گیارہ اگست کو ممبئی میں وقوع
پذیر ہونے والے سانحہ کی گرد اب بیٹھنے لگی ہے لیکن اس کی طہ سے اٹھنے والے
سیاسی مرغولے ہنوز فضا میں تیر رہے ہیں ۔پولس کمشنراروپ پٹنائک کے کھل نائک
بن جانے کے بعد اب نگاہیں وزیر داخلہ کی جانب مرکوز ہو گئی ہیں۔ قیاس کیا
جارہا ہےکہ آر آر پاٹل پھر ایک بار آر پار کی جنگ میں مصروف ہیں اور ان
کی نیا ّ کا پار لگنا مشکل نظر آرہا ہے ۔یہ سانحہ گو کہ مقامی نوعیت کا ہے
لیکن قومی و ملی سطح پر اس میں عبرت کا بہت سامان ہے اس لئے اس کا جائزہ
لیا جانا اہم ہے ۔گیارہ اگست کا مظاہرہ برما اور آسام کے مسلمانوں پر ہونے
والے مظالم کے خلاف اپنے غم و غصہ کا اظہار کرنے کیلئے اور اپنے مظلوم
بھائیوں سے ہمدردی و یکجہتی ظاہر کرنے کیلئے تھا ۔ اس مقدس فرض منصبی کو
ادا کرنے کا بنیادی حق ہر انسان کو حاصل ہے۔ ہندوستان کا دستور اسےتسلیم
کرتا ہے ۔ اس حق کا استعمال ماضی میں مختلف طبقات بشمول مسلمان کرتے رہے
ہیں لیکن اس بار کے احتجاج کےساتھ کچھ ایسے واقعات جڑ گئے جو پہلے کبھی بھی
رونما نہیں ہوئے تھے ۔
عام طور پر قومی و عالمی مسائل پرمسلمان متحدہو کر مشترکہ مظاہرہ کرتے ہیں
لیکن اب کی بار ایسا نہیں ہوا ۔ بریلوی مکتب فکر کی تنظیموں نے اس کا
اہتمام ہفتہ کے دن اور دیگر تنظیموں نے اسی مسئلہ پر ایک احتجاج کا اعلان
پیر کے دن کر دیا ۔ غالباً یہ رابطہ کی کمی کے باعث ہوا ورنہ یہ ہوسکتا تھا
کہ اس بار بھی اشتراک عمل ہو جاتا لیکن اس بار ایک مثبت کام یہ ہوا کہ دودن
بعد ہونے والے احتجاج کو منسوخ کر دیا گیا اور ایسا نہیں ہے کہ اس کی خبر
سانحہ کے بعد آئی اس لئے کہ اگر ایسا ہوتا تو بہت ہی غلط سگنل جاتا اور
لوگ یہ سوچتے کہ مسلمان خوفزدہ ہو گئے ہیں ۔ احتجاج کی منسوخی کا اعلان
ہفتہ ہی کے دن اخبارات میں شائع ہوا ۔یہ بلاواسطہ اشارہ تھا کہ جو لوگ
احتجاج مںک شریک ہونا چاہتے ہیں وہ پیر کے بجائے سنیچر کے مظاہرے میں شامل
ہو جائیں ۔ویسے اس کا باقائدہ اعلان ملت کے اندر اشتراک و اتحاد کی جانب
بہتر پیش رفت ہو سکتا تھا ۔
ممبئی کی بیدار امت کی جانب سے ملکی اور اور عالمی مسائل پر احتجاج کوئی
نئی بات نہیں ہے ۔ مسجد اقصیٰ ہو یا بابری مسجد ، تحفظ شریعت ہو یا اہانت
رسول کے بعد بش کی آمدمسلمانانِ ممبئی جب اپنے جذبات کا اظہار کرنے کی
خاطر سڑکوں پر آتے ہیں تو ساری دنیا حیرت سے دیکھتی رہ جاتی ہے ۔ لاکھوں
کی تعداد میں فرزندانِ توحید اپنے غم وغصہ کا نہایت پر وقار انداز میں
