہو کہ امام صاحب رکوع سے قومہ کی طرف منتقل ہوجائیں گے تو تکبیر تحریمہ کے بعد رکوع میں عیدین کی تکبیرات ادا کرلیں اور پھر رکوع میں کچھ ہی تکبیرات کہی تھیں کہ امام صاحب نے رکوع سے سر اٹھا لیا تو باقی تکبیرات ساقط ہوگئیں -

اور اگر ایک رکعت نکل گئی یعنی رکوع کے بعد نماز میں شامل ہوا تو پھر جب اپنی بقیہ رکعت کو مکمل کرئے اس وقت تکبیرات کہے۔

سوال نمبر۶: عید والے دن اگر بارش ہو رہی ہو اور پانی اس قدر ہو کے عید کی نماز پڑھنا مشکل ہو تو اس صورت میں عید کی نماز کیسے ادا کی جائے ۔ اور بعض نے پڑھ نے اور بعض بارش کے عذر کی وجہ سے نہیں پڑھ سے تو کیا حکم ہوگا؟

جواب:عید الفطر کے پہلے روز اگر کسی عذر کی بناء پر نماز نہ ہو سکی تو اگلے دن پڑھیں اور اگر دوسرے دن بھی کسی مجبوری کے تحت نہ ہوسکی تو اب تیسرے دن نہیں پڑھ سکتے البتہ عید الاضحی کی نماز ہو تو اس کو تیسرے دن بھی ادا کیا جائے گا اور یہ یاد رہے کہ دوسرے دن اور تیسرے دن نماز کے اوقات وہی ہونگے جو پہلے دن عید کی نماز کا ہوتا ہے ۔

بعض افراد نے عید کی نماز ادا کرلی اور بعض کسی عذرکے تحت نماز ادا نہیں کرسکے تو وہ بعض مذکورہ طریق پر عید الفطر دوسرے دن تک اور عید لافطر تیسرے دن تک ادا کرسکتے ہیں

والسلام مع الاکرام
ابو السعدمحمد بلال رضا قادری
mufti muhammed bilal raza qadri
About the Author: mufti muhammed bilal raza qadri Read More Articles by mufti muhammed bilal raza qadri: 23 Articles with 71710 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.