عید اور مذہبی جوش و جذبہ

پروفیسر مظہر

رحمتوں اور برکتوں کا مینہ برساتا ، بخشش کے ساماں کرتا ماہِ صیام رُخصت ہوا ۔یہ اپنے اپنے مقدر کی بات ہے کہ اس ابرِ رحمت نے غلاموں کے دامانِ عصیاں کو یوں دھو ڈالا کہ جیسے انہوں نے کبھی گناہ کیا ہی نہ ہو لیکن بقّال اس ابرِ کرم سے بقدرِ قطرہ شبنم بھی نہ پا سکے ۔مایوس پھر بھی کوئی نہ گیا ۔کچھ دائمی زندگی کی تگ و دو میں گوہرِ مُراد پا گئے ، اور کچھ دولتِ دُنیا سے نہال ہو گئے ۔اُنہیں حیاتِ جاوِداں کا خُمار ، اِنہیں تنعمِ زیست سے پیار ۔اِک لکیر مگر کھنچ گئی ، تفریق عیاں ہو گئی ۔ایک طرف گدایانِ خُدا ، دوسری طرف سگانِ دُنیا۔مصحفِ مجید نے آواز دی ”جو لوگ بس اسی دُنیا کی زندگی اور اس کی خوش نمائیوں کے طالب ہوتے ہیں اُن کی کار گزاری کا سارا پھل ہم اُن کو یہیں دے دیتے ہیں ۔(ہود)

یادوں کے بند کواڑ کھولتی شُکرانے کی عید آئی ۔گزری رُتوں اور بھیگے موسموں کی ساری شبنمی عیدیں یادوں کا چمن مہکانے لگیں ۔بچپن ، لڑکپن اور پھر جوانی کی ساری عیدوں کا ایک ایک نقش اُبھرتا چلا گیا لیکن پھر طہارت ، پاکیزگی اور اُجلے پن اِس سمندر میں تیرتی ساری عیدیں گزرے کَل کی عید کے ہاو ہو کے شور سے گھبرا کر گم ہوتی چلی گئیں اور میں اُداسیوں کے جلو میں سوچتا رہ گیا کہ
دِل تو میرا اُداس ہے ناصر
شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے

میں تو اِس عید کو گیاری اور سلالہ کے شہیدوں اور لو لو سر کے مظلوموں کے نام کرنا چاہتا تھا لیکن رنگ میں بھنگ ڈالنے کا خوف دامن گیر ہوا ۔گئے دنوں میں جب سُرخی مائل آندھی اُٹھا کرتی تو بزرگ کہتے کہ کہیں کوئی مظلوم قتل ہوا ہے ۔ لیکن اب تو روشنیوں کے شہر میں ہر روز مظلوموں کے لاشے گرتے ہیں ، کوئٹہ کی سریاب روڈ مقتل گاہ میں ڈھل چُکی اور پتہ نہیں کتنے مظلوم بچے ، بوڑھے اور عورتیں ڈرون نامی دیوِ استبداد نے نگل لیے لیکن لال آندھی تو کُجا اب تو تیز ہوا کا جھونکا بھی نہیں آتا ۔وجہ شاید یہ کہ ہم نے اُس سے رُخ پھیر لیا جس کا فرمان ہے ” جِن لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر دوسرے سر پرست بنا لئے اُن کی مثال مکڑی جیسی ہے جو اپنا ایک گھر بناتی ہے اور سب گھروں سے کمزور گھر مکڑی ہی کا ہوتا ہے (العنکبوت)۔

میڈیا کہتا ہے کہ ”ملک بھر میں عید پورے مذہبی عقیدت و احترام اور جوش و جذبے سے منائی جا رہی ہے ۔کیا مذہبی جوش و جذبہ اسی کا نام ہے کہ نیوز چینلوں پر ”بھانڈ“ قبضہ جما کر پھکڑ پَن ، ہزل گوئی ، جُگت بازی اور ذو معنی جملوں کی انتہا کر دیں؟۔کیا مزاحیہ شاعری کی آڑ میں فحاشی پھیلانا دینی اقدار کا تماشا بنانے کے مترادف نہیں ؟۔لیکن چینل مالکان کو تو ”ریٹنگ“ چاہیے اور اسی ریٹنگ کے شوق میں ایک نیوز چینل نے باقاعدہ مُجرے کا اہتمام کر ڈالا ۔ایک ناچنے والی کسی فلمی گانے کی دھُن پر رقص کرتی اور سٹیج پر بیٹھے مردوں کو کھینچ کھینچ کر اپنے ساتھ لپٹا کر ٹھمکے لگاتی نظر آئی ۔کیا مذہبی عقیدت و احترام اسی کا نام ہے؟۔