اظہار کرتے ہیں اور خاموشی کے ساتھ اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں ۔جلوس نکال
کر ہنگامہ آرائی اور توڑ پھوڑ کرنا یہ امت کا نہیں بلکہ دیگر غیرمسلم
تنظیموں کا شعار رہا ہے ۔ جب شیوسینا یا نونرمان سینا کے جلوس کا اعلان
ہوتا ہے تو عوام سراسیمہ ہوجاتے ہیں اور پولس کا بندوبست بڑھا دیا جاتا ہے
اس لئے کہ ہنگامہ ہو نہ ہو تشدد کا قوی امکان بہرحال موجود رہتا ہے لیکن اس
بار برعکس صورتحال رونما ہو گئی مسلمانوں کا احتجاج تشدد کی نذر ہوگیا اور
راج ٹھاکرے نے بلا اجازت مگر پر امن کے ذریعہ پولس کمشنر ایس آرپٹناک کو
بلی کا بکرہ بنا کر اپنے سیاسی قد میں اضافہ کرلیا ۔اس اقدام سے بظاہر
کانگریس کی سبکی ہوئی لیکن بباطن سیاسی فائدہ ہی ہوا اس لئے کہ راج ٹھاکرے
کے ووٹ بنک میں ہر اضافہ شیوسینا کی جھولی سے نکل کر آتا ہے ۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ فی الحال مہاراشٹر کی سیاسی بساط پر راج ٹھاکرے
کانگریس کا اسی طرح آلۂ کار جیسا کہ کسی زمانے میں شیوسینا ہوا کرتی تھی
اور اپنی تمام تر مخالفت کے باوجود وہ کانگریس کا اسی طرح بھلا کرتا ہے
جیسی کہ سماجوادی پارٹی شیوسینا کی کرتی ہے۔ایسا کوئی جان بوجھ کر نہیں
کرتا لیکن موجودہ نظام کی سیاسی مجبوری اپنے آپ یہ سب کروا دیتی ہے ۔ایک
خبر تو یہ بھی ہے کہ وزیرِ داخلہ آر آر پاٹل خود پٹناک سے ناراض تھے اور
ان سے پیچھا چھڑانا چاہتے تھے اس لئے کہ پٹنائک نے کئی معاملات میں ان کے
احکامات پر سرِ تسلیم خم کرنے کے بجائے اپنی ذاتی رائے کو ترجیح دی تھی ۔ان
کے تبادلہ کا عمل ماہِ مئی سے شروع ہوگیا تھا۔گیارہ اگست کا سانحہ محض ایک
بہانہ بن گیا ۔ وزیر اعلیٰ چوہان کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے
بلاوجہ فیصلہ کرنے میں تاخیر کی اور وہ پٹنائک کیلئے مناسب عہدے کی تلاش
میں غلطاں رہے۔ وہ راج ٹھاکرے کو ہونے والے سیاسی فائدے کو لے کر بھی ناراض
تھے حالانکہ یہ سب قیاس بے بنیاد معلوم ہوتے ہیں ۔ یہ کون نہیں جانتا کہ
راج ٹھاکرے کا فائدہ بلاواسطہ کانگریس کے اپنے سیاسی مفاد میں ہے ورنہ بلا
اجازت ریلی کا اہتمام نا ممکن تھا ۔ شیوسینااگر یہ کوشش کرتی تو اسے بزورِ
قوت روک دیا جاتا ۔ کانگریس نے راج ٹھاکرے کو جلوس نکال کر مطالبہ کرنے کا
موقع دیا اور اسے فوراً تسلیم کرکے راج ٹھاکرے کو شیوسینا کی حامی پولس
فورس اور دیگر ہندو انتہا پسند رائے دہندگان میں اپنی مقبولت بڑھانے کی
نادر سعادت سے نواز دیا ۔اس طرح گویا پٹنایک کو کھل نایک بنا کر راج ٹھاکرے
