ایک مرد کیلئے دنیا کی سب سے
چھوٹی ہتھکڑی شادی کی انگوٹھی ہے۔ اسے پہنتے ہی وہ ایک ایسی جیل میں قید ہو
جاتا ہے جسے عرفِ عام میں شادی کہا جاتا ہے اور پھر اُس کی بقیہ زندگی اسی
قید خانے کی نذر ہو جاتی ہے۔ یہ ایک ایسا قید خانہ ہے جس میں کنوارہ قید
ہونے کا خواہشمند رہتا ہے جبکہ شادی شدہ اس سے چھٹکارا چاہتا ہے۔ شائد یہی
وجہ ہے کہ کنوارہ سوچتا ہے شادی شدہ خوش قسمت ہے جبکہ شادی شدہ سوچتا ہے
کنوارہ خوش قسمت ہے۔ اصل میں بات صرف اتنی ہے کہ شادی شدہ ایسا دن میں جبکہ
کنوارہ رات میں سوچتا ہے۔ کتنی دلچسپ بات ہے کہ لطیفوں کی دنیا میں سب سے
زیادہ لطیفے میاں بیوی سے ہی منسوب ہیں۔ شادی کے بیس سال بعد جب آدھی رات
کو بیوی کی آنکھ کھلی تو میاں کو بستر سے غائب پایا۔ وہ کچن میں گئی جہاں
میاں چائے کا کپ پکڑے روئے جا رہا تھا۔ بیگم نے پہلے اُس کے آنسو پونچھے
اور پھر چائے سے گھونٹ بھر کر بولی” میاں خیریت تو ہے؟“ وہ روتے ہوئے بولا
”بیگم تمہیں یاد ہے کہ جب بیس سال قبل ہم کالج میں اکٹھے پڑھتے تھے اور ایک
دن تمہارے تھانیدار باپ نے ہمیں اکٹھے دیکھ کر مجھے دھمکی دی تھی کہ یا تو
میری بیٹی سے شادی کرو یا پھر بیس سال کیلئے جیل جانے کو تیار ہو جاﺅ۔“
بیوی نے ہاں میں جواب دیا جس پر خاوند بولا ”اگر میں تمہارے باپ کی بات مان
لیتا تو اب تک جیل سے رہا بھی ہو چکا ہوتا۔“
شائد آپ یقین نہ کریں مگر یہ حقیقت ہے کہ میکسیکو میں ایک خاتون کو اُس وقت
پکڑ لیا گیا جب وہ اپنے شوہر کو ایک سوٹ کیس میں چھپا کر جیل سے فرار کروا
رہی تھی۔ یہ عورت جیل میں قید اپنے شوہر سے ملاقات کیلئے گئی تھی اور ضرورت
کی اشیاءبتا کر سوٹ کیس اندر لے جانے میں کامیاب ہو گئی پھر اپنے شوہر کو
سوٹ کیس میں ڈالا اور چلتی بنی۔ شوہر کو جیل کے باہر ڈیوٹی پر مامور پولیس
اہلکاروں کا احسان مند ہونا چاہئے کہ انہوں نے خاتون کو فوری پکڑ لیا ورنہ
وہ ایک جیل سے رہائی کے بعد دوسری جیل میں سزا کاٹ رہا ہوتا۔ سیانے کہتے
ہیں دور کے ڈھول بجتے ہر کسی کو سہانے لگتے ہیں مگر جب یہ ڈھول اپنے گلے
میں پڑ جائے پھر پتہ لگتا ہے۔ میاں بیوی کی لڑائی ایک روایتی عنصر ہے۔ شوہر
بیویوں سے پٹتے ہیں، پٹتے ہوں گے مگر کیوں؟ ایک شوہر اپنی بیوی کے ہاتھوں
حقوق چھِن جانے پر احتجاج کر رہا تھا۔ یقینا ہر انسان کو اپنے غضب شدہ حقوق
حاصل کرنے کےلئے احتجاج کا حق حاصل ہے مگر شوہروں کو گھر میں یہ حق حاصل
نہیں ہوتا، یہی وجہ ہے کہ وہ بیگمات کی نظروں سے اوجھل ہو کر احتجاج کرتے
ہیں۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ بیوی سے اتنے ہی تنگ ہیں تو پھر شادی کیوں کی
تھی؟ جس پر اُس نے معصومیت سے جواب دیا کہ شادی کے بغیر بندہ شوہر جو نہیں
کہلا سکتا۔
ایک مرد شادی کے بعد شوہر، خاوند یا زیادہ سے زیادہ میاں بن جاتا ہے جبکہ
شادی سے پہلے صرف لڑکی کہلانے والی بعد میں بیوی، بیگم، منکوحہ، قبیلہ،
اہلیہ، رفیقہ حیات، بیاہتا، خاتون، خانم، جورو اور شریکِ حیات جیسے کئی
مترادفات اپنے نام کر لیتی ہے۔ ایک مظلوم شوہر سے جب پوچھا گیا کہ خاتونِ
اَوّل کے ان تمام ناموں میں کیا فرق پایا جاتا ہے تو جواب ملا کوئی فرق
نہیں ہوتا بس یہ ایک ہی دشمن کے کئی نام ہیں۔ اسکے باوجود شوہروں کی اکثریت
ایک سے زائد شادیوں کی خواہشمند رہتی ہے حالانکہ وہ یہ سمجھتے بھی ہیں کہ
