او آئی سی غیر فعال کب تک؟

57اسلامی ملکوں کی تنظیم او آئی سی اقوام متحدہ کے بعد دنیا میں قوموں کی سب سے بڑی تنظیم ہے۔ یہ کسی ایک مذہب سے تعلق رکھنے والے ملکوں کی بھی سب سے بڑی تنظیم ہے۔ اپنے قیام کے ابتدائی سالوں میں اس نے اپنے چارٹر کے مطابق پوری قوت سے دنیا بھرکے مسلمانوں کے حقوق و مفادات کے حق میں آواز اٹھائی اور عالمی برادری کو مسلمانو ں سے روا رکھی جانے والی زیادتیوں اور ناانصافیوں کے خاتمے کے لئے سوچنے پر مجبور کیا مگر کچھ عرصہ سے یہ تنظیم زیادہ فعال نہیں رہی اورجن مقاصد کے لئے اسے قائم کیا گیا تھا۔ ان کی طرف سے اس کی توجہ ہٹی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ اس عدم فعالیت کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ بظاہر سب سے بڑی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ دنیا کی بعض بڑی قوتوں اور سرکردہ ممالک نے اسے اپنے لئے خطرہ سمجھنا شروع کر دیا اور اس کے رکن ممالک کے لئے ایسے اندرونی مسائل پیدا کردیئے جن سے وہ داخلی خلفشار کا شکار ہوگئے یا آپس میں ہی الجھ کر رہ گئے۔ اب ایک لمبے عرصے کے بعد اس میں زندگی کے آثار نمودار ہوئے ہیں اور مسلمان ملکوں کی نمائندہ تنظیم کے طور پر اس نے شام میں ہونے والی بیرونی مداخلت اور میانمار کے مسلمانوں کی حالت زار پر غوروفکر کے لئے ہنگامی اجلاس بلایا ہے۔ توقع ہے کہ اس میں جموں و کشمیر اور فلسطین کے تنازعات پر بھی سیرحاصل گفتگو ہوگی۔ شام اس وقت غیرملکی مداخلت کے نتیجے میں لہولہان ہورہا ہے اور اسکی حکومت اور مخالفین کے درمیان جنگ کے نتیجے میں دونوں طرف سے مسلمانوں کا خون بہہ رہا ہے۔ میانمار میں بودھ اکثریت مسلمانوں کی نسل کشی کر رہی ہے اور حکومت مظلوموں کی دادرسی کی بجائے ظالموں کی عملی مدد کررہی ہے۔ اپنے علاقوں میں صدیوں سے پرامن زندگی گزارنے والے ہزاروں مسلمانوں کو قتل کیا جا چکا ہے۔ جو زندہ بچ گئے ہیں وہ انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان سے کہا جا رہا ہے کہ وہ ملک چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں، کسی تنظیم یا خیراتی ادارے کو اجازت نہیں کہ انہیں خوراک یا دوسرا امدادی سامان پہنچاسکے۔ اقوام متحدہ اور بڑی طاقتیں سب کچھ دیکھ رہی ہیں مگر ظلم کا ہاتھ روکنے والا کوئی نہیں۔ پاکستان نے بھی بڑی تاخیر کے بعد برمی مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کی مذمت کی اور صدر زرداری نے میانمار کے صدر کو اس حوالے سے تشویش کا خط لکھا۔ یہ عجیب بات ہے کہ برما کے مسلمانوں کا اقوام متحدہ نے بھی نوٹس نہیں لیا۔ حالانکہ انڈونیشیا میں مشرقی تیمورکی عیسائی اقلیت نے ملک سے علیحدگی کا مطالبہ کیا تو امریکہ آسٹریلیااور اس کے اتحادی ممالک اس کی مدد کو فوراً پہنچ گئے اور اقوام متحدہ پر دباﺅ ڈال کر ان کی الگ مملکت قائم کرادی۔ سوڈان کے جنوبی علاقے میں عیسائی اقلیت نے شورش برپا کی تو اسے بھی علیحدگی کا حق دلواکر ایک بڑے اسلامی ملک کو تقسیم کر دیا گیا۔ کیا اسے محض اتفاق قرار دیا جائے کہ طاقتور عیسائی ممالک کو صرف اسلامی ملکوں کی اقلیتوں کے مسائل نظر آتے ہیں اور غیرمسلم ممالک میں مسلمان اقلیتوں پر جو گزر رہی ہے وہ ان سے بالکل بے خبر ہیں؟ ریاست جموں و کشمیر پر بھارت اور فلسطین پر اسرائیل نے قبضہ کر رکھا ہے اور کشمیری اورفلسطینی مسلمانوں کے حق میں سالہاسال سے اقوام متحدہ کی قراردادیں بھی موجود ہیں۔ ان پر عملدآمد کرانے کی کسی کو فکر نہیں۔ بھارت میں آسام کے مسلمانوں پر عرصئہ حیات تنگ کر دیا گیا ہے اور انہیں ملک سے نکل جانے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ بے یارومددگار مسلمانوں کو بنگلہ دیش میں دھکیل کر اس اسلامی ملک کے لئے مشکلا ت پیدا کی جا رہی ہیں۔ نائیجیریا مسلمان اکثریت کا ملک ہے۔ وہاں عیسائی اقلیت کو اکثریت کے خلاف کھڑا کیا جا رہا ہے۔ مسلمان ملکوں میں پہلے اندرونی مسائل پیدا کئے جاتے ہیں اور جب معاملہ مسلح محاذآرائی تک پہنچ جائے تو امن کے نام پر ان ملکوں پر حملہ کر دیا جاتا ہے۔ عراق اس کی واضح مثال ہے۔ پھر مسلمان ملکوں کو آپس میں الجھا دیا جاتا ہے۔ افغانستان کو پاکستان سے اور پاکستان کو افغانستان سے لڑانے کی کوشش کی جا رہی ہے حالانکہ ان دونوں ہمسایہ ممالک کی سرحدیں ہی آپس میں نہیں ملتیں۔ ان کے مفادات بھی ایک دوسرے سے وابستہ ہیں۔وقت آگیا ہے کہ اسلامی ملکوں کی تنظیم کو فعال کیا جائے اور اسے اس کے چارٹر کے مطابق عالم اسلام میں اتحاد و یکجہتی اور امن و استحکام کا موثر ادارہ بنایا جائے۔ اسلامی ممالک اقوام متحدہ کے بھی رکن ہیں جس کے منشور میں دنیا بھر کے انسانوں کو نسلی لسانی اور مذہبی امتیازات سے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے۔
Muhammad Ali Shehzad Bhatti
About the Author: Muhammad Ali Shehzad Bhatti Read More Articles by Muhammad Ali Shehzad Bhatti: 3 Articles with 2585 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.