کو مہا نایک بنا دیا گیا ۔جس احتجاج کو بی جے پی نے شروع کیا تھا وہ اس کے
کامیاب اختتام کے باوجودحاشیہ پر پہنچ گئی ادھو ٹھاکرے کو محض حمایت پر
اکتفا کرنا پڑا۔
سیاست سے قطع نظر اگر ملی نقطۂ نظر سے غور کیا جائے تو اس احتجاج میں
چندعناصر کی شر پسندی نے مسلمانوں کو بہت نقصان پہنچایا۔ وہ شر پسند کون
تھے ؟ کہاں سے آئے تھے؟ اور کس کے آلۂ کار تھے ؟ اس بارے میں حتمی طور
پر کچھ کہا نہیں جاسکتا لیکن اس میں شک نہیں کے وہ جو بھی تھےاپنی نادانی
اور حماقت کے سبب اسلام کی بیخ کنی کررہے تھے۔ برما کے مسلمان عرصۂ دراز
سے مظالم کا شکار ہیں ۔اپنے مظلوم بھائیوں کے ساتھ ہمدردی و یکجہتی کا
اظہار ہماری ذمہ داری ہے ۔ اسی کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ عالمی ذرائع
ابلاغ نے اس سے صرفِ نظر کیا ہے ۔اسی وجہ سے غالباً جب اس حوالے سے ای میل
مہم کا آغاز ہوا تو اس میں نہ صرف مبالغہ بلکہ کذب بیانی کا بھی سہارہ لیا
گیا ۔ ایسا شاید سوئے ہوئے انسانی ضمیر کو بیدار کرنے کیلئے کیا گیا تھا
لیکن ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ دین اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا
۔بلکہ بلاتحقیق کسی خبر کو پھیلانے کی بھی ممانعت کرتا ہے ۔ ای میل کے
ذریعہ موصول ہونے والی ہر پسندیدہ بات پر ایمان لے آنا اور بلا تحقیق اسے
پھیلانے کا رحجان دنیا و آخرت دونوں جگہ رسوائی کا سبب بن سکتا ہے ۔اس کے
ذریعہ سے پیدا ہونے والا ہیجان اور مایوسی یہ دونوں امت کیلئے سمِ قاتل ہیں
۔اس لئے احتیاط لازمی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جھوٹ کی بنیاد پر
کھڑی ہونے والی عمارت کو ڈھیر ہوتے دیر نہیں لگتی اورجب ایسا ہوتا ہے تو اس
کے نیچے نہ صرف اس کا معمار بلکہ اس میں شامل سچ بھی دب کر مرجاتا ہے ۔سب
سے بڑا نقصان تو یہ ہے کہ اگر کسی فرد یا گروہ کا اعتمادمجروح ہو جائے تو
پھر اس کا دوبارہ بحال ہونا اگر ناممکن نہیں تو کم ازکم مشکل ضرورہوتا ہے ۔
برما کی اس ای میل مہم میں وہاں کی حکومت سے زیادہ غصہ ذرائع ابلاغ کے خلاف
تھا ۔ ذرائع ابلاغ کے بارے میں ہمیں حقیقت پسند ہونا چاہئے ۔ اس میں شک
نہیں کہ گوں نا گوں وجوہات کی بنیاد پر عالمی ذرائع ابلاغ ہمارے خلاف ہے ۔
اس کی وجہ یہ ہے وہ جن لوگوں کی ملکیت ہے وہ اپنے مفادات یا لاعلمی کے باعث
اسلام اور مسلمانوں سے نفرت کرتے ہیں ۔ ایسے میں ہمارے خلاف ذرائع ابلاغ
میں بہت ساری غلط سلط باتیں آتی رہتی ہیں اور ان کی تر دید کرنے کا ہمیں
