تحریر: مدیحہ خاتون
اپنے ملک کو مشکل حالات کے جن پر پیچ راستوں سے گزرتا ہوا دیکھ رہی ہوں ان
میں دل کا مایوسی کی آماجگاہ بننا یقینی ہے مایوسی کی یہ تاریک رات اس قدر
گھنی ہو چکی ہے کہ اس میںوطن عزیز کو ترقی کرتے دیکھنا ایک دیوانے کے خواب
سے زیادہ نظر نہیں آتایہ ملک کسی فرد واحد یا کسی ایک ادارے کی وجہ سے
مسائل کی دلدل میں نہیں دھنسابلکہ اس کار شر میں ہر شخص نے اپنا اپنا حصہ
ڈالا ہے خود غرضی اور بد عنوانی کی کوکھ سے جنم لینے والی کرپشن اور بد
عنوانی جیسی خصلتوں نے اس ملک کو تباہی کے دہانے پہ لا کھڑا کیا ہے ۔ حاکم
اور محکوم دونوں ہی کسی ملک کے اچھے یا بر ے مستقبل کے ذمہ دار ہوتے ہیںاگر
خوش قسمتی سے حاکم ٹیپو سلطان جیسے ہوںتو میر جعفر اور میر صادق جیسے غدار
اس کی جڑیں کھوکھلی کرنے میں وقت نہیںلگاتے لیکن اگر عوام باہوش،غیرت
منداور خوددار ہوں جلد یا بدیر ان میںاپنے حقوق کا شعور آ جائے تو یہ دنیا
بار بار انقلا ب فرانس کی تاریخ دہرا سکتی ہے پچھلے 65سالوں سے اس ملک میں
صاف و شفاف لیڈر شپ کے فقدان کارونا رویا جا رہا ہے ہر کوئی انقلاب اور
انقلاب کا راگ الاپ رہا ہے مگر یہ کوئی نہیں جانتا کہ انقلاب آتا کیسے ہے
قومی سطح پر تبدیلی لانے کے لیے ضروری ہے کہ ہر شخص کی انفرادیذہنیت کو
بدلا جائے کیونکہ پانی کی ایک لہر کس انداز میں بل کھاتی ہے یہ اس میں مو
جود ہرقطرے کی اپنی خصوصیا ت پہ منحصر ہوتا ہے تبدیلی پہلے ذہن سے جنم لیتی
ہے سوچ کو بدلتی ہے اور پھر اجتماعی طور پہ اپنا اثر ڈالتی ہے مگر ہم اپنا
الو سیدھا کرنے کی بجائے دوسروں سے توقعات وابستہ رکھتے ہیںجو ہماری امیدوں
پر اپنی غرض کا پانی پھیر دیتے ہیں۔دنیا بھر میں جمہوریت کوبہترین طرظ
حکومت سمجھا جاتا ہے مگر جس طرح کی جمہوریت ہمارے ملک میں رائج ہے اس نے
خود آمریت کو بھی شرمندہ کر دیا ہے اس کی بڑی وجہ جہاں بد عنوانی کے مرتکب
حکمران ہوتے ہیں وہیں ایک انتہائی شرمناک عوامی بھی رویہ ہے جس کا اطلاق
ملتان کے حا لیہ ضمنی الیکشن میں دیکھا گیا ہے جیسے عوام ہوتے ہیں ویسے ہی
حکمران مسلط کیے جاتے ہیں۔جیسے جیسے انتخابات کا موسم قریب آ رہا ہے بہت سے
دانشور تجزیہ نگار اور لکھاری اس کے ضرر رساںنتائج سے بچنے کے لیے بہت سی
تجاویز دے رہے ہیںجن میں سے اکثر تو آ ئین پاکستان کا حصہ بھی ہیں مگر بد
قسمتی سے قانون کی کتابوں کا حصہ بنی رہی ہیںایک اہم تجویز جو کئی سالوں سے
متعارف کرائی جا رہی ہے اور جس کا نفاذ دیکھنے کے ہم سب شدت سے منتظر ہیں
وہ یہ ہے کہ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں کی آ بادی کے تناسب
سے ا کے نمائندے مقرر کیے جائیںکیونکہ مگر مچھ کبھی مچھلیوں کے حقوق کا
نمائندہ نہیں ہوسکتا اور نہ ہی پانی میں رہنے والی مچھلی ہو میں اڑنے والے
