’’غالب کے اُڑیں گے پُرزے‘‘ کی
ضمن میں مرزا غالب کے کلام پر ہاتھ صاف کرتے ہوئے کچھ دن ہوگئے تھے اور ان
کے شستہ و شائستہ کلام پر ہماری پیروڈیوں ( بے ہودگیوں ) کی کل تعداد دو
دہائیوں سے تجاوز کرچکی تھی، ادھر ایک عدد برقی کتاب کے لیے ہمارے اکلوتے
ناشر ، استادِ محترم کا اِصرار بڑھتا جارہا تھا۔ ان کے اس ادبی تقاضے نے
ہمارے ذہن پر چھائی ہوئی برف کو قدرے پگھلایا تو ہم نے بالآخر ایک کتاب
مرتب کرنے کا ارادہ کرلیا۔
اس راہ میں جو سب پہ گزرتی ہے ، سو گزری
اور ہمارے سامنے دیباچے کا سوال ایک عفریت کی شکل میں آ کھڑا ہوا۔ اس کتاب
کا دیباچہ کون لکھے گا؟ دورِ حاضر کے مستند ناموں کو ٹٹولا تو ان میں سے
آدھے تو اس خرافات کو شاعری ہی ماننے پر تیار نہ ہوتے، باقی جو آدھے تھے
انھیں اردو زبان کے اتنے بڑے شاعر کی بھد اُڑانے والوں میں اپنا نام شامل
کرنا شاید گوارا نہ ہوتا۔ قرعہء فال بنامِ منِ دیوانہ زدند کے مصداق خود ہی
کچھ لکھنے کا خیال آیا اور ساتھ ہی ایک ذہنی رو بہکی ( برین ویو) تو تہیہ
کرلیا کہ اس کتاب کا دیباچہ جناب مرزا اسد اللہ خان غالب ہی سے لکھوایں گے۔
اس اچھوتے خیال یعنی ناول آئیڈیا کا مآخذ دوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایام
تو کی تفسیر یعنی ڈیفنے ڈی موریر کا ناول ’’ دی ہاؤس آن دی سٹرینڈ تھا۔
آئیڈیا یہ تھا کہ میگنس سے وہ دوائی لے کر پی جائیں گے اور سیدھا ’’ ادھر
ڈوبے ادھر نکلے ، ادھر ڈوبے ادھر نکلے‘‘ دلی جارہیں گے۔ جونہی مرزا صاحب
دربار سے فارغ ہوکر گھر پہنچیں گے، ہم ان کا انٹرویو لے ڈالیں گے جسے
دیباچے کے نام سے اپنی کتاب پر چسپاں کردیں گے۔ اللہ اللہ خیر صلّا۔اس مقصد
کے لیے پہلے تو دوزخ کے لیے کال ملوائی اور منشی ہرگوپال تفتہ سے تذکرہ
کرکے ان سے سفارشی رقعہ حاصل کیا کہ مرزا غالب کے چہیتے تھے ۔
دلی پہنچے اور پتہ پوچھتے پوچھتے مرزا غالب کی حویلی جاپہنچے۔ جھٹپٹے کا
وقت تھا کہ ہم نے مرزا صاحب سےملاقات کی
مرزا غالب: بیس بائیس دن سے حضورِ والا روز دربار کرتے ہیں۔ آٹھ نو بجے
جاتا ہوں بارہ بجے آتا ہوں۔ یا روٹی کھانے میں ظہر کی اذان ہوتی ہے یا ہاتھ
دھونے میں۔ خلاصہ یہ کہ صبح کو جاتا ہوں دوپہر کو آتا ہوں۔ کھانا کھاکر چار
پانچ گھڑی دم لے کر جاتا ہوں چراغ جلے آتا ہوں۔ بھائی تمہارے سر کی قسم،
رات کو مزدوروں کی طرح تھک کر پڑ رہتا ہوں۔ آج چوتھے دن فرصت پائی ہے۔ سو
