شمالی وزیرستان آپریشن اورڈرون حملوں کے ممکنہ بھیانک نتائج

”تم ملک دشمن عناصر اورافراد کی کاروائیوں کا حصہ کیوں بنتے ہو؟کیا تم پاکستانی نہیں ؟ملک سے محبت اورعقیدت کے جذبات تمہارے دلوں میںنہیں بڑھکتے ؟تم کیوں اس ملک کے پیچھے ہاتھ دھوکر لگے ہوئے ہو؟کیوں وطن عزیز کی عزت و آبرو کا کھلواڑہ کر کے جگ ہنسائی کررہے ہو؟لاکھوں افراد کے خون سے سیراب ہونے والے اس چمن کو کیوں اجاڑ رہے ہو؟کیوں اپنی آزادی کو اپنے ہی ہاتھوں سے غلامی کا طوق پہنارہے ہو ؟تمہارے جیسے نوجوانوں کی وجہ سے آج پاکستان کی ہر جگہ ذلیل مٹی ہورہی ہے“۔ 35سالہ پولیس آفیسر محمد اسلم کا غصہ بڑہتا جارہا تھا ،پیشانی سے پسینہ پانی کی طرح ٹپک رہاتھا،چہرہ اور آنکھیں خون کی طرح سرخ ہورہی تھیں۔اٹھارہ سالہ گل بہادرخاموش تماشائی بنا تھر تھر کانپ رہاتھا اور اس کے معصوم چہرے پر موتیوں کی طرح موٹے موٹے آنسو روانی سے جاری تھے۔ محمد اسلم کی چلاتی آوازاور گل بہادرکی دل سوز چیخیںسن کر میر ے رونگٹے کھڑے ہوگئے ۔میں ہانپتا ہانپتا کمرے کی طرف دوڑااور اند رجاکر گل بہادر کوسینے سے لگالیا ،میرے دل سے چمٹ کر اس کی ہچکیاں بندہونے لگیں، میرے شفقت بھرے ہاتھوں کو اپنے سر پر رکھا دیکھ کر اس کی جان میں جان آگئی ۔محمد اسلم یہ منظر دیکھ کر اور بڑھک اٹھا ”تم جیسے لوگوں کی ہمدردیوں نے آج اِن جیسے لوگوں کو ملک کا دشمن بنادیاہے ،ملک کا امن وامان سبوتاز کرنے کے ذمہ دار ان کے ساتھ ساتھ تم بھی ہو،تمہارے آشیر بادہی سے یہ لوگ مساجد اور بازاروں میں معصوم لوگوں کو بم حملوں کا نشانہ بناتے ہیں ۔تم اگر ان دہشت گردوں کی سرپرستی اوراعانت کرناچھوڑ دو تو ملک میں خوشحالی اور امن وامان کی ہوائیں چلنے لگ جائیں ،پاکستان ترقی یافتہ اقوام کے ساتھ کندھا ملا کر کھڑا ہوجائے ،تمام مسائل ایسے حل ہوںکہ تاقیامت پاکستان کبھی تنگی اوربد حالی کا شکارنہ ہو“۔پولیس آفیسر روانی کے ساتھ غیروں کے زبانی اپنے منہ سے ”پھول “برسارہاتھاجومیر ے زخموں پر مرہم کی بجائے نمک بن کر گررہے تھے جن کی مہک سے میں زمین میں دھنساجارہاتھا۔

میں نے ہواس پر قابورکھتے ہوئے کہا سر! آخر اس معصوم اوربے گناہ کا قصورکیا ہے جو آپ اس پر اس قدر آگ بگولا ہیں ۔بے گناہ اور معصوم ۔۔۔۔؟کوٹ کوٹ کر بھری ہے ہمدردی تمہارے اندر۔۔۔پولیس آفیسر چلایا ۔میں نے معذرت طلب کی اوراس سارے ماجرے کا پس منظرجاننے کی کوشش کی ۔پولیس آفیسر کا غصہ کچھ ٹھنڈا ہوا اور وہ لمبی سانس لے کر سامنے رکھی ہوئی کرسی پر بیٹھ گیااور مجھے بھی بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔گل بہادر سامنے کھڑا غصیلی نظروںسے محمد اسلم کو تاڑنے لگا۔میں نے اسے بلاکراپنے قریب بٹھالیا۔پولیس آفیسر گویا ہوا ۔”محترم !یہ نوجوان پولیس چوکی پر خود کش حملہ کرنے جارہا تھا بس اپنی مذموم مہم جوئی کو پوراکرنے کے قریب ہی تھا کہ ہمارے بہادر نوجوانوں نے اسے روکنے کی کوشش کی ،نہ رکنے پر گولی چلانے کی دھمکی بھی دی ،لیکن یہ اس کی کم عقلی سمجھیں یا اس کی کمانڈکرنے والے ملک دشمن افرادکی بیوقوفی یا پھر ہمارے نوجوانوں کادبدبہ اوررعب کااثر تھاکہ اس نے اپنے ہاتھ کھڑے کر لیے اور خود کو ہمارے حوالے کردیاورنہ آج تک اس جیسے ملک دشمن دہشت گر د اس طرح کے موقعوں پرخود کو اڑانے میں ہی عافیت جانتے ہیں اور جانتے رہے ہیں ۔ ملکی تاریخ کا یہ پہلا موقع ہے کہ کسی دہشت گر د نے اپنے آپ کوخود بخوداتنی آسانی سے قانون کے حوالے کیاہو“۔

