4 جولائی کو وفاقی کابینہ نے
توہین عدالت کے آئینی ترمیمی بل 2012ءکی منظوری دی۔ 9 جولائی کو قومی
اسمبلی نے اس کی منظوری دی۔ توہین عدالت کی بل کے متن میں کہا گیا ہے کہ جج
کے بارے میں سچا بیان توہین عدالت کے زمرے میں نہیں آئے گا۔ یہ بیان عدالتی
سرگرمیوں کے بارے میں نہیں ہونا چاہیے۔ توہین عدالت کرنے والے شخص کو حراست
میں لینے کا حکم دے سکتی ہے مگر توہین عدالت کرنے والے کو اسی روز ضمانت پر
رہا کرے گی۔بعد میں مقدمہ چلتا ہے تو مزید سزا دی جاسکتی ہے اپیل اور
نظرثانی کی درخواستوں پر فیصلے تک فیصلہ حتمی تصور نہیں ہوگا۔ کسی جج کی
خلاف معاملے کی صورت میں متعلقہ جج خود مقدمہ نہیں سن سکے گا۔توہین عدالت
بل کیمطابق صدر، وزیراعظم، وزرائے اعلی اور وزراءکو سرکاری امور کی انجام
دہی کے حوالے سے جب تک وہ اپنے عہدوں پرہیں، توہین عدالت سے مستثنی قرار
دیا گیاہے۔ عدالتی فیصلوںپرمناسب تبصرہ بھی توہین عدالت میں شمار نہیں ہوگا۔
استثنی رکھنے والوں کی خلاف توہین عدالت کی کاروائی نہیں ہوگی۔ چیف جسٹس
سپریم کورٹ سمیت توہین عدالت کا از خود نوٹس لینے والے ججز مقدمے کی سماعت
کے دوران اس بینچ میں نہیں بیٹھ سکیں گے ۔ جس جج کی توہین کی گئی ہو وہ بھی
توہین عدالت کیس کی سماعت کرنے والے بینچ کا حصہ نہیں ہوگا۔11 جولائی کو
سینٹ نے اس بل کی منظوری دےدی۔ یہ بل بنیادی طور یوسف رضا گیلانی کی نااہلی
کے بعد راجہ پرویز اشرف کو نا اہلی سے بچانے کیلئے لایاگیا۔ کابینہ کی
منظوری کیساتھ ہی اس بل پر پورے ملک اور میڈیا میں بحث شروع ہوگئی۔ قانونی
ماہرین نے اسے آئین کی بنیادی ڈھانچے سے متصادم اور فضول قرار دیا۔اعتزاز
احسن نے کہا کہ مجھ سے بھی مشاورت نہیں کی گئی۔ اسے ایک اور ،، این آر
او،،قرار دے دیا گیا۔ 10 جولائی کو عدالت نے سماعت کیلئے منظور کرتے ہوئے
وفاق پاکستان ، اٹارنی جنرل سمیت سات فریقین کو نوٹس جاری کردئے ۔ مزید
برآں توہین عدالت بل کیخلاف دائر تمام کیسز اکٹھے کردئیے سماعت کیلئے پانچ
رکنی بیچ تشکیل پایا۔
20 جولائی کو سپیکر قومی اسمبلی اور چئیرمین سینیٹ نے اپنے الگ الگ جوابات
میں کہا کہ توہین عدالت کے بل سے پارلیمینٹ کا تعلق نہیں یہ بل حکومت نے
بنایا ہے، قانون سے متعلق معاملہ حکومت اور عدلیہ کا ہے ۔ 23جولائی کو فل
کورٹ بنانے اور مزید مہلت دینے کی درخواست مسترد کردی گئی۔ دوران سماعت
عدالت نے کہا کہ پارلیمنٹ عدلیہ کی آزادی بڑھاسکتی ہے مگر محدود نہیں
کرسکتی ۔۔۔۔ کسی کو مکمل استثنی حاصل نہیں ، قانون کو بچانا پہلا اصول ہے
،توتوہین عدالت قانون میں وہی اضافہ ممکن ہے جسکی آئین اجازت دے، توہین
عدالت کیلئے آرٹیکل 204 سے باہر نہیں نکل سکتے۔
24جولائی کو دوران سماعت عدالت نے کہا کہ راتوں رات قوانین بدلنا درست
نہیں۔۔۔۔ توہین عدالت کا قانون عدلیہ کے اسلحہ خانہ میں ایک مؤثرہتھیار ہے
