ہر طرف سے موجودہ حکومت پر
بدعنوانی، کرپشن اور نہ جانے کیا کیا الزامات لگائے جا رہے ہیں ۔ یہ سب کچھ
کتنا سچ ہے کہ تو ایک دوسرا موضوع بن سکتا ہے فی الحال جو موضوعِ بحث ہے اس
پر آتے ہیں۔ حکومت اور عدلیہ دونوں نے اپنی اپنی پتہ نہیں کہاں کہاں سے
نورتنوں کو جمع کر لیا ہے جو پتہ نہیں کیسے کیسے مشوروں سے دونوں فریق کو
نواز رہے ہیں۔ اور حالات و واقعات ابھی تک جوں کہ توں ہی ہیں۔ ملک کے کسی
کونے میں بھی امن و امان اور قانون نام کی کوئی چیز دیکھنے میں نہیں آ رہی
ہے۔ ہر شہر ، ہر گلی، ہر محلہ بلکہ پورے ملک میں قاتل‘ ڈاکو ‘ اور پتہ نہیں
کون کون سے لوگوں کا راج ہی نظر آتا ہے مگر ہماری حکومت کہیں نظر نہیں آتی۔
اگر آتی ہے تو پیٹرول، ڈیزل، گیس اور روز مرّہ کی ضروری اشیاءکی قیمتوں میں
اضافہ کرتی نظر آتی ہے۔
پہلے مہینوں میں پیٹرول ‘ ڈیزل ‘ گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا تھا ۔ پھر
پندرہ دنوں میں اور اب تو ہر ہفتے اس پر اضافہ کرکے عوام کو زندہ درگور کیا
جا رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ دن دور نہیں جب روزآنہ کی بنیاد پر اضافہ
کیا جانے لگے گا۔
ذکر کرنا اور اُس معاملے کو اجاگر کرنا ہم کالمنسٹ کا تو یہی کام ہے مگر وہ
کہاں ہیں جن کے فعل سے ان سب معاملوں کا سدِّباب ہوگا۔ کوئی نظر کیوں نہیں
آ رہا ہے بھائی، جبھی تو کہتے ہیں کہ” اتنا سنّاٹا کیوں ہے بھائی“
عوام بے چاری ناموافق حالات میں سیاسی کیچڑ میں کودنے کو ہرگز تیار نہیں
ہیں اور ہمارے سیاست کے کھلاڑی اس کیچڑ کو اور بھی گندہ کرنے کی تگ و دو
میں جُٹے ہوئے ہیں۔ پتہ نہیں ہماری اس عوام کا کیا ہونے والا ہے۔مخصوص دنوں
میں قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کے ٹوپی اور شیروانی زیب تن کر لینے سے اس
ملک کے حالات نہیں بدلنے والے ہیں اس کے لئے خدارا عملی اقدامات کریں تاکہ
غریب عوام کو اس کا ریزلٹ نظر آئے ۔ اور انہیں جینے کا حق میسر آ سکے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ سب کچھ ایسے ہی چلتا رہا تو شیروانی تو کُجا شلوار قمیض
کو بھی داغدار ہونے سے کوئی نہیں بچا پائے گا۔ کیونکہ ہماری ”سیاست” اور
”داغ “ میں وہی رشتہ ہے جو عاشق و معشوق کے درمیان ہوا کرتا ہے۔ خواب
دیکھنا اور دکھانا گو کہ بُرا نہیں مگر جب کوئی بعید از عقل خوابوں کی
شہزادی سے بیاہ رچانے کا اعلان کرے تو بدہضمی فطری عمل ہی کہلائے گی۔ اس
لئے جو بھی اعلانات ہوں وہ ایسے ہوں جس پر عمل درآمد بھی ہو سکے۔ ہر جماعت
کو یہی کہتے سنا گیا ہے کہ وہ حکومت میں آکر پاکستان کو ترقی کی شاہراہ پر
گامزن کر دیں گے۔ اور ملک سے کرپشن ، لوٹ مار، قتل و غارت گری کا باب ہمیشہ
کیلئے بند کر دیں گے مگر جب حکومت کا تاج ان کے ماتھے پر ہماری غریب، شریف
عوام سجا دیتے ہیں تو وہ سب کچھ بھول کر اُسی ڈگر پر چلنے لگتے ہیں جو ان
کا اپنا ڈگر ہوتا ہے اور پھر کہتے یہی پائے جاتے ہیں کہ ہمیں تو عوام نے
ووٹ دیا ہے۔ بھائی عوام نے تو ووٹ دیا ہے مگر کس لئے؟ اس لئے کہ ان کا بھلا
کیا جائے۔ انہیں ترقی دی جائے۔ ہمارے کسانوں کو ترقی دی جائے۔ مگر عموماً
بلکہ اب تک ایسا ہوا نہیں ہے۔
سب سے اہم مسئلہ تو اس وقت بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا ہے اسے حل کیا جائے تاکہ
عوام کی پریشانیاں دور ہو سکیں، صرف یہ معاملہ ہی نہیں بلکہ مہنگی بجلی
عوام کی دسترس سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ لوڈ شیڈنگ اپنی جگہ مگر بِل مسلسل
سپلائی سے بھی زیادہ یہ کہاں کا انصاف ہے۔ بجلی کے دفتر جاﺅ تو وہاں نِت
نئی پریشانیاں عوام لیکر کھڑکیوں میں کھڑے نظر آئیں گے۔ مگر اس کا سدِّباب
ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ سب آخر میں لعن طعن کرتے ہوئے اپنی اپنی راہ لیتے
ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس معاملے پر توجہ کی خصوصی ضرورت ہے۔