میں نے پولیس آفیسر کی نرم خوئی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یک دم گل بہادر سے اتنی بڑی ملک دشمن مذموم کاروائی کی جرات کی وجہ دریافت کرنے کی اجازت طلب کی ۔پولیس آفیسر نے اس مرتبہ بھی سخاوت کا مظاہرہ کیا۔”کیوں گل بہادر آخر کیاضر ورت تھی تمہیں کہ تم اتنی بڑی حرکت کرنے پر آمادہ ہوگئے؟“صاحب !آپ کو تو معلوم ہے کہ ہم جنوبی وزیرستان کے باسی ہیں ،ملک کے ساتھ ہماری ہمدردیاں اور ملک کی خاطر ہمارے آباﺅ اجداد کی لازوال قربانیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔سرکیایہ حقیقت نہیں ہے کہ ہم ملک کی سرحدوں کے محافظ اورنگہبان تھے ،آزادی ہند کے وقت ریفرنڈم میں ہم نے پاکستان کے حق میں اپنا ووٹ کاسٹ کر کے محب ِوطن ہونے کا ثبوت دیاتھا۔سرکیاہمارے نوجوانوں نے بیرون ملک مزدوریاں کرکے ملکی خزانے کو خاطر خواہ سرمایہ فراہم نہیں کیا،سرکیا ہماری زمینوں سے نکلنے والے چشموں سے پوراملک مستفید نہیں ہورہا،کیاہمارے پہاڑوں کے ابلتے خزانے ملکی ترقی کے لیے استعمال نہیں ہورہے ؟۔سر!آخر ایسا کونسا گناہ ہم سے سرزد ہوا ہے جس کی پاداش میں ہمارے گھروں کو صفحہ ہستی سے مٹایا جارہا ہے،ماﺅں کوتڑپایا جارہاہے ،عورتوں کو بیوہ اور بچوں کویتیم کیاجارہاہے ۔سر!کس جرم کی پاداش میں ہم پر ہماری ہی زمیں تنگ کردی گئی ،کونسی ایسی غلطی ہے جس کی سزاہمیں اپنے اورغیر یک جا ہوکر دے رہے ہیں ۔کبھی ڈروں حملوں کی شکل میں ہماری اینٹ سے اینٹ بجائی جاتی ہے تو کبھی فوجی آپریشن کے نام پر ہماری بستیوں کی بستیاں مسمار کردی جاتی ہیں ۔سر!کیا ہم اس قدر گندے اور بدبودار ہوگئے ہیں کہ ہمارے اپنے ہی بھائی ہم پر اپنی جان ومال لٹاکر ہمارے وجود سے خدا کی اس زمین کو پاک کرنے پر تلے ہوئے ہیں ؟سر!کیاپڑھنا لکھنا صر ف ملک کے دیگر حصوں میں بسنے والے بچوں کے لیے مقدر ہے اور ہماری قسمت میں کتابوں کی جگہ صر ف بندوقیں اٹھاناہی ہے۔سر!کیوں یہ دوہر ا معیا ر ہم سے برتا جارہاہے ؟کیوں ہمیں دہشت گرد بنایاجارہاہے ؟کیو ں ہمارے ساتھ یہ ظلم اور ناانصافی کی جارہی ہے ؟۔کیا اس لیے یہ مظالم ہم پر ڈھائے جارہے ہیں کہ ہم اسلام پسندہیں اور جس نظریہ اورسوچ کی بنیاد پر یہ ملک وجود میں آیا اس نظریہ اور سوچ کو عملا نافذکروانا چاہتے ہیں ۔کیا ہمارجرم یہی ہے کہ ہم اس چمن کو اسلام کا حقیقی گلستان بنانا چاہتے ہیں اور اس کے لیے پرامن جدوجہد کرتے ہیں ۔سر!مجھے اس نوبت تک اپنوں کا دہرا معیار لایا ہے، میرے گھرکے تمام لوگ ڈرون حملے میں مارے گئے ،اب میرے لیے سوائے اپنے بدلے کے اورکچھ کام نہیں ہے“۔گل بہادر بولتا جارہاتھا پولیس آفیسر اور میری آنکھوں سے آنسوﺅ ں کاسیلاب بحرِبیکرا ں بنتاجارہاتھا۔نوجوان مزید کچھ کہنا چاہتا تھاکہ پولیس آفیسر کھڑا ہو ا اور گل بہادرکو اپنے گلے سے لگایا،اسے اس کے حقوق دلوانے کا وعدہ کیااورمیں لڑھکتے پاﺅں کے ساتھ آنسو پونچھتا ہوا گھرچل دیا۔

