وفاقی وزیر امور کشمیر میاں
منظور وٹو نے آزاد کشمیر کے عبوری آئین 1974ءمیں مختلف ترامیم کے حوالے سے
آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتوں کا ایک اجلاس 30اگست کا اپنی سرکاری رہائش گاہ
منسٹرز کالونی اسلام آباد میں طلب کیا ہے۔میاں منظور وٹو نے انچارج وفاقی
وزیر کی حیثیت سے آزاد کشمیر کی سیاسی” آل پارٹیز کانفرنس“ طلب کرتے ہوئے
سیاسی جماعتوں کے سربراہان کو مدعو کیا ہے۔عمومی تاثر یہی ہے کہ آزاد جموں
و کشمیر کونسل کی سیٹوں میں اضافے کے لئے آزاد کشمیر کے آئین میں ترامیم کا
ڈول ڈالا گیا ہے۔آزاد کشمیر کے کئی سیاسی اور عوامی حلقوں کی طرف سے کشمیر
کونسل کے طریقہ کار اور اختیارات سے متعلق اعتراضات سامنے آتے رہتے ہیں۔
اسی طرح آزاد کشمیر کے اعلی عہدوں پر تقرری کے اختیارت بھی وزیر اعظم
پاکستان سے لینے کا مطالبہ بھی ہے اورچیف الیکشن کمشنر اور چیف جسٹس سپریم
و ہائیکورٹ کی تقرری کے معاملے میں پاکستان میں رائج نیا طریقہ کار اپنانے
کا اصولی مطالبہ بھی شامل ہے۔ واقفان حال کے مطابق کشمیر کونسل کی سیٹوں
میں اضافہ آزاد کشمیر کی حکمران پیپلز پارٹی کے امور کی نگران فریال
تالپوراور وزیر امور کشمیر میاں منظور وٹو کی طرف سے گزشتہ عرصہ میں کئے
گئے” سیاسی وعدوں“ کے تناظر میں کیا جا رہا ہے۔کشمیر کونسل کے الیکشن میں
پارٹی ٹکٹ کے لئے جس طرح بڑی رقومات دی اور لی جاتی ہیں اس سے ظاہر ہے کہ
کشمیر کونسل کی سیٹوں میں اضافے سے اس طرح کے ”ذرائع آمدن“ میں بھی اضافہ
ہو گا اور مزید افراد کو ایڈ جسٹ کیا جا سکے گا۔کئی حلقے تو کشمیر کونسل کے
خاتمے کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں تا کہ آزاد کشمیر حکومت کو حقیقی طور پر
بااختیار اور ذمہ داربنایا جا سکے۔
آزاد کشمیر کے سینئر وزیر چودھری یاسین کا کہنا ہے کہ آزاد کشمیر کے
آئین1974ءمیں ترامیم اپوزیشن کے مطالبے کے مطابق جامع ہوں گی اور کشمیر
پراپرٹی کا معاملہ بھی ان مجوزہ ترامیم میں شامل ہے۔پیپلز پارٹی کی حکومت
نے ترامیم کے حوالے سے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے شطرنج کے مہرے سجا دیئے
ہیں ،اب یہ آزاد کشمیر کی اپوزیشن جماعتوں مسلم لیگ(ن) ،مسلم کانفرنس ،
جماعت اسلامی، آزاد کشمیر پیپلز پارٹی(خالد ابراہیم)لبریشن لیگ اور لبریشن
فرنٹ کی ذمہ داری ہے کہ وہ آزاد کشمیر حکومت کو اس کے قیام کے مقاصد کی
روشنی میں با اختیار اور ذمہ دار بنانے کے لئے مختلف شعبوں سے متعلق موثر
آئینی ترامیم پیش کریں اور پیپلز پارٹی کی حکومت کو یہ موقع نہ دیا جائے کہ
وہ بنیادی اہمیت کے حامل امور کو نظر انداز کر کے اپنی منشاءکے مطابق چند
آئینی ترامیم و مراعات میں اضافے کے ’لالی پاپ‘ سے بجٹ اجلاس کی طرح
اپوزیشن کو” بے بس“ کر کے اپنے ٹارگٹ حاصل کر لیں۔مسلم لیگ (ن) کے سیکرٹری
جنرل شاہ غلا قادر نے کہا ہے کہ اس اجلاس میں پہلے تو پیپلز پارٹی حکومت کو
سنا جائے گا کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں اور ہماری طرف سے آزاد کشمیر حکومت
کو مکمل با اختیار بنانے سے متعلق آئینی ترامیم پیش کی جائیں گی۔انہوں نے
اس بات پر تحفظات کا اظہار کیا کہ وزیر امور کشمیر کی طرف سے بلائے گئے اس
اجلاس میں کسی جماعت کے کئی افراد کو بلایا گیا ہے،کسی جماعت کی طرف سے دو
یاتین اور کسی جماعت کے صرف ایک شخص کو مدعو کیا گیا ہے۔
ان آئینی ترامیم کے ان مشاورتی اجلاسوں میں یہ اہم بات بھی ملحوظ خاص رہنی
چاہئے کہ آزاد کشمیر کے آئینی حقوق کی صورتحال کی بہتری کے ساتھ ساتھ آزاد
کشمیر کے مالیاتی حقوق کا تحفظ بھی اشد ضروری ہے۔ آزاد کشمیر حکومت کو
درپیش مالی بحران ایک معمول بن چکا ہے جس میں حکومتی عہدیداران ،افسران و
اہلکاران کی مراعات و تنخواہیں تو ادا ہو جاتی ہیں لیکن ریاستی عوام شدید
مشکلات سے دوچار ہیں اور اس مالی بحران سے معمول کے ترقیاتی کام بھی متاثر
ہو رہے ہیں۔وفاقی حکومت آزاد کشمیر کو پانی و بجلی کی رائلٹی دیتی
نہیں،آزاد کشمیر حکومت کو معمول کے مطابق طے شدہ فنڈز فراہم نہیں کرتی،اس
صورتحال میں یہ توقع کیسے کی جا سکتی ہے کہ آزاد کشمیر کے لئے ایسی آئینی
ترامیم کی جائیں گی جس سے آزاد کشمیر حکومت کو اپنے مکمل آئینی،حکومتی اور
انتظامی اختیارات حاصل ہو جائیں گے؟آزاد کشمیر کی اپوزیشن جماعتوں کے لئے
جہاں آئینی ترامیم کا یہ مرحلہ ایک بڑا امتحان ہے وہاں حکمران پیپلز پارٹی
کے لئے بھی ناگزیر ہے کہ وہ آزاد کشمیر حکومت کو با اختیار و ذمہ دار بنانے
کے حوالے سے اپنا اخلاص ظاہر کرے۔ |