خط و کتابت کا زمانہ

دنیا نت نئی سائنسی ایجادات کی بدولت گلوبل ویلیج بن چکی ہے لیکن ان ایجادات کی وجہ سے انسان کو جہاں آسانیاں میسر آئیں ہیں وہیں انسان کی قدر و منزلت میں بھی کمی دیکھنے میں آئی ہے، انسانی رویے بھی تبدیل ہوگئے ہیں اور ان میں احساس ذمہ داری کے ساتھ حساسیت میں بھی کمی نظر آنے لگ گئی ہے ،حضرت انساں دن بدن مصروف سے مصروف تر ہوتا جا رہا ہے اور اپنی فکر ہی میں دکھائی دیتا ہے ،خود غرضی میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے اور وقت کا تو پتا ہی نہ چلتا وہ تو تیزی سے ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے دوسروں کے دکھ درد بانٹنا مشکل ہوتا جا رہا ہے کچھ عرصہ قبل میں نے کہا تھا
مصروفیت اتنی بڑھ گئی ہے ماجد
لگتا ہے وقت میں برکت نہ رہی

انٹرنیٹ اور موبائل فونز کی بدولت انساں لمحہ بہ لمحہ ایک دوسرے سے باخبر رہتا ہے ،نیوز چینلز اور الیکٹرانک میڈیا کی وجہ سے وہ دنیا کے حالات سے بخوبی واقف ہوتا ہے لیکن ان سہولیات کی وجہ سے چاہتیں اور محبتیں معدوم ہوتی جا رہی ہیں مجھے یاد ہے کہ جب چند سال قبل یہ سہولیات نہیں تھیں تو کوئی پردیس سے جب آتا تھا تو پورا گاﺅں اکٹھا ہوجاتا تھا اس کا حال احوال پوچھا جاتا ،وہاں کے حالات کا پوچھا جاتا اور پورے ہمہ تن گوش ہوکر اس کی باتیں مزے لے لے کر سنی جاتی لیکن ایسی محبتیں، ایسی باتیں ،ایسی چاہتیںاب کہاں۔اب تو کسی بیمار کی تیمار داری کے لئے بھی وقت نکالنا مشکل ہوتا جا رہا ہے وقت کی رفتار بڑھتی جا رہی ہے اور انساں اسی تیزی سے چل رہا ہے۔

مکتوب لکھنا ،اسے ڈاک خانے میں پوسٹ کرنااور پھر اس کے جواب کا انتظار کرنا کتنا زبردست مشغلہ تھااب ایسے مشاغل ختم ہوتے جا رہے ہیں اب ای میلز کا زمانہ ہے موبائیل فونز پر خط بھیجے جاتے ہیں جو سیکنڈوں میں پہنچ جاتے ہیں جن میسجز کا جواب بھی فوری مل جاتا ہے لیکن ان میسیجز اور میلز میں وہ مزہ نہیں جو خطوط میں ہوتا تھا ،نصاب میں مکتوب غالب کو ہم بڑے شوق سے پڑھا کرتے تھے مجھے وہ دن بھی یاد ہیں جب میرا اک دوست گاﺅں سے کراچی چلا گیا تھا اور ہم دونوں میں خط و کتابت کے ذریعے ایک دوسرے سے رابطہ رہتا اور ہر ہفتے گاﺅں کے اکلوتے ڈاکخانے جاکر اپنے نام بھیجے گئے خط کا معلوم کرتا ،جس دن خط موصول ہوتا بڑی بے چینی سے گھر جا کراسے کھول کر بار بار پڑھا جاتا اور پھر اس کا جواب لکھنے بیٹھ جایا کرتے تھے ۔

خط وکتابت سے یاد آیا کہ پہلے زمانے میں جانوروں کوبھی ڈاک کے لئے استعمال کیا جاتا تھا قاصد کے ذریعے پیغام رسانی بھی سنی ہے اور کبوتر کو بھی اس کام کے لئے استعمال کیا جاتا تھا ،قارئین !آپ بھی سوچ رہے ہوں گے آج میرا انداز گفتگو تبدیل کیوں ہے اور سوئی صرف خط و کتابت کے گرد کیوں گھوم رہی ہے؟وجہ یہ ہے کہ ان دنوں ایک خط کا بڑا چرچا سننے میں آ رہا ہے پہلے سائیں گیلانی کو کہا جاتا رہا کہ
لِکھ دے ،لکھ دے سائیں کوئی تحریر
بدل جائے جس سے ملک کی تقدیر

لیکن سائیں نے بات نہ مانی اور اپنی کرسی کو چھوڑ دیا لیکن اب اسی زمانے کو یاد کر کے آہیں بھرتے اور یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں
گذرے وہ زمانے یاد آتے ہے
بیتے وہ سہانے پل یاد آتے ہے

اب میرے بھولے راجہ صاحب بھی خط لکھنا سیکھ رہے ہیں معلوم نہیں انہیں بھی خط لکھنا آ جائے گا یا نہیں ۔کیا وہ بھی جئے بھٹو کا نعرہ لگا کر کرسی کو خیر باد کہ کر وفاداری نبھائیں گے یا پھر وہ بھی مکتوب لکھ دیں گے ویسے یہ خط کون سے طریقے سے جائے گا کوئی سپیشل نمائندہ اس خط کو لے کے جائے گا یا کبوتر کا سہارا لیا جائے گایہ تو وقت آنے پر معلوم ہوگا ،ویسے اس خط کا ہر کسی کوشدت سے انتظار ہے۔
AbdulMajid Malik
About the Author: AbdulMajid Malik Read More Articles by AbdulMajid Malik: 171 Articles with 201691 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.