حضرت مولانا فتح محمد صاحب 1907
میں وادی سون سکیسر تحصیل نوشہرہ ضلع خوشاب کی ایک ڈھوک ”گل محمد والی“ میں
ملک علی محمد کے گھر پیدا ہوئے،بچپن ہی میں والدہ کا سایہ سر سے اٹھ
گیا،ابتدائی تعلیم و تربیت ماموں ملک شیر باز کی زیر نگرانی ہوئی جو خود
بھی ایک عالم باعمل تھے،پھر طلب علم کی جستجو آپ کو بندیال شریف لے گئی
جہاں استاذ العلماءحضرت مولانا یار محمد نے نوجوان فتح محمد اپنی خصوصی
توجہ وعنایات کا حقدار ٹھہرایا،بعد میں استاذ العلماءکی اجازت سے جامعہ
عباسیہ بھاولپور میں داخلہ لے لیا اور شیخ الجامعہ مولانا غلام محمد گھوٹوی
کی شاگردی اختیار کی،1933میں جامعہ اسلامیہ بھاولپور سے ”علامہ “کے منصب پر
سرفراز ہوئے،آپ نے 1935میں پنجاب یوینورسٹی سے مولوی فاضل (Honours in
Arabic) کا ڈپلومہ حاصل کیا،عملی زندگی کا ابتدائی ایک سال دارالعلوم
عزیزیہ بھیرہ میں تدریس کے فرائض سرانجام د یتے ہوئے گزارا،اپنے پیرومرشد
حضرت سیّدنا مہر علی شاہ گولڑوی کے صاحبزادے پیر غلام محی الدین شاہ
المعروف بابو جی کی خواہش پر تین سال دیوان غلام قطب الدین سجادہ نشین
درگاہ بابا فرید الدین گنج شکر کے مذہبی اتالیق رہے،بابو جی کی ہی خواہش
پر15سال پیر سیّد نصیرالدین نصیر کی تعلیم وتربیت کا فریضہ بھی سرانجام
دیا،مولانا فتح محمدنے اعلیٰ تعلیم کے خواہشمند نوجوانوں کیلئے راولپنڈی
میں منشی فاضل کلاسز کا بھی اجراءکیا،مسلسل لگن،محنت اور کام مولانا فتح
محمد کی زندگی طرہ امتیاز رہا اور زندگی کے آخری لمحات تک دین کی ترویج و
اشاعت میں مصروف رہے،26دسمبر 1969 کو مولانا فتح محمد نے اس دار فانی سے
کوچ فرمایا اور آپ کی تدفین حضرت بابو جی زیر نگرانی گولڑہ شریف کے ”خاصان
ِدرگاہ “قبرستان میں ہوئی ۔
مولانا فتح محمد نے کچھ عرصہ دارالعلوم انجمن نعمانیہ لاہور میں درس و
تدریس کے فرائض انجام دیئے،بعد میں اسلامیہ ہائی اسکول مری روڈ راولپنڈی
میں اسلامیات اور فارسی کے استاد مقرر ہوئے،یہ وہ زمانہ تھا جب تحریک
پاکستان اپنے عروج پر تھی اور مسلمان طالبعلموں کو اسلامی عقائد و تعلیمات
سے آراستہ کرنا کسی جہاد سے کم نہ تھا،چنانچہ وقت و حالات کی ضرورت کو
محسوس کرتے ہوئے مولانا فتح محمد صاحب نے ماسٹر محمد فاضل جیسے مخلص دوستوں
کے تعاون و مشورے سے ایک ایسی کتاب کی تالیف شروع کی جس کا مقصد آنے والی
نسل کو دین سے آگاہی فراہم کرکے ملک و قوم کی تعمیر نو کیلئے تیار کرنا
تھا، یہ کتاب قیام پاکستان تک ”گلشن اسلام“ کے نام سے چار حصوں میں چھپ کر
تیار ہو ئی،اُس زمانے میں کتاب کی اہمیت و افادیت کے پیش نظر ہائی اسکول
انتظامیہ نے ”گلشن اسلام “کو اپنے نصاب میں شامل کیا اور اس کی تعلیم
طلباءکیلئے لازمی قرار دی، قیام پاکستان کے وقت 3سے 4 حصوں میں لکھی گئی یہ
کتاب اب تقریباً 64 سال کے بعد دوبارہ نئی تزئین وآرائش کے ساتھ ایک
خوبصورت مجلد شکل میں سامنے آئی ہے،جس کا سہراصاحب مولف کے صاحبزادے
عبدالستار اعوان کے سر جاتاہے،64 سال بعد”گلشن اسلام“کی دوبارہ اشاعت کے
جذبہ محرکہ کی وضاحت کرتے عبدالستار اعوان کہتے ہیں کہ ”عصر حاضر میں
بنیادی اسلامی عقائد،احکام اور اعمال سے آگہی کی جتنی ضرورت آج ہے شاید اِس
سے پہلے کبھی نہ ہوئی ہو ۔“
یقینا عبدالستار اعوان صاحب کی رائے سے کوئی صاحب ِایمان اختلاف نہیں
کرسکتا،آج بڑھتی ہوئی بے راہ روی،عریانی و فحاشی اور مادر پدر آزاد معاشرے
میں اسلامی تعلیمات و اقتدار کے احیاءکی ضرورت شدت سے محسوس کی جارہی
ہے،”گلشن اسلام“ درحقیقت اُن اسلامی عقائد و اعمال اور احکام پر مشتمل ایک
