پاکستان ایک عظیم مملکت خداداد ہے
جس میں عوام، خواص، سیاستدان امراہ، غربا ، بیوروکریٹ، پیشہ ور عسکری افراد،
دانشور، قلم کار، بے کار بدکار، حرام کار، مزہبی رہنما اور نام نہاد مزہبی
رہنما، جس کا جیسے دل چاہتا ہے کرتا ہے اور سمجھتا یہ ہے کہ بس وہ ہی صحیح کر
رہا ہے اور باقی سب غلط کر رہے ہیں۔ اور پھر بھی یہ ملک چل رہا ہے چلو چلتا نا
سمجھو اب تک کسی حد تک برقرار تو ہے۔
دنیا میں قوموں کو ایک ملک کی تلاش ہوتی ہے ہمارا پیارا مگر بدنصیب ملک دنیا کا
شاید واحد ملک ہے جس کو اپنی قوم کی تلاش ہے۔ اس ملک میں سب کچھ ہے قدرت کے بے
بہا خزانے، سمندر، دریا، پہاڑ، معدنیات، ٹیلنٹ اور حقیقتاً سب کچھ ہے اگر کمی
ہے تو ایک مخلص قوم کی ہم سب کچھ ہیں پنجابی ہیں، بلوچی ہیں، سندھی ہیں، پٹھان
ہیں اگر نہیں ہیں تو پاکستانی نہیں ہیں کاش ہم یہ سمجھ سکیں اور ایک قوم بن
سکیں ۔
نواز شریف صاحب ایک پرانے سیاستدان ہیں کہتے ہیں کہ نواز شریف کو ایک معمولی
صوبائی وزیر سے وزارت عظمیٰ کے عہدے تک پہنچنے میں کم و بیش دس سال لگے اور
وزارت عظمیٰ کھونے سے معاہدہ کر کے ملک سے جلا وطن ہونے میں صرف ایک سال کا
قلیل وقت لگا۔ ایک قیدی کی حیثیت میں ایک سالہ تکالیف اٹھانے کے بعد نواز شریف
اقتدار کے اٹھارہ بیس سال کے مزے فراموش کر کے ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں
ملک سے نکلنے میں کامیاب رہے اور اس کا سہرہ جاتا ہے ہمارے ایک انتہائی محترم
برادر اسلامی ملک کو کہ جس کی وجہ سے نواز شریف صاحب اس قسم کے انتقام سے بچ
نکلنے میں کامیاب رہے کہ جس کے بعد سیاستدان کے پاس کچھ نہیں بجتا۔
آج صوبہ پنجاب میں جو افراتفری اور بے ہنگم سا مجمع نظر آرہا ہے اس کی وجہ
بظاہر تو یہ معلوم ہوتی ہے کہ صوبہ پنجاب کے دور حکومت میں جو کہ ایک سال سے
کچھ کم عرصے قائم رہ سکا، صوبہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن ) نے پچاس فیصد سے کم
نشتیں حاصل کی تھیں اور پورے پنجاب پر حکومت بلا شرکت غیرے کرنے کے چکر میں لگی
رہی اور حال یہ رہا کہ انتخابات کے بعد سے نااہلی تک پنجاب میں دونوں برادران
نے کابینہ تک مکمل نہیں ہونے دی (نااہل ہونے کے لیے اخلاقاً یہ بات بھی کافی ہے)
کہ کسی اور کو اپنے صوبے میں حکومت میں شریک کرنا جمہوری پنجاب کی حکومت رکھنے
والوں کے لیے نا قابل برداشت تھا۔
اب جبکہ حکومت پنجاب پر جناب سلمان تاثیر صاحب نے کنٹرول سنبھال لیا ہے اب ن
لیگ کا یہ کہنا کہ منتخب حکومت پنجاب کو برطرف کر کے وفاقی حکومت نے پنجاب کے
مینڈیٹ کی توہین کی ہے کیا اس سے ایک پاکستانی کے دل و دماغ میں یہ بات نہیں
آرہی کہ نواز شریف قومیت کو استعمال کرنے کے چکر میں لگ رہے ہیں۔ اب جبکہ ن لیگ
کو صاف نظر آرہا ہے کہ اگلی پنجاب حکومت میں ن لیگ کی وزارت اعلیٰ کے عہدے تک
