نمستے

یہ عیدالفطر کا دن تھا میں اپنی بیوی اور ایک ڈیڑھ سالہ بیٹی کے ساتھ اپنے دوست روشن سے ملنے کے لئے اس کے گھر کی طرف روانہ ہوا روشن سے میری جان پہچان پچھلے کوئی دو اڑھائی ماہ سے ہے میں دبئی جس کمپنی میں پچھلے دس سال سے جاب کر رہا ہوں روشن نے اسی کپمنی میں چند ماہ پہلے ہی بطور اکا ﺅنٹنٹ کام شروع کیاہے جبکہ دبئی میں وہ پچھلے کوئی چار پانچ سال سے رہ رہا ہے اُسکا تعلق پاکستان سے ہے اور میرا بھی اسی لئے بہت جلد ہماری آپس میں دوستی ہو گئی روشن کے اصرار پر ہی آج میں اپنی فیملی کے ساتھ لنچ کے لئے اس کی طر ف جارہا تھا جب ہم بلڈنگ کے اُس فلور پر پہنچے جہاں روشن رہتا ہے تو وہاں ہم یہ دیکھ کر حیران ہوئے کہ اس فلور کے ہر ایک دروازے پر ہندوں کے ایک مخصوص انداز والی پھولوں کی جال سی بنی ہوئی تھی روشن کا فلیٹ نمبر 105تھا لیکن اس کے دروازے پر بھی اسی طرح پھولوں کی جال موجود تھی ےہ سب کچھ دیکھ کرمیری بیوی کہنے لگی شاید ہم غلط ایڈریس پر آگئے ہیں یہ سارے تو ہندﺅں کے فلیٹ لگ رہے ہیں اور کہیں تمہار دوست بھی ہندو تو نہیں ؟ بیوی کی بات سُن کر میں بھی اسی سوچ میں پڑگیا کہ کہیں روشن ہندو تو نہیں ہے کیونکہ میری اس سے کبھی اس بارے میں کوئی بات نہیں ہوئی تھی یہی سوچتے ہوئے میں نے اپنی جیب سے ایڈریس نکالا اور فلیٹ نمبر چیک کیا جو بالکل یہی تھا مزید کنفرم کرنے کے لئے میں نے bellبجا دی جب دروازہ کھلا تو سامنے میرا دوست روشن ہی کھڑا ہوا نظر آیا وہ ہمیں دیکھ کر آگے بڑھا پہلے مجھے عید ملا اور پھر میری بیوی کو سلام کیا اور اندر آنے کے لئے ویلکم کہا ہم ڈرائنگ روم میں پڑے ایک صوفے پر بیٹھ گئے ، تھوڑی ہی دیر میں روشن کی بیوی پینے کے لئے کولڈ ڈرنک لیئے ڈرائنگ رو م میں داخل ہوئی مجھے اور میری بیوی کو اسلام علکیم کہا اور کولڈ ڈرنک ہمارے سامنے پیش کیا پھرجاکر روشن کے ساتھ صوفے کے ایک کونے میں بیٹھ گئی ۔روشن اور اس کی بیوی کے منہ سے اسلام علکیم سنتے ہی ہمارے اندر ہندو مسلم کی جو کھچڑی پک رہی تھی اور دل ہی دل میں جو شک اور وسوسے پیدا ہوگئے تھے وہ تمام شکوک دور ہوگئے میں نے اپنے سامنے پڑا گلاس پینے کے لئے لبوں سے لگا یا ابھی ایک گھونٹ بھی میرے گلے سے نیچے نہیں اُ ترا تھا کہ روشن کی بیوی نے اپنی بیٹی کو آواز لگائی ! فے بیٹی باہر آﺅ دیکھو انکل اور آنٹی آئے ہیں۔۔پھر دوسرے کمرے سے آواز آئی بس ایک منٹ ممی میں ابھی بھگوان رام کی پوجا کر کے آتی ہوں بس پھر یہ الفاظ سننے تھے کہ پانی کا وہ گھونٹ میرے حلق سے نیچے نہ اتر سکا اور میں زور زور سے کھانسنے لگا اور میری بیوی نے بڑی حیرت سے میری طرف دیکھتے ہوئے پینے کے لئے اٹھایا ہوا گلاس واپس میز پر رکھ دیاوہ شاید مجھے کچھ کھری کھری سُنانا چاہتی تھی لیکن موقع کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے بچاری خاموش رہی۔ جب روشن کی بیٹی کمرے سے باہر آئی تو اس کے ہاتھ میں پوجا کرنے والی تھالی تھی جو بالکل ویسے ہی تھی جیسے ہم اکثر انڈین فلموں میں دیکھتے ہیں وہ سیدھی اپنی ماں کے پاس آئی اور پوجا کی تھالی اُس کے سامنے کرکے کہا مما بھگوان جی کا پرشاد لے لیں اب ماں نے تھالی سے کچھ اٹھایا اور منہ میں ڈال لیااب روشن نے ہماری طرف اشارہ کر تے ہوئے فے سے کہا بیٹی اپنے انکل اور آنٹی سے سلام کرو فے نے پوجا والی تھالی ٹیبل پر رکھی اور ہمارے سامنے کھڑی ہوکر پہلے مجھے دونوں ہاتھ جوڑ کر نمستے کہا اور پھر میر ی بیوی سے کہا نمستے آنٹی ! اب ہم اُسے نمستے کا کیا جواب دیں یہ سوچ ہی رہے تھے کہ وہ پوجا والی تھالی اُٹھا کر ہمارے سامنے آکھڑی ہوئی اور کہنے لگی انکل اور آنٹی آپ بھی بھگوان جی کا پرشاد لے لیں، میں تھالی کی طرف ہاتھ بڑھا ہی رہا تھا کہ اُس سے پہلے میری بیوی نے بول دیا نہیں بیٹا ہم مسلمان ہیں جیسے ہی میری بیوی کی بات ختم ہوئی روشن اور اسکی بیوی قہقے لگا کر ہنسنے لگے میں نے روشن کی اس حرکت کو پسند نہیں کیا کیونکہ ایک تو اس نے پہلے مجھے بتا یا نہیں تھا کہ وہ ہندو ہیں اور پھر اپر سے ہمیں لنچ کے لئے بلا لیامیرے چہرے کے تاثرات دیکھ کر شاید روشن کو محسوس ہوگیا تھا کہ مجھے اچھا نہیں لگ رہا اس لئے اس نے کھلکھلانا بند کیا اور کہا اچھا اب میں سمجھ گیا کہ آپ جب سے آئے ہیں اتنے ٹینس کیوں دکھائی دے رہے ہیں اس نے پھر مسکراتے ہوئے کہا لگتا ہے آپ ہمیں ہندوسمجھ رہے ہیں میں نے جواب دیا اس میں سمجھنے کی کیا بات ہے آپ ہندو ہیں آپکے دروازے کے باہر ہندو ں کا پھولوں والا جا ل اور تمہاری بیٹی کے ہاتھ میں پوجا کی تھالی جس میں بھگوان کا پرشاد ہے اور شاید یہ سب کچھ ہندو مذہب میں ہی ہوتا ہے روشن نے مجھے سنجیدہ ہوتے ہوئے دیکھ کر کہاکفایت بھائی ایسی کوئی بات نہیں ہے ہم مسلمان ہی ہیں دراصل میں تین سال سے اسی بلڈنگ میں رہ رہا ہوں اور بدقسمتی سے اس فلور پر سارے ہندوہی رہتے ہیں میں نے پچھلے دو سال سے فلیٹ تبدیل کرنے کا ارادہ کیا ہوا ہے لیکن اپنے وسائل کو دیکھتے ہوئے ایسا نہیں کر سکااب مشکل یہ ہے کہ میری بیٹی کے تمام ایج فیلوز ہندو ہیں اور ہم دونوں کے آفس جانے کے بعد وہ زیادہ تر وقت ان لوگوں کے ساتھ گزارتی ہے اس لئے اپنی فرینڈز کے گھروں میں جو کچھ ہوتا دیکھتی ہے پھر ویسے ہی آکر گھر میں کرتی ہے یہ پوجا کی تھالی وغیرہ بھی اُ دھر ہی سے لے کر آئی ہے جیسے ہی روشن چپ ہوا اسکی بیوی بولی،بھائی میں خود اس بات کولیکر بہت پریشان ہوں اب تو کافی حد تک اس کو کنڑول کیا ہوا ہے پچھلے پانچ چھے ماہ سے بہت کم ان لوگوں سے میل جل رکھا ہوا ہے لیکن سب بڑی مصیبت یہ ٹی وی ہے میری بیٹی انڈین ٹی وی ڈراموں کی شیدائی ہے سٹار پلس ،سونی یا زی ٹی وی ہو ان تمام چینلز کے تما م تر ڈرامے باقاعدگی سے دیکھتی ہے اور انڈین ڈراموں میں یہ لوگ اپنے ہندو کلچر اور مذہب کو بڑا بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں ا نڈین ڈراموں میںمندر ، بھگوان ، پوجا ،رکشابندھن،ہولی ،دیوالی اس قسم کے سین بہت زیادہ دکھائے جاتے ہیں اب بچے تو معصوم ہوتے ہیں وہ جو کچھ ڈراموں میں دیکھتے ہیں اُسے صحیح