،آئین کو اپنی مرضی کی مطابق نہیں ڈالا جاسکتا، نیا قانون آئین کے آرٹیکل
63(1)(G) سے متصادم ہے۔۔۔ نئے قانون کے تحت مراعات یافتہ طبقہ کو استثنی
چینے کی کوشش کی گئی ہے۔۔۔ موجودہ قانون کے تحت عوامی عہدہ رکھنے والوں کو
فوجداری مقدمات میں استثنی دیاگیا ہے۔ 25جولائی کو دوران سماعت عدلیہ نے
ریمارکس میں کہا کہ آئین کے آرٹیکل 204کے تحت کسی کو استثنا حاصل نہیں
ہے۔توہین عدالت کا اطلاق ہر شخص پر ہوتا ہے۔۔۔ وزیر اعظم کو استثنا نہیں
دیا تو صدر کو بھی نہیں دیں گے ، کیا امریکہ کے صدر نکسن کو استثنا دیا
گیا۔ امیر اور غریب کیلئے الگ الگ قانون ہو تو یہ چیز تباہی کی طرف لیکر
جائے گی، یہ قانون عام شہریوں کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔
جب وکیل اے کے ڈوگر نے بتایا کہ اپوزیشن نے واک آﺅٹ کیا تھا تو عدلیہ نے
ریمارکس میں کہا کہ کیا اپوزیشن کا واک آﺅٹ مسئلے کا حل ہے؟ ان کو مزاحمت
کرنی چاہیے تھی۔ عوامی نمائندوں کو ووٹر کے حق کا تحفظ کرنا چاہیے ، یہ
ووٹر کے حق سے نا انصافی ہے کہ باہر جاکرکافی پینا شروع کردیں۔۔۔۔۔۔۔ ایسا
رویہ مینڈیٹ سے دھوکہ دہی ہے ۔، کیا کبھی سناکر برطانوی اپوزیشن نے واک آﺅٹ
کیا ؟ اپوزیشن لیڈر چودھری نثار نے عدالتی کمنٹس کا بہت برا مانا اور کہا
کیا ڈنڈے لیکر اسمبلی جاتے ۔ عدالت نے پارلیمنٹ میں بحث کا ریکارڈ بھی طلب
کرلیا ۔
26جولائی کو دوران سماعت عدالت نے کہا کہ پارلیمنٹ کی بحث مقدمے کی تشریح
میں مددگار ثابت ہوگی ۔۔۔۔ عدالت کاکام آئین کے مطابق فیصلے کرنا ہے ، وہ
یہ نہیں دیکھتی کہ اسکے اثرات کیا ہونگے۔۔۔۔۔ کس نے کہہ دیا کہ توہین عدالت
قانون کا لعدم قرار دینے سے آئینی بحران پیدا ہوجائیگا ، کوئی قانون ہاتھ
میں لے گا تو بحران پیدا ہوگا۔ کون کہتا ہے کہ پارلیمینٹ کو چلنے نہیں دیا
جارہا۔ ججوں نے ہمیشہ پارلیمینٹ کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کیا
ہے۔27جولائی کو عدلیہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ خود کو ملک کا مالک
سمجھنے والے منتخب نمائندے دراصل عوام کے خادم ہیں، وہ عوام سے تنخواہ لیتے
ہیں، وہ بھول جاتے ہیں اور سمجھ بیٹھتے ہیں کہ وہ ملک کے مالک ہیں۔۔۔۔۔
پارلیمنٹ میں اچھی تقریریں کی گئیں لیکن توہین عدالت قانون پر بحث کے دوران
آئین کی شقوں کو مدنظر رکھاگیا نہ یہ بتایا گیا کہ اس قانون کے لانے کی کیا
ضرورت پیش آئی ہے اور موجودہ قانون آئین کی کن شقوں سے متصادم ہیں ۔۔۔۔
عدالتی حکم ماننے کی اقدار ہوں تو پھر توہین عدالت کی ضرورت ہی نہیں ہے ،
اس ملک میں یہ رواج بن گیا ہے کہ ہر کام ڈنڈے سے ہی ہوگا۔۔۔
آئین کہتا ہے کہ کوئی شخص توہین عدالت کرے تو اسے سزا ہوگی، اگر کسی بڑے
آدمی کو قانون سے بالاتر قراردے دیا تو دوسرے بھی اسکا تقا ضا کریں گے جس
سے عدالتی حکم کیخلاف ورزی عام ہوجائے گی اور عدالتی فیصلوں کی حیثیت کاغذ
کے ٹکڑے سے زیادہ نہیں رہے گی۔ |