ہندوستان پر صدیوں مسلمانوں نے
حکومت کی۔ان ادوارِ حکومت میں ہر ایک کے حقوق کی نگہ بانی اور پاس بانی کے
لیے مسلم حکمرانوں نے کوششیں کیں اور اہتمام کیا۔مذہبی و سماجی،قبائلی و
عائلی اور سیاسی معاملات و مناصب کا انتظام بھی اہلِ ہند کے جذبات کو ملحوظِ
خاطر رکھ کر انجام دینے کی کوششیں کیں۔جس کے نتیجے میں ہندوستانیوں کے دلوں
میں ان مسلم حکمرانوں کا ادب و احترام جاگزیں ہوگیا۔اور وہ گنگا جمنی تہذیب
وجود میں آئی جو ہندوستان کے لیے تمغہ امتیاز ہے۔ہندوستان امن کا گہوارا بن
گیا۔سونے کی چڑیا کہلایا۔
1600ءمیں انگریز تجارت کے بہانے ہندوستان آئے۔اپنی منافقانہ و مکارانہ
سازشوں کے تانے بانے بُننے شروع کیے۔پھر ایک دن وہ آیا جب تن کے گورے من کے
کالے یہاں قابض ہوگئے۔ہند کے ماتھے کو اپنی بدتہذیبی سے داغدار کرنے کی
کوشش کی۔مذہبی شعار اور عقاید کا مذاق اُڑا گیا۔بلکہ باضابطہ طور پر دین و
مذہب کے خلاف مہم چلائی گئی۔معاشرتی حقوق تلف کر دیے گئے۔تمام ہندوستان کو
غلامی کی زنجیر میں جکڑ دیا گیا۔جور و ستم اور ظلم و استبداد کی وہ مثال
قائم کی گئی کہ درندگی اور وحشت بھی شرماجائے۔
اس ماحول میں اضطراب پیدا ہونا فطری بات تھی ۔چناںچہ انگریزوں کے دو سو
سالہ مظالم کے خلاف دلوں میں دبی چنگاری شعلہ بار ہوگئی۔18ویں صدی میں افقِ
ہند سے انقلابِ آزادی کی کرن پھوٹی۔ جس نے تمام ہند کو اپنی جانب متوجہ
کیا۔ایک مردِ مجاہد انقلابِ آزادی کا پرچم لیے میدانِ عمل میں آیا۔اس نے
مختلف بلاد و امصارِ ہند کا دورہ کیا۔ اہلِ ہند کواپنی محکومی اور اسیرانہ
کیفیت کا احساس دلایا۔قومی سطح پر اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لیے بے
دار کیا۔تقریری و تحریری اور عملی طور پر ہندوستانیوں کو حصولِ آزادی کے
لیے تےار کیا،اور خود بھی اپنی خدمات پیش کیں۔مسلم علما و قایدین اور
حکمرانوں سے رابطے کیے۔ میٹنگیں ہوئیں۔ ملک کی آزادی کے لیے منصوبے بنائے
گئے۔ پھر 1857ءمیں ان منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اس مردِ مجاہد نے
آخری تیرکمان سے چھوڑا۔دہلی کی تاریخی جامع مسجد میں انگریزی مظالم
اوراقتدارکے خلاف وَل وَلہ انگیز خطاب کیا،آزادی کی قدر و قیمت اور اہمیت و
افادیت اجاگر کی،اکابر علماے دہلی کی بارگاہ میں انگریزوں کے خلاف ”جہادِ
آزادی“سے متعلق فتویٰ پیش کیا جس پر سب نے اپنے دست خط ثبت فرمائے۔فتویٰ کی
اشاعت سے پورے ملک میں انگریزوں کے خلاف عام شورش ہوگئی۔صرف دہلی میں
90ہزار مجاہدین فرنگی اقتدار سے بر سرِ پیکار ہوئے۔اور وہ تاریخی جنگ لڑی
گئی جس سے انگریز حکومت تھرّا اُٹھی اور اس کی راتوں کی نیند حرام
ہوگئی۔اور 1857ءکی اس جنگِ آزادی کے مجاہدین کے لہو کی سرخی 1947ءکی صبحِ
آزادی کے اُفق کا جمال بنی۔جنگِ آزادی1857ءکے مجاہدین نے قافلہ آزادی کی
حُدی خوانی کی۔اور ان حُدی خوانوں کی امامت و قیادت کا فریضہ اس ذاتِ گرامی
نے انجام دیا جسے دنیاے علم و فن امام المنطق والحکمت ”علامہ فضلِ حق
خیرآبادی“ کے نام سے یاد کرتی ہے۔علامہ فضلِ حق چشتی خیرآبادی ہی نے سب سے
پہلے انگریزی مظالم اور اقتدار کے خلاف جہاد کا فتویٰ صادر کیا۔اہلِ ہند کے
دلوں میں جذبہ حریت بے دار کیااور اس محکوم سر زمین کی آزادی کی راہ ہم وار
کی۔
حال آں کہ اس سے قبل بھی انگریزوں کے خلاف استخلاصِ وطن کی کوششیں
ہوئیں،مگر اس کے اثرات لمحاتی تھے اور اپنے اپنے علاقوں ہی تک محدود
تھے۔لیکن 1857ءکے انقلاب نے پورے ہندوستان بلکہ دیگر ممالکِ عالم پر بھی
اپنے اثرات مرتب کیے اور اس عظیم انقلاب سے تحرک پاکر محبانِ وطن نے
ہندوستان کی آزادی کی کوشش جاری رکھی۔پھر چشمِ فلک نے وہ دن بھی دیکھا کہ
مجاہدینِ آزادی کی قربانیاں رنگ لائیں، گلستانِ ہند کی بہاریں عود کر
آئیں،نخلِ چمن بارآور ہوئی اورحریت کی نکہتوں سے ہندوستان کی فضا مہک
اُٹھی....مگر افسوس! قافلہ آزادی کے اس سالارِ اعظم اور حریت کے مجاہدِ
کبیر کی مخلصانہ جد و جہد اور قایدانہ خدمات کو محض گروہی عصبیت یا نظریاتی
اختلاف کی بنیاد پر نظر انداز کردیا گیا اور ساتھ ہی اس کے رفقاے سفر کی
قربانیاں بھی فراموش کردی گئیں....!لیکن اب صداقت اپنا رنگ جما رہی ہے،اور
آسمانِ حقایق پر جانب داری و یک طرفی کے گھرے بادل چھٹ رہے ہیں”آفتاب آمد
دلیلِ آفتاب“کے مصداق ان مجاہدین کی خدمات اہلِ انصاف کے اذہان و افکار کو
دعوتِ فکر دے رہی ہیں۔ضرورت صرف عدل و انصاف کی نگاہ سے تاریخِ آزادی کا
مطالعہ کرنے کی ہے۔ |