عالمی تجزیہ نگار اس بات پر
متفق نظر آتے ہیں کہ گزشتہ ایک سال کے دوران افغانستان پر امریکہ کی گرفت
کمزور ہوئی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ معاملات امریکہ کے بس سے باہرہوتے نظر
آرہے ہیں۔ تازہ ترین مثال امریکی فوج کے سربراہ جنرل مارٹن ڈیمپسی کے طیارے
پر حملہ ہے۔ گو کہ جنرل ڈیمپسی اس حملے میں محفوظ رہے مگر طالبان امریکہ کو
جو پیغام دینا چاہتے تھے اس کی تکمیل ضرور ہوگئی۔دوسری طرف پاکستان میں
ڈرون حملوں میں مزید تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔ یہ بھی امریکی خفت کی طرف
واضح اشارہ ہے۔ افغانستان پر قابض امریکی اور نیٹوافواج کو پے درپے ہزیمتوں
کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ ایک طرف طالبان نے ان کی ناک میں دم کررکھا ہے تو
دوسری طرف ان کے اپنے ہی تربیت یافتہ افغان آرمی کے سپاہی ان کے لئے مستقل
دردسر بلکہ موت کا فرشتہ بنتے جارہے ہیں۔ اپنے ہی ہاتھوں پھانسی کا پھندا
تیار کرنے کے مصداق افغان فوجی اور پولیس اہلکار امریکی اور اتحادی افواج
کے عسکری انسٹرکٹرز سے جو تربیت حاصل کرتے ہیں اس کا عملی مظاہرہ ان ہی کے
اسلحے سے ان کی جان لے کر کرتے ہیں۔رواں سال 39 غیرملکی ٹرینرز کو افغان
فوجیوں نے اڑا کے رکھ دیا۔ گزشتہ صرف دو ہفتوں کے دوران نو مارے گئے۔ ایسے
واقعات پر امریکہ کو تشویش ہے۔ جنرل ڈیمپسی بھی انہی واقعات کا جائزہ لینے
آئے تھے‘ صدر اوباما کو بھی افغان فوجیوں کے ہاتھوں اپنے تربیت دینے والوں
کے قتل پر پریشانی ہے۔ خود افغانستان میں موجود غیرملکی فوجی ڈپریشن کا
شکار اور خوف سے سہمے ہوئے ہیں۔ ان میں خودکشی کے رحجان میں اضافہ ہو رہا
ہے۔
افغانستان کے ہر صوبے اور ہر ضلعے سے امریکیوں فوجیوں کو جانی و مالی نقصان
اٹھانا پڑ رہا ہے جس پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی خفگی نمایاں ہے اور
یہی وجہ ہے کہ نیٹو نے افغانستان کی تمام وزارتوں سے اپنے عملے کو واپس بلا
لیا ہے اور اتحادی ممالک میں سے تو اکثر نے اپنی افواج کو واپس بلانے پر
غور و حوض شروع کردیا ہے بلکہ اس پرعملدآمد بھی شروع کردیا ہے۔سوئس دستوں
کے بعد پولینڈ ،جرمنی اور فرانس نے بھی اپنے فوجیوں کی واپسی کا عمل شروع
کردیا ہے۔ جسے ان ممالک کے عوام نے ایک مثبت قدم قراردیا اور پرزور انداز
میں اس فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے۔ اکثر ممالک کے عوام کی رائے یہی ہے کہ
امریکہ نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے بعد افغانستان پر قبضہ جمایا اور ان کی
افواج کو اس آگ کی بھٹی میں جھونک دیا۔ امریکی و اتحادی افواج پر حملے
بڑھنے کی بڑی وجہ امریکی پادری جان ٹیڑی کی جانب سے قرآن پاک کی حرمتی کا
واقعہ ہے جس کے خلاف افغانیوں میں شدید غم وغصہ پایا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں
امریکی افواج کی طرف سے افغان شہریوں کے ساتھ بدسلوکی اورمعصوم شہریوں کی
ہلاکت جیسے واقعات بھی افغان فوجیوں اور شہریوں کو ردعمل پر ابھار رہے ہیں۔
ایسے تمام واقعات اتحادی افواج کے لئے شدید قسم کی مشکلات کا باعث بنے ہوئے
ہیں۔
دوسری طرف طالبان بھی قابض افواج کو ناکوں چنے چبوا رہے ہیں۔ کوئی دن ایسا
نہیں گزرتا کہ جب طالبان نے افغانستان کے کسی حصے میں کارروائی نہ کی ہو