ایسی کتاب ہے،جس کا مقصد عقائد و اعمال کی اصلاح کرکے نئی نسل کو دنیا
وآخرت میں کامیابی و کامرانی کا راستہ دکھانا ہے،خیال رہے کہ عقیدہ ”عقد“سے
ماخوذ ہے، عقیدہ اُس اعتقاد کو بھی کہا جاتا ہے جو انسان رکھتا ہے، عقیدہ
در حقیقت دل کے عمل یعنی دل کے کسی بات پرایمان رکھنے اور اُس کی تصدیق
کرنے کا نام ہے،جیسے اللہ تعالیٰ پر،اُس کے فرشتوں پر،اُس کی کتابوں پر،اُس
کے رسولوں پر،یومِ آخرت اور اچھی بری تقدیر پر ایمان رکھنا، انہیں ارکانِ
ایمان بھی کہا جاتا ہے، عقیدہ ایک ایسی بنیاد ہے جس پر دین کی عمارت قائم
ہے،ایمان کی مضبوطی اور استحکام کیلئے عقائد کی درستگی جزو لا ینفک ہے،کلمہ
کے اقرار کے بعد اگر عقیدہ کی لغزش واقع ہوجائے تو اللہ کے ہاں اُس کوئی
معافی نہیں،جبکہ عملی کوتاہی پر اللہ جسے چاہے معاف فرمادے،عموماً احکام
شریعت کو دوا قسام میں تقسیم کیا جاتا،ایک عقائد اور دوسرے اعمال ۔
عقائدکا تعلق کیفیت ِعمل سے نہیں ہے،جبکہ اعمال کا تعلق کیفیت ِعمل سے
ہے،مثلاً نماز، روزہ،حج،زکوٰةاورجہاد اور دیگر عملی احکامات پر عمل
کرنا،یہ”فروع“ (شاخیں)بھی کہلاتے ہیں،لہٰذا صحیح عقیدہ ہی وہ بنیاد ہے جس
پر دین قائم ہوتا ہے اور اِس کی درستگی پر ہی اعمال کی صحت کا دارومدار
ہے،اسلام نے ایمان کے بعد عقائد کی درستگی پر بہت زور دیا ہے،علماءکرام نے
اصلاح عقائد پر جو محنت فرمائی ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں،حقیقت بھی یہی
ہے کہ اگر کوئی شخص ساری زندگی اچھے اعمال کرتا رہے،لیکن اُس کے عقائد یا
اُن میں سے کوئی ایک عقیدہ بھی درست نہ ہو تو روزِ قیامت اُس کے سارے اعمال
غارت ہو جائیں گے،اِسی وجہ سے علمائے کرام نے کوشش کی کہ اُمت مسلمہ کو
صحیح عقائد سے روشناس کرایا جائے،زیر نظر کتاب ” گلشن اسلام “ بھی اسی
سلسلہ کی کڑی ہے،جس کو صاحب مولف نے نوجوان طلباءکی ضرورت کو مد نظر رکھ کر
نہایت ہی آسان سادہ اور عام فہم زبان میں ترتیب دیا ہے،کتاب کو تین حصوں
اور چار ابواب میں تقسیم کیا ہے،حصہ اوّل” پنجم اور ششم “حصہ دوم” ہفتم اور
ہشتم“ حصہ سوم ”نہم و دہم جماعت کے طلباءکیلئے ہے،کتاب کے پہلے باب میں
عقائد کو بیان کیا گیاہے، دوسرا باب اُن احکام فقہی کے حوالے سے ہے جن کی
روز مرہ زندگی میں زیادہ ضرورت پیش آتی ہے،تیسرا باب حیات طیبہ کے حوالے سے
اور چوتھے باب میں صحابہ کرام و صلحائے اُمت کے مختصر حالات و فضائل بیان
کیے گئے ہیں ۔
طلباءکی آسانی کیلئے اِس کتاب کو سوالاً جواباً مرتب کرکے دریا کو کوزے میں
بند کردیا گیا ہے،اہم مقامات پر موجود ضروری وضاحت و معلومات کتاب کی
افادیت میں چار چاند لگاتی ہے،ہماری نظر میں یہ کتاب اسکولوں کے طلباءو
طالبات کے ساتھ ساتھ ہر مسلم گھرانے کی لازمی ضرورت ہے،چنانچہ کتاب کی
افادیت کے پیش نظر ہماری وزارت تعلیم سے اپیل ہے کہ اِس اہم اور جامع کتاب
کو پنجم تا دہم جماعت کے طلباءکے نصاب کا حصہ بنایا جائے،ہم تنظیم المدارس
پاکستان کے سربراہ جناب مفتی منیب الرحمن صاحب سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ اس
اہم کتاب کو تنظیم المدارس پاکستان کے زیر انتظام چلنے والے تمام مدارس کے
نصاب میں بھی شامل کیا جائے،قارئین محترم ! ”گلشن اسلام“ایک بہت ہی مفید
اور جامع کتاب ہے،جس کا مطالعہ طلباءو طالبات کے ساتھ ایک عام قاری کیلئے
بھی دینی معلومات میں اضافے کا سبب بن سکتا ہے،64 سال بعد اِس کتاب کی
دوبارہ اشاعت پر ہم جناب عبدالستار اعوان کو مبارکباد پیش کرتے ہیں،کتاب
یونیک کیمسٹ مہر بلڈنگ چوہدری ظفرالحق روڈ،راولپنڈی سے فون نمبر
03005130067 پر رابطہ قائم کرکے حاصل کی جاسکتی ہے ۔ |