فرصت کیا، کھانا کھاکر لیٹا نہیں اور تم آئے۔
ہم: مرزا صاحب ہم مرزا تفتہ کی سفارش لائے ہیں۔ للہ ہماری کتاب کے لیے ایک
دیباچہ لکھ دیجیےاور مرزا تفتہ کو آزردہ نہ کیجیے۔
مرزا غالب: لو صاحب، اور تماشا سنو! آپ مجھ کو سمجھاتے ہیں کہ تفتہ کو
آزردہ نہ کرو۔ میں تو ان کے خط کے نہ آنے سے ڈرا تھا کہ کہیں مجھ سے آزردہ
نہ ہوں۔ اب تمہاری عنایت سے وہ ایک اندیشہ تھا، رفع ہوگیا۔ خاطر مری جمع
ہوگئی۔ اب کون سا قصہ باقی رہا کہ جس کے واسطے آپ ان کی سفارش کرتے ہیں۔
وللہ تفتہ کو میں اپنے فرزندوں کی جگہ سمجھتا ہوں اور مجھ کو ناز ہے کہ خدا
نے مجھ کو ایسا قابل فرزند عطا کیا ہے۔ رہا دیباچہ ۔ تم کو میری خبر ہی
نہیں ۔ میں اپنی جان سے مرتا ہوں
گیا ہو جب اپنا ہی جیوڑا نکل
کہاں کی رباعی کہاں کی غزل
یقین ہے کہ وہ اور آپ میرا عذر قبول کریں۔ اور مجھ کو معاف رکھیں۔ خدا نے
مجھ پر نماز روزہ معاف کردیا ہے۔ کیاتم اور تفتہ ایک دیباچہ معاف نہ کرو
گے۔
ہم: ہماری پیروڈیاں جو ہم نے اصلاح کے واسطے بھجوائی تھیں، آپ نے دیکھی تو
نہ ہوں گی؟
مرزا غالب: بھائی تم سچ کہتے ہو کہ بہت مسودے اصلاح کے واسطے فراہم ہوئے
ہیں ۔ مگر یہ نہ سمجھا کہ تمہارے ہی قصائد پڑے ہیں۔ نواب صاحب کی غزلیں بھی
اسی طرح دھری ہوئی ہیں۔ برسات کا حال تمہیں بھی معلوم ہے ۔ اور تم یہ بھی
جانتے ہو کہ میرا مکان گھر کا نہیں ہے۔ یہاں برزخ میں کرائے کی حویلی میں
رہتا ہوں۔ جولائی سے مینہ شروع ہوا۔ دلی شہر میں سینکڑوں مکان گرے اور مینھ
کی نئی صورت دن رات میں دوچار بار برسے۔ اور ہر بار اس زور سے کہ ندی نالے
بہہ نکلیں۔ بالاخانے کا دالان میرے بیٹھنے اُٹھنے، سونے جاگنے ، جینے مرنے
کا محل، اگرچہ گرا نہیں لیکن چھت چھلنی ہوگئی۔ کہیں لگن، کہیں چلمچی، کہیں
اگالدان رکھ دیا۔ قلمدان کتابیں اُٹھاکر توشہ کانہ کی کوٹھری میں رکھ دئیے۔
مالک مرمت کی طرف متوجہ نہیں۔ کشتیء نوح میں تین مہینے رہنے کا اتفاق ہوا۔
اب نجات ہوئی ہے۔ نواب صاحب کی غزلیں اور تمہارے قصائد دیکھے جائیں گے۔
ہم: ( موقع غنیمت جان کر مسودے کی نئی کاپی مرزا صاحب کو پیش کرتے ہیں۔)
مرزا غالب: ( اپنی غزلوں کی یہ درگت دیکھ کر چہرے پر ایک رنگ آتا ہے ، ایک
جاتا ہے ) پیر و مرشد بارہ بجے تھے، میں ننگا اپنے پلنگ پر لیٹا ہوا حقہ پی
رہا تھا کہ آدمی نے آکر آپ کا خط دیا۔ میں نے کھولا، پڑھا۔ بھلے کو انگرکھا
