روشنیوں کے شہر کراچی میں موت کا
عفریت رقص جاری ہے۔فائرنگ اور پرتشدد واقعات عروج پر ہے۔ گذشتہ دودن میں
30افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ پولیس کے مطابق جہانگیر روڈ پر نامعلوم افراد کی
فائرنگ سے ایک شخص ، اور لائنز ایریا میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے 2
افرادجاں بحق ہو ئے جبکہ سہراب گوٹھ پر بھی فائرنگ سے ایک شخص ہلاک ہو گیا۔
اس سے قبل اورنگی میں نامعلوم افراد نے فائرنگ سے ایک شخص ہلاک جبکہ ایک
زخمی ہوگیا۔ ماڑی پورمیں فائرنگ سے ایک شخص جاں بحق ہوا۔ کھارادر میں ہوٹل
پر فائرنگ سے تین افراد شدید زخمی ہوئے جن میں سے دو افراد اسپتال میں
زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے. لانڈھی 36 بی میں فائرنگ کرکے ایک شخص
کو قتل کردیاگیا۔ منظور کالونی میں چھریوں کے وار سے 18 سالہ نوجوان کو قتل
کردیا گیا۔ گارڈن میں جھنڈا چوک کے قریب فائرنگ سے 26 سالہ نوجوان کوہلاک
کردیا جس کی شناخت سلمان خان کے نام سے ہوئی۔ کورنگی انڈسٹریل ایریا میں
مرتضیٰ چورنگی کے قریب نامعلوم افراد کی فائرنگ سے ایک شخص ہلاک ہوا۔ بلدیہ
ٹاوین میں فائرنگ سے زخمی ہونے والا ایم کیو ایم کا کارکن رفیق دوران علاج
اسپتال میں چل بسا۔ اس سے قبل صبح کوملیر کے علاقے میمن گوٹھ میں فائرنگ سے
ایک شخص ہلاک جبکہ تین افراد زخمی ہوئے۔ لیاری میں احمد شاہ بخاری روڈ سے
ایک شخص کی تشدد زدہ لاش ملی، مقتول کو گولیاں مارکرقتل کیا گیا۔
کراچی میں قتل وغارت گری کا یہ منظر نامہ صرف چوبیس گھنٹوں کا ہے۔ گزشتہ
چار سال سے یہ جتنی لاشیں گرائی گئیں ان کا شمار مشکل ہے۔ ہر روز دل دہلا
دینے والے واقعات منظر عام پر آتے ہیں۔جن کی وجہ سے شہر میں تجارتی
سرگرمیاں ماند پڑ چکی ہیں ۔ حتیٰ کہ لوگوں کو کھانے پینے کی اشیاءکے حصول
میں شدید مشکلات پیش آرہی ہیں۔ سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں افراد بدامنی ،
ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کے بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ جن زیادہ تر غریب اور مزدوری
کرنے والے تھے۔ یہ کشیدگی اب بھی جاری ہے۔پولیس مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے۔
سیاسی بنیاد پر ہونے والی بھرتیوں نے اسے مکمل طور پر زنگ آلوداور ناکارہ
بنا ڈالا ہے۔تنخواہ وہ حکومت پاکستان سے لیتے ہیں مگر ڈیوٹی سیاسی
وابستگیوں کے لحاظ سے کررہے ہیں۔ سیاسی جماعتیں انہیں اپنے اپنے مفادات کے
لئے استعمال کررہی ہیں۔ وہ انہیں سیاسی مخالفین کے گرد گھیرا تنگ کرنے اور
اپنے حلیفوں کو آزاد کروانے کے لئے استعمال کررہی ہیں۔ ان حالات میں کراچی
میں امن وامان کے قیام کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی کے
شہری اور حب الوطن حلقے پولیس کی کارکردگی سے مایوس نظر آتے ہیں۔ کراچی کو
چونکہ پاکستان کی معاشی ریڑھ کی ہڈی کہا جاتا ہے لہٰذا وہاں سیاسی پارٹیوں
کے درمیان ہونے والی رسہ کشی کا خمیازہ پورے پاکستان کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔
کاروبارتو اب دور کی بات اس شہر کے باسیوں کو اب جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔
شہر کے گلے محلے میدان جنگ کا منظر پیش کررہے ہیں۔ معصوم بچے تو فائرنگ کی
مسلسل گونج اور آگ اور خون کے اس گھناﺅنے کھیل میں نفسیاتی مریض بنتے جارہے
ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب معصوم شہریوں کے خون سے ہولی نہ کھیلی گئی
ہو۔ لاقانونیت انتہاءکو پہنچ چکی ہے۔ بھتہ خوری، بدمعاشی اور اسلحہ بردار
عناصر کھلے عام گھومتے پھرتے ہیں ۔ اس صورتحال میں قانون نافذ کرنے والے
ادارے اس لئے ناکام نظر آتے ہیں۔کیونکہ شر پسند عناصر کو سیاسی پشت پناہی
کی موجودگی میں کسی کا ڈراور خوف نہیں رہا۔گزشتہ برس جب کراچی کی تین مرکزی
پارٹیوں ایم کیو ایم، اے این پی اور پاکستان پیپلز پارٹی کے نمائندوں نے
شہر میں قیام امن کے لئے مشترکہ حکمت عملی بنائی اور جس طرح کراچی کے مختلف
علاقوں کو وال چاکنگ اور مختلف پارٹیوں کے پرچموں سے نجات دلائی گئی اس سے
تو لگتا تھا کہ اب کراچی کے عوام شاید سکھ کا سانس لے سکیں۔ یہ اس لحاظ سے
بھی اچھی روایت تھی کہ مذاکرات ہی بالآخر کسی مسئلے کے حل کی کنجی ہوتے ہیں
مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ گزشتہ دوماہ میں جو غنڈہ گردی ہوئی اور قتل و
غارت کا بازار گرم ہوا ، اس سے تو یہی لگتا ہے کہ وہاں کے حالات ٹھیک ہونے
والے نہیں۔ کم ازکم سیاسی جماعتیں جب تک نیک نیتی کا مظاہرہ نہیں کریں گی
اس وقت امن کا خواب ادھورا ہی رہے گا۔
اگر حکومت واقعی کراچی میں قیام امن کے لئے مخلص ہے تو اسے تمام سیاسی
مفادات سے بالا تر ہوکر فیصلے کرنا ہوں گے۔ اپنے کرسیوں کو بچانے کے چکر
میں زرداری کہاں تک سیاسی مصلحت سے کام لیتے رہیں گے۔ کراچی پاکستان کا شہر
ہے اور جو لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اس شہر پر صرف ان کا حق ہے تو وہ سرا
سر غلطی پر ہیں۔ کراچی میں ہر پاکستانی کو کاروبار، رہائش اور آبادکاری کا
حق ہے۔ اگر کوئی سیاسی جماعت ڈنڈے کے زور پر اپنی بات منوانے پر تلی ہے تو
یہ غیر فطری عمل ہے جوعوام کے دلوں میں نفرت کے سوا کچھ پید ا نہیں کرے
گا۔حکومت ایک سیاسی جماعت کے ہاتھوں یرغمال بنی نظر آتی ہے۔کیا حکومت کو
زیب دیتا ہے کہ وہ قتل وغارت کے ذمہ داروں کو فراموش کرکے کراچی کے نہتے
شہریوں کو پھر ان درندوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دے؟ |