ایک بیوی کو خوش رکھنا ناممکن جبکہ دو کو ناممکنات میں سے ہے البتہ ایسے
شوہردو بیویاں ہونے کا صرف ایک ہی فائدہ بیان کرتے ہیں کہ بیوی ایک ہو تو
خاوند کے ساتھ لڑتی ہے اور اگر دو ہوں تو خاوند کیلئے لڑتی ہیں۔ شاید اسی
وجہ سے پہلی شادی کے بعد شوہر حضرات دوسری شادی کے شوقین بن جاتے ہیں۔ بہت
کم لوگوں کو ایک سے زائد شادیوں کے مواقع ملتے ہیں ورنہ شادی زندگی میں ایک
ہی بار ہوتی ہے لیکن اس کے بعد دلہن کی طرف سے ایسے فرمائشی پروگرام شروع
ہو جاتے ہیں کہ دولہا بے چارہ قربانی کا بکرا بن جاتا ہے۔ ایک عورت اپنی
سہیلی سے کہنے لگی ”میرے میاں شادی کے بعد بھاگ بھاگ کر میری ہر خواہش پوری
کرتے تھے۔“ سہیلی جو خود بھی شادی شدہ تھی فوراً بولی ”اور یقینا اب فرمائش
سنتے ہی بھاگ جاتے ہوں گے۔“
شادی سے پہلے مرد ”بے غم“ ہوتا ہے جبکہ شادی کے بعد بیوی ”بے غم“ ہو جاتی
ہے کیونکہ پھر ہر طرح کی ذمہ داری کا غم شوہر پر عائد ہو جاتا ہے اور بیگم
ہمیشہ کیلئے بے غم ہو جاتی ہے۔ شوہر ذمہ داری سے نہیں گھبراتا بلکہ بیگم کے
”بے غم“ ہو جانے پر پریشان رہتا ہے۔ ایک بیوی اپنا فرماں برداری کا رحجان
اپنے خاوند کو فرماں بردار بنانے میں لگا دیتی ہے اور اکثر کامیاب ٹھہرتی
ہے جبکہ بعض اوقات شوہر حضرات بھی ایسے نسخے استعمال کرتے ہیں کہ بیویاں
فرماں برداری کا اعلیٰ نمونہ بن جاتی ہیں۔ ایک شوہر نے بیوی کو کار کی چابی
دیتے ہوئے بڑے پیار سے کہا ”ڈارلنگ !اگر راستے میں تم نے کوئی ایکسیڈنٹ کیا
تو نیوز پیپر تمہاری عمر ضرور لکھے گا۔“مردوں کے پاس اور بھی بہت سارے غم
ہوتے ہیں جبکہ بیغمات کا بیشتر وقت اسی پر صرف ہوتا ہے کہ شوہر پر اگلا وار
کون سا کیا جائے۔ بیگم جیسے ہی شاپنگ کرکے واپس آئی تو فرماں بردار شوہر
اُس کے ہاتھ سے سامان لیتے ہوئے خوشی سے بولا ”تم ضرور اس تھیلے میں میرے
کھانے کیلئے کچھ لائی ہوگی۔“ جس پر جھٹ سے بیوی بولی ”بالکل ٹھیک کہا، اس
میں میرے نئے سینڈل ہیں اور جو تھوڑی بہت رقم باقی بچ گئی تھی اُس کا بیلنا
خرید لائی ہوں۔“ ویسے آ ج کل ایسی فرماں بردار بے غمیں کہاں ملتی ہیں؟
کہا جاتا ہے کہ ایک عورت اُس وقت فرماں بردار بن جاتی ہے جب اس کا شوہر
اُسے شاپنگ یا گھر سے باہر کھانے کا لالچ دے یا پھر وہ جب چاہے اس میں کیا
مشکل ہے۔ میاں بیوی کے رشتے کو دنیا بھر میں سب سے قریبی رشتہ سمجھا جاتا
ہے اور عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کی بات کسی اور کی
نسبت زیادہ بہتر انداز میں سمجھ لیتے ہیں۔ یقینا آپ کی بھی یہی رائے ہوگی،
مگر ایک حالیہ سائنسی تحقیق اس نظریئے کی نفی کرتے ہوئے کہتی ہے کہ دو
اجنبی ایک دوسرے کی بات سمجھ سکتے ہیں مگر میاں بیوی یا شریکِ زندگی کے طور
پر ایک دوسرے کے ساتھ رہنے والے جوڑے نہیں۔ ایک صاحب وکیل کے پاس پہنچے اور
بولے کہ میں اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہتا ہوں کیونکہ اُس نے سال بھر سے
میرے ساتھ کوئی بات تک نہیں کی۔ وکیل نے کہا میں فیس کی خاطر آپ کا کیس لے
سکتا ہوں مگر میرا مشورہ ہے کہ آپ اس پر دوبارہ غور کریں کیونکہ ایسی
بیویاں صرف قسمت والوں کو ہی ملتی ہیں۔ قارئین کرام! یہ ایک مزاحیہ کالم ہے
جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے، لہٰذا اسے ہرگز سیریس مت لیں ورنہ کسی
بھی سائیڈ ایفیکٹ کے ذمہ دار خود ہوں گے۔ |