، کرتا گلے میں نہ تھا کہ اگر ہوتا تو تو میں گریبان پھاڑ ڈالتا۔ حضرت کا
کیا جاتا۔ میرا نقصان ہوتا سرے سے۔
ہم جھینپ سے گئے اور اپنی اس شرمندگی کو کم کرنے کی خاطر مرزا صاحب کی
تعریف کی ٹھانی۔
ہم : مرزا صاحب۔ اب تو آپ کے خوشی کے دن آنے والے ہیں جب آپ بہشت میں ڈالے
جائیں گے؟
مرزا غالب: میں جب بہشت کا تصور کرتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ اگر مغفرت ہوگئی
اور ایک قصر ملا اور ایک حور ملی، اقامت جاودانی ہے اور اسی ایک نیک بخت کے
ساتھ زندگانی ہے ، اس تصور سے جی گھبراتا ہے۔ اور کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ ہے
ہے، وہ حور اجیرن ہوجائے گی۔ طبیعت کیوں نہ گھبرائے گی۔ وہی زمردیں کاخ اور
وہی طوبیٰ کی ایک شاخ، چشمِ بددور وہی ایک حور۔ بھائی ہوش میں آؤ، کہیں اور
دل لگاؤ۔
جس میں سو سو برس کی حوریں ہوں
ایسی جنت کا کیا کرے کوئی
ہم: تو حوروں سے آپ کی اس چپقلش کی کوئی خاص وجہ؟
مرزا غالب:
میں جو کہتا ہوں کہ ہم لیں گے قیامت میں تمہیں
کس رعونت سے وہ کہتے ہیں کہ ہم حور نہیں
ہم: رہنے دیجیے مرزا صاحب۔ کیا جنت میں آپ کے اور رضوان کے جھگڑےکی پیش
گوئی ہم بھول سکتے ہیں بھلا۔
کیا ہی رضواں سے لڑائی ہوگی
گھر ترا خلد میں گر یاد آیا
اب کیا آپ ہمارے لیے کچھ اپنے بارے میں کچھ فرمائیں گے۔
مرزا غالب: تم سے ملاقات کی دو ہی صورتیں تھیں تم دلی میں آؤ یا میں اردو
محفل میں آؤں۔ تم مجبور میں معذور، خود کہتا ہوں کہ میرا عذر زنہار مسموع
نہ ہو جب تک نہ سمجھ لو کہ میں کون ہوں اور ماجرا کیا ہے۔ سنو! عالم دو
ہیں۔ ایک عالمِ ارواح اور ایک عالمِ آب و گِل۔ حاکم ان دونوں عالموں کا وہ
ایک ہے جو خود فرماتا ہے( لمن الملک الیوم) اور پھر آپ جواب دیتا ہے( للہ
الواحد القھار) ہر چند قاعدہء عام یہ ہے کہ عالمِ آب و گِل کے مجرم عالمِ
ارواح میں سزا پاتے ہیں۔ لیکن یوں بھی ہوا ہے کہ عالمِ ارواح کے گنہگار کو
دنیاء میں بھیج کر سزا دیتے ہیں۔ چنانچہ میں آٹھویں رجب ۱۲۱۲ ھ میں
روبکاری کے واسطے یہاں بھیجا گیا۔ ۱۳ برس حوالات میں رہا ۔ ۷ رجب ۱۲۲۵ ھ
کو میرے واسطے حکمِ دوامِ حبس صادر ہوا۔ ایک بیڑی میرے پاؤں میں ڈالدی اور
دلّی شہر کو زنداں مقرر کیا اور مجھے اس زنداں میں ڈال دیا، فکرِ نظم و نثر
کو مشقت ٹھہرایا۔ برسوں کے بعد میں جیل خانے سے بھاگا۔ تین برس بلادِ شرقیہ