پورا حق حاصل ہے ۔ اس سلسلہ میں ہمیں چوکنا رہنا چاہئے اور اس حکمت کے ساتھ
ان کا جواب دینا چاہئے کہ ہماری بات قابلِ اشاعت بھی ہونیزدودھ کا دودھ اور
پانی کا پانی بھی ہو جائے لیکن اس کے باوجود ہمارا موقف سامنے آہی جائے یہ
ضروری نہیں ہے اس لئے کہ ہم کسی کو اسے شائع کرنے کیلئے مجبور نہیں کر سکتے
ایسے میں پریس کونسل یا عدالت سے رجوع کرکے ان پر کارروائی ممکن ہے اس کے
خلاف پر امن احتجاج بھی کیا جاسکتا ہے ۔ احتجاج کے پر امن ہونے کے نتیجہ
میں یہ ممکن ہے کہ آپ جس کی مخالفت کررہے ہیں اس کا حریف اخبار یا چینل
اپنے تجارتی مفاد کیلئے آپ کا ہمنوا بن جائے لیکن تشدد کی صورت میں سارے
لوگ متحد ہوکر مخالفت پر اتر آئیں گے نیز مظلوم کو ظالم بنانے کا نادر
موقع خودہمارے توسط سے انہیں مل جائیگا۔
کسی فرد یا گروہ کا خوف ذرائع ابلاغ کو اس کے خلاف غلط بات کہنے سے روک
سکتا ہے مگر ایک خوف پر دوسرا خوف غالب بھی آسکتا ہے مثلاً مالی نقصان پر
قید وبند کی ابتلا یا موت کا خوف ۔ اس لحاظ سے بے اقتدارامت حکومت ِ وقت سے
زیادہ موثر نہیں ہو سکتی ۔برما کے معاملے میں ہمیں یہ شکایت نہیں تھی کہ وہ
کوئی غلط بات کہہ رہا ہے بلکہ ہم اس لئے پریشان تھے کہ صحیح بات کیوں نہیں
کہہ رہا۔ اگر کسی معاملے میں ذرائع ابلاغ جان بوجھ کریہ رویہ اختیار کرتا
ہے توہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ غیر جانبداری کا اس کا دعویٰ محض ایک فریب کے
سوا کچھ نہیں۔ لیکن اس کے باوجود کسی کو حق بات کہنے پر مجبور کرنا نہ
ہمارے لئے ممکن ہے اور نہ ہم اس کے مکلف ہیں ۔اس کیلئے ضروری یہ ہے کہ
ہمارااپنا میڈیا ہو اور ہمارے ذرائع ابلاغ وعظ و تلقین کے ساتھ ساتھ حق
گوئی کی ذمہ داری کو بھی ادا کریں ۔اس میں شک نہیں کہ یہ راہ مناظروں سے
زیادہ پر خطر ہے لیکن امت کی بہت بڑی ضرورت ہے اور اس بارے میں بھی ہم اللہ
کے آگے جوابدہ ہیں ۔
یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ برما کے تعلق سے آنے والے سارے میل ،تصاویر
اور فلمی کلپ مل کر بھی عام مسلمانوں کو اس قدر ہیجان کا شکار کردیں کہ وہ
روزے کی حالت میں ٹی وی والوں کی گاڑیوں کو آگ لگانے لگیں ۔ اگر پولس اس
سے روکنے کی کوشش کرے تو اس سے بھڑ جائیں اور پولس گاڑیوں کو نذرِ آتش
کرنے لگیں نیز امر جوان جیوتی کی توڑ پھوڑ میں لگ جائیں ۔ یہ سب ناممکن
لگتا ہے ۔ایسا تو کوئی تربیت یافتہ شر پسند گروہ ہی کر سکتا ہے جو تیاری کے
ساتھ وہاں آیا ہووہی لوگ پولس والوں سے بندوق چھیننے کی جرأت کرسکتے ہیں
