گزشتہ روز ایک خبر نظر سے گزری
کہ مظفر آباد پولیس نے گوجرہ میں بدکاری کے اڈے پر چھاپہ مارتے ہوئے ایک
خاتون سمیت چار افراد کو گرفتار کیا ہے۔اخبار میں ایک شخص کے قبضے سے برآمد
سرکاری کارڈ کا عکس بھی شائع کیا گیا جس میں ” سرسبز و ہنر مندکشمیر“ کا
جملہ اور مونو گرام نمایاں تھا۔بنانے والوں نے تو پاکستان اور آزاد کشمیر
اعلی قومی مقاصد کے لئے بنایا تھا لیکن استعمال اس کے بالکل برعکس ہو رہا
ہے۔ اسی طرح” سرسبز و ہنر مند کشمیر“ کا عزم و نعرہ نہ جانے کس لئے تھا
لیکن ”ذہین دماغ“ ایسی ہنرمندیوں کا مظاہرہ کرتے چلے آ رہے ہیں کہ آزاد
کشمیر خون شہیداں سے تو نہیں لیکن پھر بھی ’لال و لال‘ نظر آتا ہے۔ باکمال
لوگوں نے ’گاڑی کو پانی سے چلانے کی طرح یہ بھی ثابت کر دیا کہ ’چارہ‘ سبز
ہی نہیں لال بھی ہوتا ہے۔ہمارا مقصدکسی شخصیت یا شخصیات کی خفیہ یا نیم
خفیہ سرگرمیاں بتاتے ہوئے پردہ اٹھانا نہیں بلکہ اس حوالے سے عمومی صورتحال
عوام کو بتانا ہے تا کہ شریف ، معصوم شہری ”کچی آنکھوں نہ مارے جائیں“۔
تقریبا بیس پچیس سال پہلے ایک کتاب نظر سے گزری تھی جس میں پاکستان کے
سیاسی سیکس سکینڈل جمع کر کے شائع کئے گئے تھے۔ اس کتا ب میں آزاد کشمیر کا
حصہ بھی حسب استطاعت شامل تھا۔اس حوالے سے آج کے آزاد کشمیر پر نظر ڈالیں
تو ہمیں اس شعبے میں باقی شعبوں سے کہیں زیادہ ترقی نظر آتی ہے۔آزاد کشمیر
کے متعدد سیاستدان اس طرح کی سرگرمیوں کے حوالے سے نہایت تجربہ رکھتے
ہیں۔ایسے میں بعض اوقات سیاستدانوں کی طرف سے ” تو ننگا ، تو ننگا“ کی غزل
اور جواب آں غزل بھی سنائی دیتی ہے اور ایک دوسرے کے بھید اشاروں میں لوگوں
کو بتائے جاتے ہیں۔
اسلام آباد کے ایک سافٹ ویئر ہاﺅس میں سرکاری افسران،سیاست دانوں ،سیاست
دانوں کے فرزندان کی خدمت کے لئے ”نسوانی ہارڈ ویئر“ کی سہولت بھی سالہا
سال سے تحریک آزادی کشمیر کے تناظر میں مصروف خدمت ہے۔میر پور کی کئی
کوٹھیوں میں سرکاری افسران،اہلکاران کے علاوہ اعلی سیاسی شخصیات کی خدمت کے
لئے جدید ”نسوانی ہارڈ ویئر سسٹم“ کام کر رہے ہیں۔ دور جدید کے تقاضوں کے
طور پر ”سرسبز و ہنر مند کشمیر“ کی یہ’ طرح ‘مظفر آباد اور آزاد کشمیر کے
دیگر شہروں میں بھی پھیلتی جا رہی ہے۔آزاد کشمیر میںماضی قریب کی ایک ”نیک
نام ،نظریاتی جماعت“کی حکومت کی کابینہ بنی تو اسلام آباد میں” شریف و
نظریاتی“ وزراءنے سر پہ جام و بوتلیں رکھ کر ڈانس کیا۔
سالہا سال سے پاکستان کی اعلی سوسائٹی میں امارت کا اندازہ اس بات سے لگایا
جاتا ہے کہ اس کے گھر میں کتنا بڑا ’بار ‘ ہے۔”نسوانی ہارڈ ویئر“ کے ذریعے
اعلی سطح پہ کام کرانے کاعمومی موثر طریقہ بن چکا ہے۔پاکستان کے ہر شعبے
میں انحطاط پذیری کے ماحول میں ’اس‘ شعبے میں” دن دگنی رات چوگنی “ ترقی
ہوتی جا رہی ہے۔سابق حکمران پرویز مشرف کے ایک ’کولیگ‘ کا کہنا ہے کہ مشرف
بلا کے شراب نوش ہیں(چلو یہ ذاتی معاملہ ہے) اور ”کی روم گیم “کی سنسنی خیز
ی سے لطف اندوز ہونے کے بھی شوقین ہیں۔مشرف کے اس سابقہ ’کولیگ‘ نے ’ ’کی
روم گیم‘ ‘کھیلے جانے کے جس مقام کا نام لیا ،اس بارے میں سوچ کے بھی پر
جلتے ہیں۔
ایسی سرگرمیوں میں ملوث سیاستدان وغیرہ راز داری کا پورا پورا خیال رکھتے
ہیںلیکن” پائل میں گیت ہیں چھم چھم کے ،تو لاکھ چلے رے گوری تھم تھم کے ‘ ‘
کی طرح ا س طرح کے معاملے کھل ہی جاتے ہیں۔پاکستان کے مقابلے میں آزاد
کشمیر اس شعبے میں ابھی بہت پسماندہ ہے لیکن اگر آبادی کی شرح سے دیکھیں تو
تناسب بہت اچھا نظر آتا ہے۔آزاد کشمیر کی اس سرسبزی و ہنر مندی میں سینئر
لوگوں سمیت جونیئر بھی اپنے کمالات فن پوری دلجمعی سے ادا کرتے نظر آتے
ہیں۔بقول شاعر ” کہاں تک سنوں گے کہاں تک سناﺅں ہزاروں ہیں شکوے کہاں تک
بتاﺅں“۔ اوربقول الطاف حسین ” پردے میں رہنے دو پردہ نہ اٹھاﺅں پردہ جو اٹھ
گیا تو بھید کھل جائے گا“ ۔(اللہ میری توبہ ، اس لئے نہیں لکھا کہ یہ کام
قارئین پہ چھوڑ دیا ہے)۔ |