میں پھرتا رہا۔ پایان کار مجھے کلکتہ سے پکڑ لائے اور پھر اسی مجلس میں
بٹھادیا۔ جب دیکھا کہ قیدی گریز پا ہے۔ دو ہتھ کڑیاں اور بڑھادیں۔ پاؤں
بیڑی سے فِگار، ہاتھ ہتھ کڑیوں سے زخم دار۔ مشقت مقرری اور مشکل ہوگئی۔
طاقت یک قلم زائل ہوگئی۔ بے حیا ہوں۔ سالِ گزشتہ بیڑی کوزاویہ ء زنداں میں
چھوڑ مع دونوں ہتھ کڑیوں کے بھاگا۔ میرٹھ مراد آباد ہوتا ہوارام پور پہنچا۔
کچھ دن کم دومہینے وہاں رہا تھا کہ پھر پکڑ آیا۔ اب عہد کیا کہ پھر نہ
بھاگوں گا۔ بھاگوں کیا بھاگنے کی طاقت بھی تو نہ رہی۔
ہم: مرزا صاحب ! سنا ہے یہاں عالم ِ برزخ میں شراب پر پابندی ہے ۔آپ یہاں
اس ٹھنڈے موسم میں کیونکر گزارا کرتے ہیں؟
مرزا غالب: دیکھتے ہو۔ صبح کا وقت ہے۔ جاڑا خوب پڑرہا ہے۔ انگیٹھی سامنے
رکھی ہوئی ہے۔ دو حرف لکھتا ہوں، ہاتھ تاپتا جاتا ہوں۔آگ میں گرمی نہیں۔
مگر ہائے آتشِ سیال کہاں کہ جب دو جرعہ پی لیے فوراً رگ و پے میں دوڑ گئی۔
دل توانا ہوگیا۔ دماغ روشن ہوگیا۔ نفسِ ناطقہ کو نواجد بہم پہنچا۔ ساقی ء
کوثر کا بندہ اور تشنہ لب، ہائے غضب ہائے غضب
ہم : مرزا صاحب آپ میر تقی میر کی شاعری کو کس مقام پر دیکھتے ہیں۔ گو آپ
انھیں بحیثیت ایک غزل گو شاعر کے مانتے ضرور ہیں۔
ریختی کے تمہی استاد نہیں ہو غالب
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا
مرزا غالب: بھئی ہم تو یہ بھی کہتے ہیں کہ
غالب اپنا یہ عقیدہ ہے بقولِ ناسخ
آپ بے بہرہ ہے جو معتقدِ میر نہیں
ہم: جناب ہم نے اُڑتی اُڑتی سنی ہے کہ مومن کا یہ شعر آپ کو بہت پسند تھا
اور اس کے بد لے آپ اپنا آدھا دیوان دینے پر تیار تھے۔
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
مرزا غالب: مومن میرا ہم عصر تھا۔ اور یار بھی تھا۔ بیالیس تینتالیس برس
ہوئے یعنی چودہ چودہ ، پندرہ پندرہ برس کی میری اور اس مرحوم کی عمر تھی،
کہ مجھ میں اور اس میں ربط پیدا ہوا۔ اس عرصے میں کبھی کسی طرح کا رنج و
ملال درمیان میں نہیں آیا۔ حضرت چالیس برس کا دشمن بھی نہیں پیدا ہوتا،
دوست تو کہاں ہاتھ آتا ہے۔ یہ شخص بھی اپنی وضع کا اچھا کہنے والا تھا ۔
طبیعت اس کی معنی آفریں تھی۔ اور پھر یہ شعر تو سہلِ ممتنع کی مثال ہے۔
ہم: مرزا صاحب ہمارے استاد آپ کی شاعری کو سہلِ ممتنع کی مثال سمجھتے ہیں۔
آپ ہمیں ذرا یہ تو سمجھادیجیے کہ یہ عجیب و غریب لفظ اصل میں کیا ہے اور آپ