پرندے کے حقوق سے آ شنا ہو سکتی ہے
ایک قانون یہ بھی منظر عام پر آ رہا ہے کہامیدوار انتخابی مہم پر خرچ کرنے
کے لیے اپنے اخراجات محدود کر دیں اس کے لیے وہ ایک علیحدہ اکاﺅ نٹ
بنائیںجس کے تمام حساب کتاب قانون کی نگرانی میں ہوں ویسے کیا ہی اچھا ہو
اگر امیدوار رشوت دینے اور اشتہارات پر پیسہ پانی کی طرح بہانے کی بجائے
اسے ترقیاتی کاموں اورعوام کی فلاح و بہود پر خرچ کریں تا کہ اس سے ان کا
ضمیر اور ووٹر دونوں مطمئن رہیں ایک قانون یہ بھی ہے کہ امیدوار انتخابات
کے روز عوام کو ٹرانسپوٹ فراہم نہیں کر سکتے حالانکہ اکثریہ ہی دیکھا گیا
ہے کہ پولنگ سٹیشن چاہے چار قدم کے فاصلے پہ کیوں نہ ہوامیدواروں کے چمچے
سادہ لوح عوام کو مختلف ذرائع آمدورفت پہ لادنے کے لیے جس بیدردی سے
گھسیٹتے ہیںکہ کوئی بے چارہ غریب ہاتھ یا بازو سے محروم نہ ہو جائے راست
طرز جمہوریت کے اطلاق کے لیے انتخابات کے یہ تمام اصول اپنی جگہ اگر یہ فرض
کر بھی لیا جائے کہ اس ملک کا صاحب اقتدار طبقہ جنگل کے قانون سے انخراف کر
جائے رب ذوالجلال کوئی ایسا معجزہ رونما کر دے کہ آزاد اور منصفانہ
انتخابات کے تمام قوانین پر عمل در آ مد شروع ہو جائے تو اور کوئی حاکم کسی
محکوم پر اپنا رعب اور دبدبہ قائم کرنے کی جرت نہ کر سکے تو بھی ایک ایسا
عنصر ہے جو صحیح قیادت کے انتخاب کی راہ میں حائل ہے یہ رکاوٹ در اصل ایک
ایسا انسانی رویہ ہے جس کے سدباب کے لیے بدقسمتی سے کوئی ادارہ قانون نہیں
بنا سکتا کیوں کہ قید نفس سے رہائی پانے کے لیے انسان کو اپنا نفس ہی وکیل
کرنا پڑتا ہے اور اسے ہمارے ہاں کی اکثریت قابل فروخت کے لیبل کے ساتھ آ
ویزاں رکھتی ہے یا اہلیان دولت و اقتدار کے خوف اور ان کے قرب کی خواہش کی
خواب آور گولیاں کھلا کر اسے سلا چکی ہوتی ہے ۔ اس رویے کا حا لیہ اطلاق
کچھ دن پہلے ملتان میں ہونے والے ضمنی انتحابات میں دیکھا گیا ہے اگر ہمارے
عوام اتنے ہی با شعور، خوددار اور غیرت مند ہوتے تو کیا وہ ایک الزام یافتہ
شحص کو اپنا راہنما منتحب کرتے جو ایفیڈرین سکینڈل کی وجہ سے بدنام زمانہ
ہے کیا 64000لوگوں میں ایک شخص بھی تعلیم یافتہ نہیں تھا کہ ایک راہزن کو
قافلے کا سردار بنا دیاآخر وہ وقت کب آئے گا جب ہمارے عوام ان جاگیرداروں
اور موروثی سیاستدانوں کے چنگل سے آزاد ہوں گے یہ لوگ اپنے حاکموں کا
انتخاب کرتے وقت اجتماعی فوائد اور نقصانات مدنظر نہیں رکھتے بلکہ ان کے
ذاتی اغراض مقاصد ان کے لیے زیادہ اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اس کی وجہ تعلیم
کل کمی یا غربت نہیں ہوتی بلکہ چند ذاتی فوائد ہوتے ہیں مڈل کلاس خاندانوں
کی اکثریت اپنے ذاتی تعلقات کی نوعیت دیکھ کر امیدوار منتخب کرتی ہے یہ لوگ
فن چمچہ گیری میں ما ہر ہوتے ہیںان کا مقصد اپنے علاقے میں اپنے اثر و رسوخ
