امریکا نے عالمی قوانین کی خلاف
ورزی جاری اور پاکستان کا احتجاج مسترد کرتے ہوئے عید کے دنوں میں بھی
چوبیس گھنٹوں میں شمالی وزیرستان میں تین ڈرون حملے کیے جن میں کم و بیش 25
افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہو گئے۔ دوسری ڈرون حملوں کےخلاف ایک نئی پیش
رفت یہ دیکھنے میں آئی ہے کہ پہلی دفعہ اقوام متحدہ نے واضح کیا ہے کہ
امریکا ڈرون حملوں کی قانونی چھان بین کےلئے خود کو پیش کرے۔ امریکا ہر
ڈرون حملے کی ویڈیو بناتا ہے جسے اقوام متحدہ کے حوالے کیا جائے جس کو آزاد
ماہرین کے حوالے کیا جائیگا۔ ان خیالات کا اظہار اقوام متحدہ کے عہدیدار
بین ایمرسن نے کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے عہدیدار کے مطابق امریکا ڈرون حملوں
کے ٹھوس شواہد پیش کرے۔ ڈرون حملوں کی ویڈیوز پیش نہ کی گئی تو امریکا کو
تحقیقات کا سامنا کرنا ہوگا۔ امریکی عہدیدار نے مطالبہ کیا کیا امریکا کی
جانب سے پاکستانی حدود میں ڈرون حملوں کی تحقیقات کا معاملہ انسانی حقوق
کونسل کے حوالے کیا جاسکتا ہے۔ اقوام متحدہ کے عہدیدار کا یہ بیان شمالی
وزیرستان میں ڈرون حملے میں چار افراد کی ہلاکت کے بعد سامنے آیا ہے۔ عید
سے ایک روز پہلے ہونے والے حملے پر پاکستان نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے
ہوئے اسے بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔ بین ایمرسن
کے مطابق جب تک اقوام متحدہ کے پاس ڈرون حملوں کے ٹھوس شواہد نہ ہوں ان
حملوں کی قانونی یا غیر قانونی حیثیت کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
پاکستان اور یمن میں ڈرون حملوں کے خلاف امریکی عدالتوں میں مقدمات بھی زیر
سماعت ہیں۔
اس بارے میں دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ کسی ملک کی جغرافیائی حدود میں اس کی
رضامندی اور اجازت کے بغیر ڈرون حملوں جیسی کارروائیاں اس ملک کی خودمختاری
میں کھلی مداخلت ہیں۔ پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت ،عوام اور پارلیمنٹ
کی جانب سے ڈرون حملوں کے خاتمے کے مستقل مطالبے کے باوجود امریکی حکام کی
جانب سے ان کا جاری رکھا جانا اور نیٹو سپلائی کی بحالی کے فوراً بعد اس
سلسلے کا دوبارہ شروع کردیا جانا ، پاکستان کی خودمختاری کے احترام کے
حوالے سے امریکی حکام کی زبانی یقین دہانیوں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں
اسے اپنا حلیف تسلیم کرنے کے دعووں کے قطعی برعکس ہے ۔ یہ رویہ عملاً
پاکستان کی خود مختاری کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔ پاکستانی سفیر کا یہ
کہنا بالکل بجا ہے کہ اس کے نتیجے میں دہشت گردی کے رجحان میں کمی کے بجائے
اضافہ ہورہا ہے اور پاکستان کے لیے مسائل بڑھ رہے ہیں۔ اس لئے ڈرون حملوں
پر پاکستان کی جانب سے کوئی مفاہمت ممکن نہیں۔ ڈرون حملے کسی ملک کی خود
مختاری کے منافی ہونے کے علاوہ انسانی حقوق کی بھی کھلی خلاف ورزی ہیں۔یہ
اعداد وشمار منظر عام پر آچکے ہیں کہ پاکستان میں ڈرون حملوں سے مرنے والوں
میں 98 فی صد بے گناہ لوگ شامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خود امریکا اوراسکے
اتحادی ممالک میں انسانی حقوق کے علم بردار حلقے ڈرون حملوں کے خلاف مسلسل
آواز بلند کررہے ہیں۔ امریکا کے سابق صدر جمی کارٹر نے ایک ممتاز امریکی
اخبار میں 24 جون کو شائع ہونے والے اپنے ایک تجزیے میں ڈرون حملوں کو
انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس پالیسی سے ہمارے
دشمنوں میں اضافہ اور دوستوں میں کمی ہورہی ہے۔اپنے اس مضمون میں انہوں نے
مزید لکھا ہے کہ ملک سے باہر ڈرون حملوں اور ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ شروع کرکے
امریکاانسانی حقوق کے چمپئن ہونے کے اعزاز سے محروم ہوتا جارہا ہے۔ ان کے
بقول امریکا کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ترک کرکے دنیا کی اخلاقی قیادت
کا مقام دوبارہ حاصل کرنے کی فکر کرنی چاہیے۔ انہوں نے امریکا کے موجودہ
طرز عمل کو انسانی حقوق کے عالمی منشور کے منافی قرار دیتے ہوئے اس بات پر
افسوس کا اظہار کیا ہے کہ آج جب دنیا میں عوام اپنے جمہوری حقوق کے لیے
سرگرم ہیں، اس وقت امریکا کی جانب سے انسانی حقوق کی حمایت کے بجائے عالمی
منشور حقوق انسانی کی تیس میں سے کم از کم دس شقوں کی خلاف ورزی کی جارہی
ہے۔ امریکی حکمرانوں کوایسی باتوں پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔امریکی
پالیسی سازاکثر اس بات پر تشویش کا اظہار کرتے رہتے ہیں کہ دنیا میں امریکا
کے خلاف نفرت بڑھتی جارہی ہے۔ اگر وہ اس صورت حال کو بہتر بنانا چاہتے ہیں
تو اس کی کوئی صورت اس کے سوا نہیں کہ وہ دنیا میں انسانی حقوق کی خلاف
ورزیوں کا سلسلہ ترک کرکے ان حقوق کے محافظ اور علم بردار ہونے کا اپنا
سابقہ کردار بحال کریں۔ اگر وہ اپنے موجودہ رویے کو جاری رکھیں گے تو
امریکا کے خلاف منفی جذبات کا سلسلہ پوری دنیا میں فروغ پذیر رہے گا
اوربظاہر دہشت گردی کے جس خطرے سے نجات کے لیے ڈرون حملوں جیسی پالیسیاں
اپنائی گئی ہیں، وہ خطرہ نئے برگ و بار لاتا رہے گا۔ جہاں تک پاکستان میں
ڈرون حملوں کا تعلق ہے تو پاکستانی قوم کا یہ مطالبہ بالکل جائز اور برحق
ہے کہ امریکا ڈرون حملوں کا سلسلہ بلاتاخیر بند کردے۔ اگر امریکی حکومت
پاکستان کے اندر موجود اپنے کسی حقیقی دشمن کے خلاف کارروائی کرنا ضروری
سمجھتی ہے تو یہ کام پاکستانی حکومت اور انٹلیجنس اداروں کو اعتماد میں لے
کر ان ہی کے ذریعے کیا جانا چاہیے۔خفیہ معلومات کے افشاءہوجانے کے خدشے کی
روک تھام کے لیے ایسی موثر تدابیراختیار کی جاسکتی ہیں کہ یہ خطرہ باقی نہ
رہے۔ |