ِْالطاف بھائی!مذہبی منافرت کو ہوا نہ دیجیے

کسی قومی رہنماکے بارے میں اس بات کی تحقیق وتفتیش کرنا،کہ وہ کس مذہب ومسلک اورمکتبہ فکرسے تعلق رکھتاہے،ایک سراسرسطحی اورانتہائی نرم سے نرم الفاظ میں بھی تنگ نظری وانتہاپسندی پرمبنی طرزعمل ہے۔عالم اسلام ہی نہیں آپ دنیابھرکی تاریخ اٹھاکردیکھ لیجیے!کوئی بھی قوم اپنے رہنماؤں، ہیروز اور قائدین کواس کسوٹی پرنہیں پرکھتی،کیوں کہ اس کی چنداں ضرورت ہی نہیں ہوتی،یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں بھی اب تک یہ سوچ پروان نہ چڑھ سکی تھی،مگراس کاکیاکیجیے،کہ ایک ایسی ہستی نے یہ مہلک بحث چھیڑدی جن کی شان میں یہ مصرع زنان زدعام وخاص ہے''مستندہے ان کافرمایاہوا''…کیوں…ہم فی الحال اس بحث میں اپنے قارئین کونہیں الجھاناچاہتے۔ویسے بھی''عیاں راچہ بیاں!!''

موصوف نے لندن سے یہ فتویٰ صادرفرمایاہے کہ بانی ٔ پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح شیعہ اثناعشری مکتبہ فکرسے تعلق رکھتے تھے،لہٰذاان کے مکتبہ فکرسے تعلق رکھنے والے کسی شخص کاقتل قائداعظم کے قتل کے مترادف ہے۔انہوں نے اپنے دعوے پربڑے ''ٹھوس''دلائل بھی پیش فرمائے ہیں اورچیلنج بھی کیاہے کہ ان کے دلائل کوکوئی نہیں جھٹلاسکتا۔آپ بھی ملاحظہ فرمایئے:متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے کہا ہے کہ تمام تاریخ داں اس بات کونوٹ کرلیں کہ تاریخی حقائق سے ثابت ہے کہ بانی پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح پہلے اسماعیلی فرقہ سے تعلق رکھتے تھے لیکن 1898 میں انہوں نے ممبئی کے مجسٹریٹ کی عدالت میں ایک حلف نامہ جمع کرایا تھاجس میں انہوں نے کہا تھاکہ وہ اوران کے خاندان کامسلک ہمیشہ سے اسماعیلی تھالیکن آج وہ فیصلہ کررہے ہیں کہ وہ اوران کی بہن فاطمہ آج سے اسماعیلی مسلک چھوڑ کر اثنائے عشری مسلک اختیارکررہے ہیں۔یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ قائداعظم خوجہ جماعت کے رکن تھے ،اس کوباقاعدہ چندہ دیتے تھے، جب 1948 میں قائداعظم کاانتقال ہوا توانکی میت کوحاجی کلو نے غسل دیاجوخودبھی خوجہ شیعہ اثنائے عشری تھے اورخوجہ جماعت کی جانب سے میت کے غسل کیلئے خصوصی طور پر مقررتھے۔قائداعظم کی دو بارنماز جنازہ پڑھائی گئی تھی،پہلی نماز جنازہ ان کے گھرپر شیعہ رہنما انیس الحسنین نے شیعہ عقیدے کے مطابق پڑھائی جبکہ دوسری نمازجنازہ علامہ شبیراحمدعثمانی نے پڑھائی۔بانی پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح کے بارے میں جوتاریخی حقائق بیان کیے میں ان پر قائم ہوں اور میں چیلنج کرتاہوں کہ کوئی بھی ان حقائق کوغلط ثابت نہیں کرسکتا۔

ہم ان فرمودات پرکوئی تبصرہ نہیں کرناچاہتے،کیوں کہ''جواب آں غزل ''کاسلسلہ جاری ہے،جانبین سے بلکہ چاروں جانب سے دلائل وبراہین کاایک نہ تھمنے والاسلسلہ چل نکلاہے، دیکھیے!آگے بات کہاں تک پہنچتی ہے اورقائداعظم اپنے انتقال کے 64سال بعدکس مکتبہ فکرکے کھاتے میں ڈالے جاتے ہیں؟