کہا جاتا ہے کہ نیوز چینلز کی بدولت عوام میں سیاسی شعور بیدار ہوا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسی الیکٹرانک میڈیا کی بدولت احترامِ آدمیت مفقود ہوتا جا رہا ہے ، زبانیں دراز ہو رہی ہیں اور پگڑیاں اُچھالی جا رہی ہیں ۔ایک زمانہ تھا کہ کسی پر تنقید بھی سات پانیوں سے دھو اور سات پردوں میں چھُپا کر کی جاتی تھی لیکن آج سرِ عام گالی بھی دی جاتی ہے اور گولی کی دھمکی بھی ۔اینکر ز اپنی ریٹنگ بڑھانے کے شوق میں مخصوص جھگڑالو اور بد زبان مہمانوں کو دعوت دیتے ہیں ۔آقاﷺ کا فرمان ہے کہ جب کوئی دوسرا بات کر رہا ہو تو غور سے سنو اور بیچ میں مت ٹوکو۔ لیکن یہاں یہ عالم ہے کہ اینکر ز سمیت سبھی بیک وقت یوں بولتے ہیں کہ کان پڑی آواز سُنائی نہیں دیتی ۔ قصور شاید اینکرز کا بھی نہیں کہ اِن کا پالا ”بھانڈوں والے“ پروگراموں سے آن پڑا ہے جن کی ریٹنگ آسمان کی بلندیوں کو چھو رہی ہے۔ اب تو یہ ز ہر ہمارے دانشوروں اور لکھاریوں کی زبانوں اور تحریروں میں بھی گھُلتا جا رہا ہے ۔اُن کی اکثریت اپنے کالموں اور ٹاک شوز میں ایسی زبان استعمال کر جاتی ہے جس کا کچھ عرصہ پہلے تک تصوّر بھی ممکن نہ تھا ۔کچھ لوگ تو اخلاقیات کی ساری حدیں پار کر جاتے ہیں ۔

اپنی بد گوئی ، بد لحاظی، بد مزاجی ، بد دماغی ، بد تمیزی اور بد کلامی میں دب مست و بد نام ، اپنے آپ کو ارسطو ، افلاطون اور بزرجمہر کا بھی باپ سمجھنے اور اپنی تحریروں کو ”صحیفہ ٓآسمانی“ کا درجہ دینے والے انتہائے نرگسیت کے شکار ایک معروف لکھاری فرماتے ہیں ”بے حس ، بے علم اور بے غیرت ہیں وہ لوگ جو زرداری کو طعنہ دیتے ہیں کہ ”قاتل لیگ“ کو گلے لگا لیا “۔موصوف ٹاک شوز میں بھی ایسی ہی بد زُبانی کی بنا پر اکثر گالیاں کھاتے رہتے ہیں لیکن پھر بھی بد مزہ نہیں ہوتے ۔وہ فنکار ایسے ہیں کہ قاف لیگ اور ایم کیو ایم کے گرد گھومتے گھومتے آج کل وہ عمران خاں پر بھی مہربان ہو چلے ہیں ۔ محترم آصف زرداری کے اندازِ سیاست کے ”صدقے واری“ جانے کی وجہ صرف یہ کہ اُن کے ممدوحین کی جماعت ق لیگ ، پیپلز پارٹی کی اتحادی ہے ۔زرداری صاحب کے جس اندازِ سیاست کے وہ مدح سرا ہیں ، ایسی سیاست تو کوئی انگوٹھا چھاپ بھی کر سکتا ہے ۔اپنی حکومت کا ابتدائی سال دیڑھ سال اُنہوں نے جھوٹ اور فریب کا سہارا لے کر گزارا اور آخری تین سال اتحادیوں کی منت سماجت کرتے اور اُن کے ہاتھوں بلیک میل ہوتے ۔ق لیگ ، ایم کیو ایم اور اے این پی کو جب بھی اپنے مطالبات منوانے ہوتے ہیں ، وہ علیحدگی کی ایک دھمکی دیتے ہیں اور جنابِ زرداری اور حواری چاروں شانے چِت۔فوج کی جانب سے کوئی بھولی بھٹکی افواہ کانوں میں پڑتی ہے تو ملازمتوں میں توسیع کا خراج پیش کر دیا جاتا ہے ۔جیسے ہندوستان کے آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کو اپنا وظیفہ بڑھانے کے لئے حکومتِ برطانیہ کو درخواست بھیجنی پڑتی تھی ویسے ہی زرداری صاحب حکومت بچانے کے لئے اپنے اتحادیوں سے بھیک مانگنی پڑتی ہے ۔مولانا فضل الرحمٰن نے اِس مجبوری سے خوب فائدہ اُٹھایا لیکن جب سے ق لیگ اتحادی بنی ہے مولانا صاحب کی یہ حالت ہو گئی ہے کہ
پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں
اس عاشقی میں عزتِ سادات بھی گئی

ُاُدھر اقتدار پر مُر مٹنے والے چوہدری صاحبان (قاتل لیگ) نے بھی چوہدری ظہور الٰہی کے خون کا سودا کر کے اقتدار کے حمام میں چھلانگ لگانے میں ایک لحظے کی دیر نہیں کی ۔محترم لکھاری اگرکبھی فُرصت میں چوہدری صاحبان کے ”لُٹو تے پھُٹو“ پارٹی کے بارے میں سابقہ ارشادات پر غور فر مائیں تو اُنہیں یقیناََ اندازہ ہو جائے گا کہ بے غیرت وہ نہیں جو ”قاتل لیگ“ کو گلے لگانے کا طعنہ دیتے ہیں بلکہ وہ ہیں جنہوں نے ایسا کیا اور جنہوں نے اِس اقدام کو مستحسن جانا ۔محترم لکھاری کے نزدیک تو سیاست میں سب چلتا ہے لیکن ہم جیسے بے علم تو سیاست کو عبادت سمجھتے ہیں جس میں منافقت کی کوئی گنجائش نہیں ۔
Prof Riffat Mazhar
About the Author: Prof Riffat Mazhar Read More Articles by Prof Riffat Mazhar: 893 Articles with 642796 views Prof Riffat Mazhar( University of Education Lahore)
Writter & Columnist at
Daily Naibaat/Daily Insaf

" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی ب
.. View More