کی ترویج ہوتا ہے بوقت انتخاب کے ذہنوں میں یہ سوچ کار فرما ہوتی ہے کہ
صاحب اقتدار ہونے کے بعدان کے منتحب شدہ امیدوار کس حد تک ان کے ذاتی کام آ
سکتے ہیں مثال کے طور پر ان کے کسی سپوت سے دانستہ یا نا دانستہ کوئی قتل
سر زد ہو جائے تو انکے یہ تعلق دار ان کے دست و بازو بن سکتے ہیںمستقبل میں
ان کوئی بھی جائز یا نا جائز کام نکلوانے کے لیے ان کی خدمات با آسانی لی
جا سکتی ہیں ۔اس مخلوق کا شمار ان لوگوں کی صف میں ہوتا ہے جو نفع ونقصان
کے خوف سے اپنے معبود چنتے ہیںجیسے ہندو سانپ کو پوجتے ہیں کہ انہیں اس کے
ڈسنے کا خوف ہوتا ہے اور گائے کو پوجتے ہیں کہ یہ ان کے لیے فائدہ مند ثابت
ہوتی ہے مگر یہ لوگ بھول جاتے ہیں کہ نظریہ ضرورت کے تحت کسی چیز کی طرف
داری اکثر نقصان دہ ثابت ہوتی ہے بظاہر خود دار اور غیرت مند نظر آنے والی
یہ قوم اصل میں غیرت کی غ کو غرض کی غ میںبدل رہی ہوتی ہے یہ لوگ اہل
اقتدار کے سحر میں اس قدر جکڑے ہوتے ہیں کہ ان کو اپنے کسی ان داتا کا
دیدار ہو جائے تو اس کی طرف ایسے لپکتے ہیں جیسے کوڑا پھینکنے پر مرغی اس
کی طرف لپکتی ہے ا پنی عزت کے شملے کو اونچا رکھنے کے لیے یہ لوگ جس گھاٹے
کا سودا کرتے ہیں اس کا اندازہ انہیں بہت جلد ہو جاتا ہے کیونکہ مطلب پرست
امیدوارا پنا کام نکل جانے کے بعد ٹشو پیپر کی طرح پھینک دیتے ہیں اور مرغی
کی اپنے بچے علیحدہ کر دینے والی مثال انتخابات کے نتائج پہ ہی اپنی عملی
تفسیر بن کر سامنے آ جاتی ہے کچھ عرصے بعد یہ حضرات جب ذاتی کام سے اپنے
منتخب نمائندوں کے پاس جاتے ہیں تو جواب ملتا ہے کہ ہم کون اور آپ کونیہ
لاکھ بتانے کی کوشش کریں کہ ہم آپ کے ہیں کون مگر سمت مخالف کی مسلسل بے
رخی انہیںیہ کہنے پر مجبور کردیتے ہیں کہ اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ
گئیں کھیتخود تو انہیں منہ کی کھانی ہی پڑتی ہے ساتھ ہی نا اہل لوگوں کو
ایوان اقتدار میں بٹھا کر عوام کو بھی ڈس لیتے ہیں اور یہ حکمران ایک بار
پھر جمہوریت کے نام پر عوام کا خون چوسنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔جب تک اس
ملک کا ایک ایک فردا پنی ذاتیات کو بالائے طاق رکھ کروطن کے اجتمائی فوائد
کے بارے میں نہیں سوچے گا کسی قسم کا کوئی قانون اسے لٹیروں کے چنگل سے
نہیں چھڑا سکتاکیوں کہ صرف قوانین بنانا ہی شفاف نتائج کا ضامن نہیں ہوتا
بلکہ اس پر عمل بھی ضروری ہوتا ہے اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب ہمارا دل
ذاتی مفاد اور خواہشات کی گرد سے پاک ہو گااور شخص خودداری اور اصل معنوں
میں غیرت کا ثبوت دیتے ہوئے صرف اپنی نہیں بلکہ اس ملک کی بھلائی کا سو چے
گا۔ اقبال کہتے ہیں
تیری خودی میں اگر انقلاب ہو پیدا
عجب نہیں یہ چار سو بدل جائے |