سمجھ لیتے ہیں اور ویسے ہی کرنے کی کوشش کرتے ہیں اب روشن کی بیوی تھوڑی جذباتی ہوکر بولی بھائی صاحب در اصل حقیقت یہ ہے کہ ہم انڈ ین میڈیا گردی کی زد میں آچکے ہیں اور انڈین میڈیا پوری طرح سے ہمارے اوپر حاوی ہو چکا ہے ہم دھیرے دھیرے انہی کے رنگ میں رنگے جا رہے ہیں آج ہماری بیٹی کا یہ طرز زندگی بھی انہیں انڈین ٹی وی ڈراموں کا نتیجہ ہے ہندی ڈرامے دیکھ دیکھ کر اب تو وہ باتیں کرنے کے دوران بھی اردو سے زیادہ ہندی الفاظ استعمال کرنے لگی ہے اور یہاں تک کہ اپنے اصل نا م فاطمہ بنت روشن کو بھی مختصر کرکے فے کرلیاہے۔ کاش کہ شروع ہی سے ہم اپنی بیٹی پر توجہ دیتے اُسے اس ماحول اور اپنے مذہب اور کلچر سے دور ہونے والے ٹی وی ڈرامے دیکھنے سے دور رکھتے تو ہمیں نہ ہی آج اس پریشانی کاسامنا کرنا پڑتا اور نہ ہی آپ لوگوں کے سامنے شرمندہ ہونا پڑتا۔ معزز قارئین یہ کہانی صر ف روشن کے گھر کی نہیں بلکہ آج ہمارے ہر دوسرے گھر کی یہی کہانی ہے کیونکہ انڈیا نے اپنے ٹی وی ڈراموں کے ذریعے بڑی ہی مکاری کےساتھ ہمارے کلچر کو یرغمال بنا کراُس پر اپنا غیر مہذبانہ کلچر مسلط کردیاہے اور ہماری نوجوان نسل بُری طرح سے اس چنگل میں پھنس چکی ہے ا گر انڈین میڈیا کی اس دہشت گردی کو روکا نہ گیاجو وہ اپنے ڈراموں کے ذریعے پھیلارہے ہیں تو مستقبل میں اس کے نتائج امریکی ڈرون حملوں سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔پاکستان کی نوجوان نسل کو تباہی سے بچانے کے لئے اور پاکستان کے کلچر کو زندہ رکھنے کے لئے پاکستان کے الیکڑانک میڈیا پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس میں اپنا کردار ادا کرے اور ایسے معیار ی ڈرامے بنائیں جو نوجوان نسل کو اپنی طرف متوجہ کرسکیں اور پھر انہی ڈراموں کے ذریعے ان کے اندر ہمارے مذہب اور کلچر کا شعور پیدا کریں تاکہ تفریح کے ساتھ سا تھ ہماری نوجوان نسل اپنے مذہب اور کلچر سے بھی جڑے رہیں اور کسی غیر مذہب کے غیر مہذب کلچر کو نہ اپنائیں۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستانی ٹی وی نے انڈین ٹی وی کا مقابلہ کرنے کی بجائے اُنہی کے ٹی وی ڈراموں کو نقل کرنا شروع کر دیا ہے جسکی وجہ سے پاکستانی ٹی وی ڈراموں کی جو ایک اپنی پہچان تھی وہ ختم ہوکر رہ گئی ہے اور آج پاکستانی ٹی وی ڈراموں میں ہمیں پاکستان نہیں بلکہ انڈیا کا کلچر نظر آتاہے ۔محب وطن پاکستانی ہونے کے ناطے ہم سب پر بھی یہ ذمہ داردی عائد ہوتی ہے کہ ہم کسی بھی ملک کے غیر مہذب کلچر کو اپنے اپر مسلط نہ ہونے دیں او ر ہم سب اپنے بچوں کی ایسی تربیت کریں کہ وہ ایسے ٹی وی چینلز دیکھنے سے بعض رہیں جنہیں دیکھ کر وہ اپنا نام فاطمہ کو مختصر کرکے فے کرلیں ،عبادت کو پوجا کہنے لگیں ،خدا کو بھگوان اور اسلام علیکم کی بجائے نمستے کہنا شروع کردیں۔
Kifayat Hussain
About the Author: Kifayat Hussain Read More Articles by Kifayat Hussain: 34 Articles with 34640 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.