قارئین آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ من گھڑت افسانہ یاپھر کوئی سازش ہے ،اس سے ملک دشمن عناصر وں کاحوصلہ اور ہمت بڑھے گا ۔نہیں ہرگز نہیں! یہ حقیقت ہے اور سچ ہے کہ” ہم نے خود اپنے پاﺅ ں پر کلہاڑی ماری “۔اپنے ہی ہاتھوں سے اس گلستان کے لیے گل بہادر جیسے سینکڑوں معصوموں کوکانٹے بنادیاجس کی وجہ سے آج پاکستان کے نام سے موسوم عمارت کی بنیادیں کھوکھلی ہوتی جارہی ہیں ۔مسائل وسائل کے لاتعداد مصنوعی بحران پیداہوچکے ہیں ،بدامنی ،فساد ،بیروزگاری جیسی موذی اور متعدی مرض کاہر پاکستانی شکار ہوگیاہے۔ نااہل حکمرانوں اور ہماری غفلت سے گل بہادر جیسے قیمتی سرمایہ بے دردی سے ضائع ہورہاہے۔یارلوگوں کی عیاری اور مکاری کا شکار ہمارے بے ضمیر، عاقبت نااندیش حکمرانوںنے پہلے جنوبی وزیرستان اور اسکے ملحقہ علاقہ جات میں آپریشن کے ذریعہ لاکھوں لوگوں کو گھر با ر سے محرو م کیا،ملکی خزانہ کوبے دردی سے غیر وں کے ناپاک منصوبوں پر بہایااوراب شمالی وزیرستان میں تاریخ کی مہنگی ترین غلطی دہرانے کے لیے ماحول کوسازگار بنایاجارہاہے۔اگر یہی سرمایہ( جوقبائلی علاقہ جات میںاپنے ہی لوگوں کو مارنے کے لیے لٹایاگیاتھا) ملکی ترقی کے لیے استعمال کیاجاتا تو آج پاکستان لوڈشیڈنگ ،مہنگائی ،بیروزگاری ،ریلوے بحران ،سٹیل مل ،پی آئی جیسے اداروں کی تباہ حالی اور اس جیسے دیگر سینکڑوں اندوہناک ،گمبھیر مسائل کا شکار نہ ہوتا۔اگراسی سرمایہ کو ایمانداری سے صحیح مصرف پر خرچ کیاجاتاتو آج آئی ایم ایف کے قرضوں تلے پاکستان نہ دبا ہوتالیکن حکمرانوں کے غلط پالیسیوں اورغلط فیصلوں کا نتیجہ ہے کہ آج پاکستان 65سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ تمام شعبوں میں یتیم اور لاوارث نظرآتاہے۔

موجودہ حالات کا تقاضاتو یہ ہے کہ شمالی وزیرستان اور ملک کے کسی اورکونے میں ماضی کی غلطیاں نہ دہرائی جائیں بلکہ ان سے سیکھاجائے اور آئندہ کا لائحہ عمل طے کیاجائے کیونکہ جنگ اورآپریشن مسائل کاحل نہیں ہے ،لیکن اس سیکھنے کامطلب یہ ہرگزنہیں ہے کہ ہاتھ پے ہاتھ رکھ کربیٹھاجائے، ڈرون حملوں کی درپردہ سپوٹ کی جاتی رہے اور انہیں روکنے کے لیے کوئی عملی قدم نہ اٹھایاجائے کیونکہ اگریہ حملے جاری رہے اور ہم ماضی کی غلطیاں دہراتے رہے تو پھر گل بہادر جیسے سینکڑوں پھول ہمارے لیے کانٹے بن جائیں گے ان کے معصوم ہاتھوں میں بجائے قلم کے خون بہانے والے ہتھیارہوں گے اورہم پھر ناختم ہونے والے مسائل کی تاریکیوں میں ڈوبتے چلے جائیں گے جہاں سے پھر نکلناشاید ناممکن ہوجائے اورتاریخ کے جھروکوں میں ہم تاقیامت قوم کے مجرم ٹھہریں گے۔خدارا!ہوشیارہوجائیں ،بیدار ہوجائیں! اور حکمرانوں کو ماضی کی غلطیاں دہرانے سے باز رکھیں۔
Ghulam Nabi Madni
About the Author: Ghulam Nabi Madni Read More Articles by Ghulam Nabi Madni: 45 Articles with 38230 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.