محمد خلیل الرحمٰن
پیر و مرشد جناب یوسفی ایک جگہ رقم طراز ہیں۔
’’ ساتویں جماعت میں جب ہمیں انگریزی میں سو میں سے ۹۱ اور حساب میں پندرہ
نمبر ملے تو ہم نے گردھاری لال شرما سے رجوع کیا۔
کہنے لگاکہ چنتا نہ کرو۔ بچار کرکے کل تک کوئی اُپائے نکالوں گا۔ دوسرے دن
اس نے اپنا بچن پورا کیا اور اور حساب میں ۹۱ نمبر لانے کے دو گُر بتائے۔
پہلا تو یہ کہ بھوگ بلاس سے دور رہو۔ آج سے پرتگّیا کرلو کہ امتحان تک
برہمچریہ کا پالن کرو گے۔ ہٹیلی کامنائیں یا چنچل بچار ہلّہ بول دیں تو تین
دفعہ ’’ اوم ! شانتی ! شانتی! شانتی!‘‘ کہنا۔ اِس سے بیاکل ساگر اور بھڑکتا
جوالا مُکھی بھی شانت ہوجاتا ہے۔اوم! شانتی! شانتی! شانتی!
’’ اور یار میاں جی! سادھارن جیون بِتانا سیکھو۔ گرم چیزوں سے ایکدم پر ہیز
۔ گوشت، گرم مصالحے ، گڑ کی گجک اور اردو گجل سے چالیس دِن الگ رہنا۔‘‘
اب یہ شانتی کھنا اور ٹوئینکل کھنا جیسی چنچل اور رسیلی مہیلاؤں کی یاد تھی
یا پھر یوم الحساب کا ڈر کہ
اُنھیں تو نیند ہی آئی ’حساب‘ کے بدلے
ادھر یہ امرِ واقعہ ہے کہ مسلمانوں کو حساب سے ایک گونہ چڑ سی ہی رہی ہے۔
ایک بار پھر ہم بسندِ یوسفی عرض کرتے ہیں کہ، ’’ اعمال کے حساب کتاب کا
جنجال بھی ہم نے کراماً کاتبین اور متعلقہ آڈٹ منکر نکیر کوسونپ رکھا ہے۔
‘‘
یوں بھی اچھے ریاضی داں بننے کے لیے حساب میں دلچسپی رکھنا چنداں ضروری
نہیں۔ مشہور ہے کہ عالمی شہرت یافتہ ریاضی داں آئن اسٹائن حساب میں کمزور
تھا اور ہمیشہ حساب میں ہی فیل ہوتا۔ یقیناً اس کے یوں حساب میں کمزور ہوتے
ہوئے کائینات کی عظیم ترین گتھی کے سلجھانے میں اسکی یہودیت کا بڑا دخل رہا
ہوگا۔ کہتے ہیں کہ ایک یہودی نے اپنے بیٹے سے جو کسی اونچی جگہ سے چھلانگ
لگانے کو کہا۔ بیٹا ڈرا تو اس نے کنگ خان کا ڈائیلاگ دہرا دیا ’’ ڈرو نہیں،
میں ہوں نا!‘‘ ادھر بیٹے نے چھلانگ لگائی ، ادھر باپ راستے سے ہٹ گیا اور
بیٹا اپنی ٹانگ کی ہڈی تڑوا بیٹھا۔باپ نے اسے زندگی کی اہم ترین نصیحت کرتے
ہوئے کہا کہ کبھی اپنے باپ پر بھی بھروسہ نہ کرو۔
یہی کسی پر بھی بھروسہ نہ کرنے کی عادت انھیں ہر ایک شخص، ہر ایک تصور اور
ہر ایک اصول کو شک کی نگاہ سے دیکھنے پر مجبور کرتی ہے۔ انھیں دو اور دو
چار کرنے کی عادت سی پڑ جاتی ہے۔ ادھر مسلمان ہے کہ اللہ کے بھروسے پر ہر
شخص ، ہر اصول اور ہر تصور پر بھروسہ کرلیتا ہے۔
اس کے علاوہ ایک وجہ اور بھی ہے۔ یہ تین رقمی قانون ( یعنی حساب) ہماری
سمجھ سے بالاتر تو ہے ہی، ہم جو نہ تین میں تیرہ میں، اسی تین تیرہ کرنے
میں ایسے الجھ جاتے ہیں کہ ہماری کیفیت وہی تین تیرہ نو اٹھارہ کی سی
ہوجاتی ہے۔ اب اس تین روزہ زندگی میں کون اتنے کھڑاگ پالے۔ ویسے بھیہ تین
گناہ تو اللہ بھی بخش دیتا ہے۔ ہم تو بقول شخصے طول شب ِ فراق ہی ناپتے رہ
جاتے ہیں۔
دعویٰ بہت سنا ہے ریاضی میں آپ کا