ملک کے سنجیدہ طبقات میں یہ سوال بڑے شدومدسے اٹھایاجارہاہے کہ آخرانہی دنوں موصوف کویہ فتویٰ دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟کیا وہ گلگت بلتستان میں شیعہ سنی منافرت کی آگ کومزیدہوادیناچاہتے ہیں؟اگرہاں،توآخرکیوں؟ایک قومی رہنماکو،جس کی جماعت کواسٹریٹ پاورکے حوالے سے ملک کی تیسری بڑی جماعت ہونے کااعزازحاصل ہے،اوربقول آں موصوف: ایم کیوایم کے کارکنوں اورہمدردوں کی اکثریت سنیوں پرمشتمل ہے،یہ عمل زیب دیتاہے کہ وہ ایک مکتبہ فکرکی اندھی حمایت کرکے اس کے حوصلے بڑھائیں،کیااس کاانجام شیعہ سنی خوں ریزی کی صورت میں نہیں نکلے گا؟کیاآں موصوف کواس بات کاادراک ہے کہ حالات کس رخ پر جارہے ہیں؟ اور اس قسم کے بیانات کے کیا ثمرات و نتائج نکلیں گے؟کیا اس سے مسلک ومذہب کی بنیادپرقتل و غارت اور کشت و خون کا بازار گرم نہیں ہوگا؟ جب کہ ان کادعویٰ ہے:'' میں کسی مذہب، فقہ، مسلک یا عقیدے کے خلاف نہیں''۔وہ یہ بھی فرماتے ہیں:''کسی مذہب، فقہ ،مسلک یاعقیدے سے تعلق ہونے کی بنیاد پر کسی انسان کوقتل کرناسراسرظلم ہے اور میں اس ظلم کے خلاف ہوں۔ایک انسان کاقتل پوری انسانیت کاقتل ہے اورمیں انسانیت کے قتل کے خلاف ہوں''۔

سوال کرنے والے یہ سوال بھی اٹھارہے ہیں کہ اگران کامقصدمحض اظہارہم دردی تھاتوانہیں یہ کہنے کی آخرکیوں توفیق نہ ہوئی کہ:ڈرون حملوں میں سنی مسلمان قتل ہورہے ہیں،چوں کہ علامہ اقبال سنی تھے،لہٰذاایک سنی کاقتل علامہ اقبال کے قتل کے مترادف ہے؟۔ کیا ان پاکستانیوں کی جان و مال کی کوئی قیمت نہیں؟

مبصرین کی رائے میں ان کا یہ بیان ملک کی سیاسی قیادتوں سے ملاقاتوں کی طرح ایک انتخابی حربہ ہے۔ اس بیان کے ذریعے یقینا قائد ایم کیو ایم شیعہ مکتبہ فکر کی ہمدردیاں حاصل کرنے میں کامیاب ہوں گے، جس کے سبب ان کی جماعت کو کراچی کے علاوہ ملک کے دیگر شیعہ اکثریتی علاقوں مثلا گلگت، بلتستان، پارا چنار اور کوئٹہ میں عوامی پذیرائی حاصل ہونے کی توقع ہے اوریہ بھی امکان ہے کہ اس پذیرائی کے سبب ان کی جماعت ان علاقوں میں کچھ اضافی نشستیں جیتنے میں بھی کامیاب ہو جائے۔رمشاء والے معاملے میں موصوف کے بیانات کوبھی اسی آئینے سے دیکھاجارہاہے…لیکن کیاووٹ کے حصول کی خاطرمذہبی منافرت کوہوادینااورملک کوایک نئی جنگ میں جھونکنے کی بناڈالنادرست ہے؟نہیں اوریقیناًنہیں۔اس تناظرمیں ہم آں موصوف کی خدمت میں مؤدبانہ عرض کریں گے کہ جناب!ہم دردیاں حاصل کرنے اورووٹ لینے کے لیے کوئی اورطریقہ اختیارکرلیجیے۔قوم سے اپنے ووٹ بنک کی مضبوطی کی اتنی بڑی قیمت طلب نہ کیجیے،یہ قوم پہلے ہی زخم پرزخم کھارہی ہے۔ملک کوکسی نئی جنگ میں نہ دھکیلیے!!
M Jehan Yaqoob
About the Author: M Jehan Yaqoob Read More Articles by M Jehan Yaqoob: 251 Articles with 307857 views Researrch scholar
Author Of Logic Books
Column Writer Of Daily,Weekly News Papers and Karachiupdates,Pakistanupdates Etc
.. View More