اور خواتین پولس اہلکاروں سے بدسلوکی کا مرتکب ہو سکتے ہیں ۔ اس طرح کی
حرکت مسلم عوام عام حالات میں بھی نہیں کرسکتے کجا یہ کہ وہ روزے کی حالت
میں ہوں ۔ اس بات کی شہادت جلسہ گاہ میں موجود لوگوں نے دی ہے کہ جلسہ گاہ
کے اندر نہ ہی کوئی ہنگامہ ہوا اور نہ کوئی اشتعال دلایا گیا جبکہ سابق اور
موجودہ پولس اہلکار اسٹیج پر بھی موجود تھے ۔ یہ بات بھی سامنے آئی کہ جب
ہنگامہ آرائی کا آغاز ہوا تو اسٹیج سے اسے روکنے کو کوشش کی گئی ۔یہ کہنا
چونکہ منتظمین اسے روکنے میں ناکام رہے اس لئےوہ تشدد کیلئے ذمہ دار ہیں
نہایت نامعقول اور بودی دلیل ہے ۔شر پسندوں کو روکنا پولس کی ذمہ داری تھی
اور پولس کمشنر پٹنائک کی دلیری اور تحمل قابل ستائش ہے کہ ایک گھنٹہ کے
اندر اسے قابو میں کر لیا گیا۔اس کے باوجود مالی نقصان،زخمیوں کی بڑی تعداد
اوردو معصوم نوجوانوں کا جان بحق ہونا قابلِ مذمت ہے ۔
اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہےکہ گیارہ اگست کے سانحہ پر ہونے
والے تشدد کی مذمت میں منتظمین سمیت ساری امت ایک زبان تھی نیز یہ بھی اہم
ہے کہ نہ اس کی کوئی توجیہ کی گئی اور نہ اس کا کوئی جواز پیش کیا گیا جیسا
کہ ہندو تنظیموں کی جانب سے ہوتا رہا ہے ۔ دہلی میں سکھوں کے قتل عام کے
بعد راجیو گاندھی کا یادگار جملہ کون بھول سکتا ہے کہ جب کوئی بڑا پیڑ گرتا
ہے تو زمین ہلتی ہے ۔ یہ دراصل اس قتل عام کو جائز قرار دینے کی ایک کوشش
تھی ۔ اڈوانی نے بابری کی شہادت کے دو دن بعد اخبار میں مضمون لکھ کر بابری
مسجد کی شہادت پر افسوس کا اظہار کیا مگر اسے عوام کا جائز غصہ قرار دے کر
اس کی توجیہ بھی کی ۔ مگر مچھ کے یہ آنسو بھی بال ٹھاکرے برداشت نہ کر سکے
اس لئے انہوں نے افسوس کے اظہار پر افسوس کا اظہار کیا اور اس ظلم عظیم کو
حق بجانب ٹھہرایا ۔ نریندرمودی سے لے کر اس کےمداح راج ٹھاکرے تک نے ہمیشہ
اپنے کارکنان کے ذریعہ معصوم لوگوں پر کئے جانے والے تشدد پر پشیمانی کے
بجائے فخر کا جتایا اس کے برعکس مسلم رہنماؤں نے کمال حکمت و دانائی کے
ساتھ تشدد کی پر زور مذمت کی اور انتظامیہ کی جانب سے معصوم لوگوں کی پکڑ
دھکڑ کے باوجود موقع کی نزاکت کا لحاظ کرتے ہوئے عوام کو صبروتحمل کی تلقین
کر کے ان کے غیض و غضب کو کم کیا ورنہ دشمن پھر ایک بار کامیاب ہو جاتے ۔
انسانوں سے بڑا ہمارا دشمن شیطان ہے جو دلوں میں نفرت و عناد کے بیج بوتا
ہے اوردماغ کے اندر سازشوں کے جال بنتا ہے ۔ یہ ماہِ رمضان کی فیوض و برکات