اور اتحادی افواج کی ہلاکتیں نہ ہوئی ہوں۔ نیٹو اور امریکی افواج جدید
اسلحہ رکھنے کے باوجود کابل تک کو محفوظ نہیں بنا سکیں۔ جہاں جہاں غیرملکی
افواج تعینات ہیں، طالبان ان پر حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ امریکہ اور
اتحادی پاکستان کے خلاف تو ڈومورکی رٹ لگائے رکھتے ہیں مگر خود افغانستان
میں وہ کوئی بھی خاطر خواہ کاکامیابی نہیں کرسکے بلکہ بلند و بانگ دعوﺅں کے
برعکس عملی طور پر ان کی کسی صوبے یا علاقے میں کوئی عملداری نہیں ہے۔ اس
حقیقت کا اعتراف حال ہی میں امریکی سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کی چیئرپرسن
فیئر ڈائن فینسئن نے ”فاکس نیوز“ کو دیئے جانے والے ایک انٹرویو میں بھی
کیا ہے کہ افغانستان کے ایک تہائی حصے پر طالبان کا کنٹرول ہے ۔
امریکی اور اتحادی افواج کا افغانستان کے دور دراز علاقوں کا کنٹرول نہ
ہونے کی تو بہت سی وجوہات کو قراردیا جاسکتا ہے مگر کابل کے حالات بے قابو
ہونا ان کی نالائقی ہی تصور کیا جائے گا۔ طالبان وہاں آئے روز کوئی نہ کوئی
محاذ کھول دیتے ہیں۔ کبھی کوئی سرکاری عمارت یا امریکی افواج کا ٹھکانہ ان
کے نشانے پر ہوتا ہے۔ وہاں کسی کی جان محفوظ ہے نہ مال۔ کسی بھی وقت کسی
جگہ بھی طالبان وارد ہوکرامریکی، اتحادی اور افغان افواج خواس باختہ کرکے
کرزئی اور اس کے حواریوں کی سیکورٹی کی قلعی کھول دیتے ہیں۔ کرزئی کے متعدد
قریبی ساتھی طالبان کی گولیوں کا نشانہ بن کر موت کے آغوش میںجاچکے ہیں جن
میں اس کا بھائی بھی شامل ہے۔ رواں سال مارچ میں وزیر دفاع لیون پینٹا کی
آمد پر ایک سویلین نے فوجی ٹرک چرایا اور اسے پینٹا کے جہاز سے ٹکرانے کی
کوشش کی‘ جو کامیاب نہ ہو سکی۔ افغانستان کے اندر طالبان امریکہ کی ناک میں
دم کئے ہوئے ہیں جس کے سبب امریکہ اور اسکے اتحادی ممالک میں انکے فوجیوں
کے تابوت پہنچتے رہتے ہیں۔
افغانستان کے یہ حالات اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ اب امریکہ افغان دلدل میں
واقعی پھنس چکا ہے اور نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن کی سی کیفیت سے
دوچارہے۔یعنی افغانستان میں رہتا ہے تو اسے اپنی افواج رکھنے اور کرزئی
حکومت کو چلانے کے لئے کروڑوں اربوں ڈالر اخراجات کا خسارہ برداشت اور
طالبان کے تابڑ توڑ حملوں کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ علاوہ ازیں افغان جنگ سے
اکتا جانے والے اتحادیوں اورخود امریکی عوام جن اکثریت اب افغان جنگ کے
خلاف ہوچکی ہے کو منانا ہوگا۔ اگر وہ افغانستان سے اپنی افواج واپس بلا
لیتا ہے تو افغان فورسز اس قابل نہیں کہ وہ امریکہ کے انخلاءکے بعد کرزئی
کی کٹھ پتلی حکومت کو سہارا دے سکیں بلکہ جس طرح امریکی و اتحادی افواج کے
ساتھ ان کا رویہ رہا ہے لگتا یہی ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ جاملنے میں ہی
اپنی عافیت جانیں گے۔ اس طرح ہر دو صورتوں میں امریکہ کے مقدر میں شکست
لکھی جاچکی ہے یہی وجہ ہے کہ وہ اب طالبان سے مذاکرات کے راستے تلاش کررہا
ہے بلکہ ان کی تمام شرائط ماننے کو بھی تیار ہے جس کے تحت قطر میں طالبان
ہیڈکوارٹر بھی قائم ہوچکا ہے۔جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو امریکہ اپنی ان
تمام نااہلیوں اور نالائقیوں کاملبہ اس پر ڈال کر جگ ہنسائی سے بچنے کی
ناکام کوشش کررہا ہے۔ |