طولِ شبِ فِراق ذراناپ دیجیے
آج دیکھتے ہیں کہ کیا ریاضی قابلِ اعتبار ہے، یا اپنے پرکھوں کی طرح ہمیں
بھی چاہئیے کہ اسے دوسروں پر چھوڑ دیں اور خود کو دیگر حوائجِ ضروریہ میں
مصروفِ عمل کریں۔ انگریزی میں ایک سمبل استعمال ہوتا ہے جو کچھ یوں ہوتا ہے
’ = ‘ ، اس کا مطلب ہے کہ اس نشان کے دونوں طرف دی گئی مقداریں آپس میں
برابر ہیں۔ فرض کیجیے کہ دو نامعلوم مقداریں جنہیں ہم لا اور ما کہہ لیتے
ہیں آپس میں برابر ہیں
لا = ما
اب اگر دونوں اطراف لا سے ضرب دے دیا جائے تو کیا صورت ہوگی
لا X لا= لا X ما
یا
لا۲ = لا ما
اطراف و جوانب سے ما ۲ منہا کردیا جائے
لا۲ - ما۲ = لا ما - ما۲
اب داہنی جانب الجبراء کا فارمولا لگائیے اور بائیں جانب قدر ’ما ‘ مشترک
لے لیجیئے
(لا – ما) ( لا + ما ) = ما ( لا – ما)
نظر دوڑائیے اور دیکھئیے کہ دونوں جانب ایک قدر مشترک ہے جسے الجبراء کے
فارمولے کی مدد سے ختم کیا جاسکتا ہے۔
(لا – ما) ( لا + ما ) = ما ( لا – ما)
یعنی
لا + ما = ما یا دوسرے لفظوں میں
ما + ما = ما ( پہلی سطر ملاحظہ کیجیے لا = ما )
یعنی
۲ ما = ما
یا
۲ = ۱
جی کیا فرمایا؟ کیسے ممکن ہے؟ ہم نے آپ کے سامنے اسے ممکن کردکھایا ہے۔ یہ
اور بات ہے کہ آپ کو مزید کنفیوز ( پریشان) کرنے کی خاطر ان مقداروں کو
اردو رسم الخط میں لکھ دیا ہے ۔ اب آپ اس تمام کارروائی کو انگریزی میں x
اور y سے بدل دیجیے اور خود ہی جانچ لیجیے۔
یعنی پرکھوں کا عمل درست تھا جنھوں نے حساب کتاب تو ہندو بنئیوں کے سپرد
کررکھا تھا اور اپنے ذمے گجل اور ترجموں کا کام تھا۔
یا پھر دوسری صورت یہ ہے کہ
ہم ہی میں ہے نا کوئی بات، یاد حساب نہ رکھ سکے
اس کا اپائے کیا ہو۔ اس کارن بھی ہمیں یوسفی صاحب ہی کی جانب دیکھنا پڑے
گا، یعنی
’’ حساب میں ۹۱ نمبر لانے کے دو گر:
پہلا تو یہ کہ بھوگ بلاس سے دور رہو۔ آج سے پرتگیّا کرلو کہ امتحان تک
برہمچریہ کا پالن کرو گے۔ ہٹیلی کامنائیں یا چنچل بچار ہلّہ بول دیں تو تین
دفعہ ’ اوم ! شانتی ! شانتی! شانتی!‘ کہنا، اس سے بیاکل ساگر اور بھڑکتا
جوالا مُکھی بھی شانت ہوجاتا ہے۔ اوم! شانتی ! شانتی! شانتی!‘‘
خیال رہے کہ اِس بیچ کہیں شانتی کھنّا یا ٹوئینکل کھنّا نہ یاد آنے لگے۔
’’پاس ہونا ہے تو برہمچریہ کا پالن کرنا ہوگا۔‘‘
ورنہ بصورتِ دیگر ان صاحبزادے کا سا حال ہوگا جن کا ذکر خیر ہم اپنی گجل
میں کیا ہے ، جو ہم نے یارِ محفل کی ضمین میں کہی ہے۔
کاش یہ سال تو لکھ پڑھ کے گزارا ہوتا
امتحانوں میں ہمارے یہ سہارا ہوتا
کارتوس ایک میسر تو ہوا تھا لیکن
اس کو کاپی پہ ذرا ٹھیک اُتارا ہوتا
آج کِس منہ سے کچھ امید رکھیں گے ہم بھی
کبھی آموختہ ہی لب سے گزارا ہوتا
ممتحن آج یہ پرچے بڑے دشوار سہی
سہل ہوجاتے اگر تیرا سہارا ہوتا
گھر نتیجہ لیے آئے ہیں تو ابّا نکلے
کاش اُس روز کسی اور نے مارا ہوتاٌٌٌٌٌ |