رسائی ممکن نہیں ہو پا رہی تو اب وہ لوٹے اور غدار کہ جن سے بات نہ کرنے کی
نواز شریف نے قسمیں کھا رکھیں تھیں اب ان ہی ٹوٹے ہوئے لوٹوں کی ٹونٹیاں پکڑ
پکڑ کر لوٹوں کا رخ اپنی طرف کرنے سے انکی پارٹی کے ارکان نہیں رک پا رہے ظاہر
ہے کہ پارٹی ارکان اپنے رہنماوں کے حکم کے بغیر اتنا بڑا گناہ کرنے کا تصور بھی
نہیں کر سکتے۔
اور دوسری طرف وکلا کی تحریک تو لگ رہا ہے کہ اگلی پیشی پر چلی گئی ہے ۔ سب کو
سانپ سونگھ گیا لگتا ہے نئے اور پرانے تمام وکلا خاموش ہو گئے ہیں اور ایک
دوسرے کو دیکھ رہے ہیں کہ جو بولے وہی کنڈی کھولے۔ لگتا ہے وکلا کو بھی سلمان
تاثیر صاحب کی متوقع میزبان نوازی کی سن گن مل گئی ہے۔ اور مارچ میں جو دما دم
مست قلندر ہونے جا رہا تھا لگ رہا ہے کہ وہ صرف ٹی وی اسکرین کی حد تک ہی رہ
گیا ہے اور چونکہ اب مارچ میں موسم بھی تھوڑا گرم ہو جاتا ہے لہذا حسب معمول
اور حسب عادت وکلا رہنما اگلی ڈیٹ لے لیں گے اور دھرنا ورنا موسم سرما پر اٹھا
رکھے گے۔
بڑی مایوسی ہوتی ہے کہ ایسے کڑے وقت میں ہماری نام نہاد سول سوسائٹی اور ایکس
ویکس لوگوں کو کیا ہوا، کیا سب سمجھ گئے ہیں کہ امریکہ کیا چاہ رہا ہے اب سب
کچھ ٹھیک ٹھاک لگ رہا ہے نا جمہوری دور ہے بھئی اور ہمارے سیاستدانوں کا کہنا
کہ بد ترین جمہوری دور بہترین آمریت سے اچھا ہی ہوتا ہے اب کیوں بھولے بھالوں
کو یہ لگنے لگا کہ یہ جمہوری دور تو مشرف دور سے بھی زیادہ برا ہے۔ کیا دور اگر
اپنا ہو تو سب ٹھیک ہے اور اگر دوسرے کا ہو تو بد اور بد ترین ہے۔ واہ رے میرے
ملک کے سیاستدانوں۔ اب حکومت پنجاب کی برطرفی کے بعد حکومت پنجاب کے سلیکٹڈ لوگ
جو میڈیا پر نظر آتے تھے غائب ہوتے جارہے ہیں اور جو پیچھے بیٹھتے تھے اور
جیلوں کے عادی ہیں ان کو آگے لایا جا رہا ہے
غرض یہ کہ جمہوری طریقے سے منتخب ہونے والے محترم صدر جناب آصف علی زرداری جب
تک ساتھ تھے قابل احترام تھے اور چھوٹے بھائی تھے اور جب آپکی حکومت برطرف کی
گئی تو این آر او اور گریجویشن کی ڈگری نا ہونا اور بزنس ڈیل کرنا یہ سب اچانک
سامنے آگیا ۔ کیوں ملک و قوم سے کھیلتے ہو خدارا اب تو بس کرو جتنا کما کھا لیا
کیا کافی نہیں ہے اور ایک پولیس والے کو اسٹیج پر بلوا کر اس کی ٹوپی اور بیلٹ
ہاتھ میں اٹھا کر اپنا وفادار ثابت کرنا اور اس کو پھولوں کے ہار پہنوا دینا
کیا کسی ڈرامے کا حصہ نہیں ہے ایک احتجاجی جلسے میں پھولوں کے پلے پلائے ہار
کہاں سے آگئے کیا وہ ہار اسکرپٹ لکھنے والے نے پہلے سے منگوا نا رکھے تھے۔
کچھ لوگ سیاست میں جانے کے بجائے اگر اسٹیج ڈراموں میں آتے تو زیادہ ملک و قوم
کی خدمت کر سکتے تھے۔ اللہ ہی ہمارے ملک کی حفاظت کر سکتا ہے ورنہ ہم ایک عظیم
مملکت کی ایک قوم نہیں بلکہ قومیتوں کا ملغوبہ ہیں۔ |