زبیدہ مصطفٰی : جرات مند خاتون صحافی

دنیا میں پاکستان کا نام اب جس طرح جانا پہچانا جاتا ہے وہ وجہ شہرت کچھ اتنی اچھی نہیں ہے ایک محاورہ ہے کہ بد اچھا بدنام برا نائن الیون کے بعد پاکستان نے بھی بدنامی ہی بدنامی اپنے دامن میں سمیٹی ہے گو کہ برائی یا بدی کے شرارے کہیں اور سے پھوٹے ، مگر اس تیرگی میں بھی امید اور اچھائی کی شمیں جلتی رہتی ہیں ،مغرب ایک طرف جو پروپگنڈہ کرتا ہے کہ پاکستانی معاشرہخواتین کے لیے پابندی ناامیدی مایوسی کا گڑھ ہے لیکن دوسری طرف وہ اچھے جوہری کی طرح ہماری آدھی دنیا سے ہیرے موتی چن کر انہیں اعزازی سند یا ایوارڈ سے کر پوری دنیا میں پاکستان کے امیج کو بہتر اور روشن بنانے میں بھی مددگار بنتا ہے ( آئی ،ڈبلیو ،ایم ایف ) انٹرنیشنل ویمن میڈیا فاﺅنڈیشن 1990 قائم ہونے والا ایک متحرک عالمی نیٹ ورک ہے جو پوری دنیا کے اخباری میڈیا میں خواتین کے کردار کو مستحکم بنانے کے لیے کام کر رہاہے ۔ تاکہ نہ صرف پریس کی آزادی کو یقینی بنایا جائے بلکہ پرنٹ میڈیا میں کام کرنے والی خواتین کو درپیش مسائل ومشکلات کو حل کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے جراتمندانہ کردار کو بھی سرہایا جائے آئی ڈبلیو ایم ایف میں دنیا بھر کے 130 سے زائد ممالک کے مرد وخواتین شامل ہیں ۔ یہ ادارہ ہر سال صحافت سے تعلق رکھنے والی خواتین کو جرآت مندانہ ایوارڈ کے ساتھ ساتھ لائف ٹائم ایچومنٹ ایوارڈ بھی دیتا ہے پاکستان کی سرزمین علم و ہنر کی صلاحیت ،ہمت وحوصلہ کے حوالے سے زرخیز ہے یہاں اللہ نے مردو عورت دونوں کو بے شمار صلاحیتوں سے نوازہ ہے ۔سیاست کا میدان ہو یا صحافت کا خواتین کی شرکت نے شعبہ ہائے زندگی کے وقار میں اضافہ کیا ہے ۔

اس سال آئی ڈبلیو ایم ایف نے جن ممالک کی صحافی خواتین کو جرات مندانہ صحافتی ایوارڈ سے نوازہ ہے ان میں ایتھوپیا ،فلسطین ، آزربئجان کے ساتھ پاکستان کا نام بھی نمایاں ہے ۔پاکستان سے پاکستانی زرائع ابلاغ کی صف اول کی آواز زبیدہ مصطفٰی کو لائف ٹائم ایچومنٹ ایوارڈ دیا گیا ہے وہ ڈان اخبار کی پہلی خاتون رپورٹر ہیں جنھوں نے نیوز روم میں خواتین کی مساوات کو فروغ دینے میں نمایاں کردار اداکیا ۔ ستر سالہ زبیدہ مصطفی نے تین عشروں تک پاکستان کے سب سے بڑے اور پرانے اخبار میں نہ صرف کام کیا بلکہ یہ کریڈیٹ بھی انہیں جاتا ہے کہ آپ نے خواتین کی ترقی کے لیے انہیں ملازمت دینے کی پالیسی تشکیل دیں ۔آئی ڈبلیو ایم ایف کی شریک چئیر تھیو ڈور یوئروس کا کہنا ہے کہ زبیدہ پاکستان میں خواتین صحافیوں کی رہبر ورہنما ثابت ہوئی ہیں انہوں نے خواتین کو ملازمت پر رکھنے کی پالیسیاں تبدیل کیں انہوں نے ثابت کیا کہ خواتین صحافی سنجیدہ موضوعات بھی کور کرسکتی ہیں جیسے صحت ،نگہداشت ،اور معاشی عدم مساوات زبیدہ مصطفی تحقیق( ریسرچ ) علمی وادبی(اکیڈمک) ماحول کے حوالے سے صحافت کی طرف آئیں وہ انگریزی زبان پر بے مثال عبورو دسترس رکھتی ہیں اللہ نے انہیں غورو فکر و مشاہدہ کی صلاحیت سے نوازہ ہے محترمہ زبیدہ مصطفی نے ذہنی امراض ، اعضاءکی پیوند کاری جیسے موضوعات پر بہت اچھا لکھا ہے اور عام افراد کے شعور کو بیدار کیا ہے ۔