تھیں کہ اللہ نے اہل ایمان کوشیطان کے فتنہ سے محفوظ رکھا ورنہ یہ بہت
آسان تھا کہ امت کا ایک طبقہ اسے ناعاقبت اندیشی اور عجلت پسندی قرار دے
کر دوسرے کواس کیلئے موردِ الزام ٹھہراتا اور دوسرا طبقہ اس کے جواب میں
پہلے پر ہنگامہ آرائی کی تہمت جڑ دیتا اگر خدا نخواستہ یہ ہو جاتا تو اس
سے بڑا کوئی اور نقصان نہیں ہو سکتا تھا ۔امت ایک دوسرے کے تعاون و اشتراک
سے اپنے دشمنوں کو تو شکستِ فاش دے سکتی ہے لیکن اگر آپس میں دست و گریباں
ہو جائے تو اسے ذلیل و رسوا کرنے کیلئے کسی دشمن کی چنداں ضرورت باقی نہیں
رہتی اور اس کی فتح و کامرانی کے سارے امکانات ازخودمفقود ہو جاتے ہیں ۔امت
کے رہنماؤں نے اس موقع پر جس بالغ نظری اور وسعتِ قلب کا مظاہرہ کیا ہے وہ
ایک روشن مستقبل کی دلیل ہے ۔الحمداللہ اس اتحاد کا مظاہرہ ابھی پچھلے دنوں
مکہ کانفرنس میں بھی ہوا جہاں ملک عبداللہ اور صدر احمدی نژاد ایک دوسرے کے
شانہ بشانہ نظر آئے ۔
گیارہ اگست سانحہ کے بعد گوکہ پولس کمشنر پٹنائک کو ترقی دےکر ہٹایا گیا اس
کے باوجود شہر کی نہ صرف مسلم بلکہ غیر مسلم مقتدر ہستیوں نے سابق کمشنرکے
تبادلہ پر تنقید کی ۔سابق کمشنر جولیوریبیروجو فسادات کے زمانے میں ممبئی
پولس کے سربراہ رہے ہیں نے صاف طور پر کہا کہ اگر پٹنائک پولس کو قابو میں
نہیں رکھتے تو ممبئی شہر پھر ایک بار خاک اور خون میں لت پت ہو جاتا ۔
ریبیرو نے انتظامیہ کے نقطۂ نظر سے کئی اہم سوال اٹھائے مثلاً گولی چلانے
سے قبل لاٹھی یا آنسو گیس کا استعمال نہ کرنا ۔ اسلحہ بردار عملہ کا لاٹھی
والوں کے عقب میں ہونا اس لئے کہ اگر ایسا ہوتا تو رائفل کے چھننے کا واقعہ
ممکن نہیں تھا ۔ خواتین پولس کی نگرانی پرمرد افسران کا تعینات نہ ہونا اس
صورت میں بھی بدسلوکی ناممکن تھی وغیرہ۔ انہوں اس طرح کی کئی کوتاہیوں کی
جانب توجہ مبذول کروائی تاکہ اصلاح ممکن ہو سکے۔ جیوتی پنوانی نے اپنے ایک
مضمون میں پٹنائک کو سراہتے ہوئے کہا ممبئی پولس برسوں سے جاری افطار
پارٹیوں اور عید ملن کے پروگراموں سے مسلمانوں کاوہ اعتماد حاصل نہیں کر
سکی جو پٹنائک نے ایک گھنٹہ کی اپنی کو شش سے حاصل کرلیا ۔ ملت ہی کی طرح
جیوتی کو بھی پٹنائک کے چلے جانے کا افسوس ہے لیکن اسی کے ساتھ مسلمانان
ممبئی نئے پولس کمشنر ستیہ پال سنگھ سے توقع رکھتے ہیں کہ اس سانحہ کی وہ
گرفتار شدہ معصوم نوجوانوں کی رہائی کو آسان بنا کر شہر کی سب سے بڑی
اقلیت کی امیدوں پر پورا اتریں گے اور اعتماد و خیر سگالی کی جومثبت فضا
قائم ہوئی ہے اسے پروان چڑھائیں گے ۔ |