مہنگائی کا جِن جس طرح بے قابو ہو رہا ہے اس پر بھی پہلی ترجیح کے ساتھ کمی
کی ضرورت ہے۔ گیس‘ پیٹرول ‘ ڈیزل‘ اور اسی طرح کی دوسری چیزوں میں بھی فوری
تخفیف کی ضرورت ہے۔
تعلیم عام آدمی سے کوسوں دور ہوتا نظر آ رہا ہے۔ کیا ہمارے یہاں ایسے لوگ
موجود نہیں ہیں جو اس شعبہ میں اپنی خدمات کے ذریعے اسے داغدار ہونے سے بچا
سکیں۔ساڑھے چار سال کا عرصہ بیت گیا مگر آج تک بلدیاتی انتخابات نہیں ہوئے
اور یہ جھٹکا بھی عوام ہی برداشت کر رہے ہیں کیونکہ بلدیات سے منسلک تمام
کام روڈ و گلیوں کی تعمیر، گٹر کا نظام، پانی کا نظام، اور بے شمار ترقیاتی
کاموں کے علاوہ جو چھوٹے چھوٹے دیگر کام عوام الناس کا ہوتا ہے وہ بلدیاتی
الیکشن نہ ہونے کی وجہ سے کھٹائی میں پڑے ہیں۔
پچھلے دنوں CNBCپر شناختی کارڈ کے حوالے سے ایک تفصیلی پروگرام دیکھنے کا
اتفاق ہوا اور شاید آپ لوگوں نے بھی دیکھا ہوگا کہ یہاں لازمی جُز شناختی
کارڈ بنوانے کیلئے بھی عوام کو کتنی تکلیفوں کا سامنا ہے۔ اسی طرح پاسپورٹ
کا معاملہ بھی اسی طرح کے معاملات سے دوچار ہے۔
یہ تو چند ضروری باتیں تھیں جو آپ کے گوش گذار کی گئیں پتہ نہیں اور کتنے
مسائل ہیں اور کس کس طرح کے مسائل ہیں جو ہماری عوام جھیل رہی ہے۔ خدارا ان
معاملات پر توجہ خاص کیجئے ۔
آئے دن ہونے والے کرپشن اور گھوٹالوں کے انکشافات، ریاستی و ملکی رہنماﺅں
کے ترقی کے دعوﺅں اور پاکستان کے بڑے شہروں کے علاوہ چھوٹے شہروں بشمول
چھوٹے بڑے گاﺅں میں اب روٹی ‘ کپڑا ‘ اور مکان کا ایشو کم تر ہو تا جا رہا
ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ نِت نئے ڈئزائن کے موبائل فونز آج کل شہر تو شہر ہر
گاﺅں کے ہر فرد کے ہاتھوں کی زینت ہے۔ اچھا ہے ٹیکنالوجی کا زمانہ ہے اور
ٹیکنالوجی استعمال کرنا ان کا حق ہے مگر اس کے برعکس وہ تمام مسائل جس کو
ہم (مسائلستان ) کہہ سکتے ہیں اس کا حل بے حد ضرور ی ہے۔
مگر ہمارے ارباب تو ارباب ‘ ادارے بھی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی جستجو
میں اپنا دم خم استعمال کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں ۔ کوئی وزیر اعظم کے پیچھے
پڑا ہے تو کوئی وزراءکے تگ و دُو میں لگا ہے اور یہ تمام ارباب عدلیہ سے
ٹھان لینے کی جستجو میں جہاں تک ممکن ہو سکتا ہے کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اب ان
کو کون سمجھائے جناب! کہ دنیا بھر کے ملکوں میں ووٹوں سے منتخب ہوئے لوگ
اپنے عوام کو سہولتیں بہم پہنچانے میں اپنا ٹرم لگا دیتے ہیں اور بیرونِ
دنیا میں آپ کو ترقی، خوشحالی اور وہ سب کچھ نظر آتا ہے جو عوام کو چاہیئے
‘ مگر ہمارے یہاں بالکل اس کا الٹ ہے۔ اور عوام میں اتنا سنّاٹا چھایا ہوا
ہے کہ بس ! کیونکہ انہیں تو صرف دو وقت کی دال روٹی کی ہی فکر لگی ہے کہ
کیسے پورا کیا جائے۔ اور ارباب سب اچھا ہے کہ ساتھ ساتھ ‘ چین کی بانسری
بجانے میں مگن ہیں۔
اللہ تبارک تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم سب کو ایک دوسرے کے ساتھ مل کر رہنے ‘
اور حکمرانوں کو عوام کی فلاح و بہبود ، ترقی، خوشحالی اور دوسرے تمام
کاموں کو کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ میں یہاں پر فاروق قیصر صاحب جنہیں ہم
اور آپ انکل سرگم کے نام سے بخوبی جانتے ہیں ان کے چند اشعار ضرور شامل
کرنا چاہوں گاکیونکہ اس مضمون کی صحیح ترجمانی کرنے کیلئے یہ اشعار ضروری
ہیں۔اور پڑھنے کیلئے یہ اشعار کانوں کو بھلے بھی لگیں گے۔
یہ وطن تمہارا ہے ، تم ہو سیاستداں اس کے
جاگیر تمہاری ہے، تم ہو پاسباں اس کے
اس زمیں کے نقشے پہ ، قبضہ بھی تمہارا ہے
جو بینک نے معاف کیا قرضہ بھی تمہارا ہے
یہ عوام تو بے بس ہیں، تم غلام انہیں سمجھو
جاگیر عطا کی ہے، انگریز نے یہ تم کو
اُس طرف خوشحالی ہے تم ہو درمیاں اس کے |