ہمارے معاشرے سے کتاب بینی یا کتاب کلچر ختم ہوتا جارہا ہے زبیدہ مصطفی نے اپنے کالموں کے زریعہ کتاب سے محبت کا جذبہ بیدار کیا انہوں نے اپنے قارئین میں کتابیں پڑھنے کا احساس اجاگر کیا زبیدہ مصطفی اپنے ایک کالم کا آغاز اس طرح کرتی ہیں”ایک زمانے میں عام خیال یہ تھا کہ کراچی کی سڑکیں سونے کی ہیں جوبھی یہاں آتا تھا دولت کماسکتا تھا تھوڑی ہی سہی “

زبیدہ مصطفی کے اس ایک جملے سے آپ کی آنکھوں کے سامنے کراچی کی کہانی گردش کرنے لگتی ہے زبیدہ مصطفی گو کہ صحافت کے نیوز روم سے ریٹائر ہوچکی ہیں لیکن ان کا قلم آج بھی جو ان ہے وہ پیرانہ سالی کے باوجود لکھ رہی ہیں ان سے ملنے کے بعد یہ احساس ہوتا ہے کہ علم صلاحیت ہنر سادگی اور کسر نفسی کو یکجا کردیں تو زبیدہ مصطفی کا چہرہ بنتا ہے وہ اپنے اس ایوارڈ کو اپنی نہیں بلکہ تمام پاکستانیوں کی فتح و کامیابی سمجھتی ہیں ۔

زبیدہ مصطفی کے علاوہ آئی ڈبلیو ایم ایف کے جرات مندانہ ایوارڈ کی مستحق ماضی میں مرحوم صحافی رضیہ بھٹی بھی قرار پائیں تھیں ۔ رضیہ بھٹی کو یہ ایوارڈ 1994ءمیں دیا گیا تھا ۔ اس سال جرات مندانہ صحافتی ایواراڈ جیتنے والوں میں ایتھوپیا کے ایک اخبار فتح کی اسیر کالم نگار 31 سالہ ریوف الیمو 14 سال سے قید ہیں انہیں حکومت پر تنقید کرنے پر غداری کا مرتکب قرار دیا گیا ساتھ ہی ان پر دہشت گردی کی کارروائی کی سازش کرنے اور دہشت گرد تنظیم میں شامل ہونے کا مجرم قرار دیا گیا تھا ۔ ریوف الیمو اخبار فتح کی کالم نگار ہیں ۔ انٹر نیشنل ویمن مئڈیا کی جانب سے دوسرا جرات مندانہ ایوار فلسطین سے 30 سالہ اسماءالغول کو دیا گیا ہے ۔غزہ میں سیاست پر لکھنے والی فلسطینی مصنفہ جنھیں دھمکیوں اور تشددکا نشانہ بنایا گیا ۔ اسماءکو قتل کی دھمکیاں ملتی رہتی ہیں ۔احتجاجی مظاہروں کی کوریج کے دوران ان پر تشدد کیا گیا ۔ 35 سالہ خدیجہ اسما علیودا ریڈیو فری یورپ اور لبرئی کی آزربائیجان سروس پر ٹاک شو کی میزبان ہیں ۔حکومتی بالائی حلقوں میں کرپشن اور اختیارات کے غلط استعمال پر بات کرتی ہیں انہیں خاموش کرنے کے لیے دھمکیاں دی گیئں اور ان کے اپارٹمنٹ میں خفیہ کیمرے بھی نصب کیے گئے ۵۳ سالہ خدیجہ بھی انٹر نیشنل ویمن ایوارڈ کی مستحق قرار پائیں خدیجہ کو کرپشن کا پردہ چاک کرنے پر غلیظ الزامات کی مہم کا ہدف بنایا گیا ۔

یہ وہ جرات مندانہ باہمت صحافی خواتین ہیں جو اپنے ملک میں صحافت کے میدان میںجوانمردی سے اپنی ذمہ داریاں نبھا رہی ہیں ۔ تیسری دنیا کے ممالک جہاں مرد صحافیوں کے لیے قدم قدم پر جان ومال کے خطرات لاحق ہیں وہاں خواتین کا اس شعبے کا رخ ان کی ہمت اور صلاحیت کی عکاسی کرتا ہے ۔ ایوارڈ حاصل کرنے والی مذکورہ خواتین صحافیوں میں اکثریت مسلمان خواتین صحافیوں کی ہے یہ مسلمانوں کے لیے فخر وستائش کا مقام ہے ۔ مگر ہمارا مسلئہ یہ ہے کہ ہم نے صلاحیت ،اہلیت کو بھی سیاست مذہب و مسلک کے خانوں میں تقسیم کردیاہے ہم اپنی ذات ، جماعت اور خود ساختہ نظریات سے آگے نہیں سوچتے زبیدہ مصطفی کو ملنے والا اعزاز ہمارا ہے ۔ہمیں اپنے ملک کی صحافی خواتین پر فخر کرنا چاہیے ان حالات میں جب ہمارا ملک صحافیوں کی قتل گاہ بنتا جاہا ہے صحافی اپنی جان مال عزت و آ برو ہتھیلی پر رکھ کے پیشہ ورانہ ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔
Malka Afroze Rohila
About the Author: Malka Afroze Rohila Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.