کی شاعری کو اس سے کیا مماثلت ہے۔
مرزا غالب: پیر و مرشد سہلِ ممتنع اُس نظم ونثر کو کہتے ہیں کہ دیکھنے میں
آسان نظر آئے اور اس کا جواب نہ ہوسکے۔ بالجملہ سہلِ ممتنع حسنِ کلام ہے
اور بلاغت کی نہایت ہے۔ ممتنع دراصل ممتنع النظیر ہے سعدی کے بیشتر فقرے
اور شعرائے سلف نظم میں اس شیوہ کی رعایت منظور رکھتے ہیں۔ خود ستائی ہوتی
ہے سخن فہم اگر غور کرے گا تو فقیر کی نظم و نثر میں سہلِ ممتنع اکثر پائے
گا۔
ہم : بہر حال مرزاصاحب آپ کے خطوط میں آپ کی نثر خوب ہے۔
مرزا غالب: صاحب! میں نے وہ اندازِ تحریر ایجاد کیا ہے کہ مراسلہ کو مکالمہ
بنادیا ہے ۔ ہزار کوس سے بزبانِ قلم باتیں کیا کرو۔ ہجر میں وصال کے مزے
لیا کرو۔ کیا تم نے مجھ سے بات کرنے کی قسم کھائی ہے، اتنا تو کہو کہ کیا
بات تمہارے جی میں آئی ہے۔
ہم: مرزا صاحب آپ پر الزام ہے کہ آپ کی شاعری میں فسق و فجورکی باتیں بکثرت
پائی جاتی ہیں۔ یہی شعر لے لیجیے
ہم سے کھل جاؤ بوقتِ مئے پرستی ایک دن
ورنہ ہم چھیڑیں گے رکھ کر عذر مستی ایک دن
یا پھر
غنچہء ناشگفتہ کو دور سے مت دکھا کہ یوں
بوسے کو پوچھتا ہوں میں منہ سے مجھے بتا کہ یوں
آپ کیا کہیں گے اس بارے میں
مرزا غالب: صاحب ہم کو یہ باتیں پسند نہیں۔ پینسٹھ برس کی عمر ہے۔ پچاس برس
عالمِ رنگ و بو کی سیر کی۔ ابتدائے شباب میں ایک مرشدِ کامل نے یہ نصیحت کی
ہے کہ ہم کو زہد و ورع منظور نہیں۔ ہم مانعِ فسق و فجور نہیں۔ پیو کھاؤ مزے
اُڑاؤ۔ مگر یہ یاد رہے کہ مصری کی مکھی بنو، شہد کی مکھی نہ بنو۔ سو میرا
اس پر عمل رہا ہے۔
بہر حال
تم اپنے شکوے کی باتیں نہ کھود کھود کے پوچھو
حذر کرو مرے دل سے کہ اس میں آگ دبی ہے
ہم: ( یہ سوچ کر کہ مرزا صاحب نے شاید ہمارے تبصروں کو دل پر لے لیا ہے،
انھیں خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں)
یہ مسائلِ تصوف ، یہ ترا بیان غالب
تجھے ہم ولی سمجھتے ، جو نہ بادہ خوار ہوتا
مرزاغالب: (ہنس کر)
کھلتا کسی پہ کیوں مرے دل کا معاملہ
شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے
رات بہت ہوچکی تھی لہٰذا ہم نے مرزا صاحب سے اجازت لی اور عازمِ وطن
ہوئے۔مآلِ کار مرزا بھی ہماری پیروڈیوں کو دیکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں
لہٰذا آپ سے درخواست ہے کہ انھیں اسی طرح بغیر اصلاح کے ہی پڑھ ڈالیے۔ |