رمضان المبارک میں ہم نے کیا
کھویا، کیا پایا؟ہر فرد اپنا احتساب کرے
روزے کی فرضیت کا مقصد امت محمدیہ میںتقویٰ وپرہیزگاری پیدا کرنا تھا،اللہ
رب العزت کو ہماری بھوک اور پیاس سے کوئی غرض وغایت نہیں،رمضان المبارک
احتساب وتربیت کا مہینہ تھا،اس مہینے میں شیطانوں کو قید کردیاجاتاہے تاکہ
نیکیاں کرنے میں آسانیاں ہو،نفل کے ثواب کو فرض کے برابر اور فرض کے ثواب
کو ستر گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔مگر افسوس!!ان گنت لوگوں کی زندگی میں یہ
مہینہ ہر سال کی طرح آیااور آکر بس گزر گیا،ان کی زندگی میں کوئی انقلاب
رونما نہیں ہوا،شجرتقوی کی آبیاری ان سے نہ ہوسکی اور انہوں نے اسی پرانی
روش کو اختیار کرلیاجس پر وہ ماہ صیام سے پہلے تھے۔بارگاہ خداوندی میںماہ
رمضان المبارک کی قبولیت کوجانچنے کے لیے بڑا آسان نسخہ ہے۔جو شخص یہ جاننا
چاہتا ہو کہ رب تعالیٰ کی بارگاہ میں اس کی مکمل ماہ کی عبادتیں وریاضتیں
مقبول ہوئی یا رد کردی گئی تو اسے دیکھنا چاہئے کہ کیاوہ اسی طرح احکام
اسلام پر عمل کررہا ہے جس طرح وہ ماہ رمضان میں تھا،اگر ایسا ہے تو مبارک
ہوکہ مولیٰ نے ٹوٹی پھوٹی عبادت قبول کرلی تبھی تو دائمی عمل کی توفیق عطا
فرمائی اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہے تو اسے بارگاہ صمدیت میں دعا کرنا
چاہئے کہ ایک بار اسے پھرماہ رمضان نصیب ہو۔اکثر لوگ یہ گمان کرتے ہیکہ ماہ
رمضان المبارک امتحان کا مہینہ ہے،بے شک ہے مگر اصل امتحان تو مبارک مہینے
کے گزرنے کے بعد ہوناہے،ماہ مقدس میں تو ہم فتنہ وشر سے محفوظ رہتے ہیں مگر
ہلال شوال کے نظر آتے ہی شیاطین آزاد ہوجاتے ہیں،اب اصل امتحان ہونا ہے کہ
ایک مہینے کی تربیت کا کیا نتیجہ حاصل ہوتا ہے۔نیکیوں پر ہم اسی طرح قائم
رہتے ہے یا پھر شیطان ہمیں مات دے دیتا ہے۔ماہ رمضان المبارک میں ہم بہت
کچھ حاصل کرسکتے ہے مگر ان لوگوں نے صرف کھویا ہے جنہوں نے ماہ مبارک سے
کچھ تربیت حاصل نہ کی،احکام الٰہی اور سنتوں پر عمل کرنے کے جذبے کو
بیدارنہیں کیا،شریعت اسلامیہ کے مطابق زندگی گزارنے کا عہد نہیں کیا۔اللہ
کے حبیب ﷺ نے فرمایا:کتنا کم نصیب ہے وہ شخص جو ماہ رمضان کو پائے اور
بارگاہ صمدیت سے مغفرت کا پروانہ حاصل نہ کرسکے۔ |