کوئلہ گھوٹالہ : جماعتی خباثت کا بول بالا قومی سیاست کا منہ کالا

پارلیمان کا مانسون اجلاس کوئلہ کی بدعنوانی میں اسی طرح بہہ گیا جیساکہ موسلا دھار بارش میں راجدھانی دہلی کی ساری غلاظت جمنا ندی میں بہہ گئی ۔قدرت کی اس کرم فرمائی سے دہلی تو پاک ہوگئی لیکن اس کی ناپاکی ملک کے ان تمام علاقوں میں پہنچ گئی جن کو یہ پوتر ندی سیراب کرتی ہے اور آگے جاکر گنگا میا ّ سے اس کا سنگم بھی ہو جاتا اس کے بعد پھر یہ غلاظت ان علاقوں تک میں پہنچ گئی جہاں تک جمنا بائی کی رسائی نہیں تھی ۔ ہندو عقیدے کے مطابق کیلاش پربت سے ست یگ میں تین مقدس ندیاں نکلی تھیں لیکن کل یگ کے آتے آتے دنیا مادہ پرستی کے چنگل میں اس طرح گرفتار ہوئی کی شرم سے سرسوتی زیرِ زمین چلی گئی ۔ الہ باد کو ان تینوں ندیوں کا مہا سنگم بھی خیال کیا جاتا ہے ۔ اس عقیدے کی حقیقت جو بھی ہو اس میں اورملک میں رائج موجودہ سیاسی نظام میں بلا کی مشابہت ہے ۔ یوں سمجھ لیجئے کہ ہندی سیاست کی گنگا اور جمنا کانگریس پارٹی اور بی جے پی ہے نیز تیسرا محاذ سرسوتی کی مانند زیرِ زمین ہے ۔ جب بھی ان دونوں ندیوں میں زبردست قسم کی طغیانی آتی ہے سرسوتی عارضی طور نمودار ہو جاتی ہے اور جب یہ طوفان تھمتا ہے حالات معمول پر آتے ہیں تو وہ پھر سے زیر زمین چلی جاتی ہے ۔ اس بار بھی یہی ہوا کہ جب کانگریس اور بی جےپی کے درمیان گھمسان کا رن پڑا تو ملائم سنگھ یادو کے ساتھ ساتھ نتیش کمار نے بھی وزارتِ عظمیٰ کے خواب دیکھنے شروع کر دئیے ۔ گویا اس ہنگامہ سے کانگریس کا بال بیکا نہ ہوا مگر بی جے پی دوکان خوب چمکی اور تیسرے محاذ کی امید کے چراغ روشن بھی ہوگئے ۔ ان تینوں محاذوں متحدہ ترقی پسند محاذ، قومی جمہوری محاذ اور تیسرے محاذنے اس بہتی گنگا میں نہ صرف اپنے ہاتھ دھولئے بلکہ چہرے پر لگی کوئلے کی کالک کودھونے کی بھی بھرپور کوشش کی لیکن یہ کالک ایسی گہری تھی کہ گنگا جمنا سرسوتی تینوں کا رنگ سیاہ ہوگیا مگر کالک جوں کی توں باقی ہی رہی ۔

کوئلہ ہنگامہ میں کس نے کیا کھویا اور کس نے کیا پایا اس کا تجزیہ نہایت دلچسپ نتائج کی جانب رہنمائی کرتا ہے ۔یقیناً اس سے سب سے زیادہ فائدہ حزب ِ اختلاف بی جے پی کا ہوا۔ایک عرصہ سے ملک کی سب بڑی اپوزیشن بی جے پی کو اشتراکی اتحاد اور ممتا بنرجی نے حاشیہ پر پہنچا دیا تھا ۔ معاملہ یہ تھا کہ وہ لوگ مسائل کو اٹھاتے تھے اور بی جے پی ان کی حمایت پر مجبور ہوتی ۔اس کے علاوہ رام دیو بابا اور اناہزارے جیسے لوگ اخباروں اور ٹی وی چینلوں پر چھائے رہتے تھے ۔اگر بی جے پی کے حوالے سے کو ئی خبر مشہور بھی ہوتی تو وہ دہلی کے بجائے احمدآباد سے آتی ۔ مثلاً اگر میں قصوروار ہوں تو مجھے پھانسی چڑھا دو اور سدبھاؤنابرت وغیرہ ۔لوک سبھا اور راجیہ سبھا دونوں مقامات پر سشما جی اور ارون جیٹلی بے وزن ہو گئے تھے ۔وہ دونوں وزارتِ عظمیٰ کے دعویدوار ہیں اور ہر گز نہیں چاہتے نریندر مودی ان کے راستے کا کانٹا بنے لیکن سیاسی صورتحال کچھ ایسی تھی کہ دونوں بے دست و پا ہو گئے تھے ۔ اس حالت کو بدلنے کیلئے ٹوجی معاملے میں وزیر داخلہ چدمبرم کے خلاف مہم چلائی گئی ۔ پارلیما ن کو چلنے نہیں دیا گیا اور اس حکمتِ عملی کاخاطر خواہ فائدہ ان دونوں رہنماؤ ں کو ہوا ۔ اب انہیں نسخۂ کیمیا ہاتھ آگیا تھا اس بار چدمبرم کے بجائے سیدھے وزیر اعظم پر نشانہ سادھا گیا ۔ بی جے پی والے جانتے تھے کہ یہ تیر خطا ہو کر رہے گا لیکن انہیں اس میں مطلق دلچسپی نہیں تھی انہوں نے استعفی ٰ کا تنور گرم کرکے اپنی سیاسی روٹیاں سینکیں ۔سشما نےآٹا گوندھ کر اسے بیلنے کا کام کیا اور ارون جی اسے سینک سینک تنور سے نکالتے اور صحافیوں کے آگے پروستے رہے۔

ان روٹیوں کو ذرائع ابلاغ نے جی بھر کے نوش کیا اور سیر ہوگئے ۔ کانگریس والے بھی اس لڑائی کو ذرائع ابلاغ میں لے آئے اورمنموہن جی اپنا مدعا شعر کے پردے میں بیان کیا ‘‘
ہزاروں جوابوں سے اچھی ہے میری خاموشی
نا جانے کتنے سوالوں کی آبرو رکھے

وزیر اعظم کا اشارہ بی جے پی کی جانب تھا کہ اگر اس راز پر سے پردہ اٹھے گا تو اس میں بی جے پی کے پردہ نشینوں کے بھی نام آئیں گے لیکن بی جے پی فی الحال بدعنوانی کے معاملے میں شرم و حیا کی سارےحدودو قیود سے تجاوز کر چکی ہے اس لئے شعرکا ترکی بترکی جواب سشما سوراج نے شعر کو الٹ کر دے دیا کہ ‘‘جن کو اپنے بے آبرو ہونے کا ڈر ہوتا ہے وہ خاموش رہتے ہیں ۔ اپنے اس فقرے پر وہ اس قدر خوش ہوئیں کہ انہوں نے کانگریس پارٹی پر کرناٹک کے ریڈی برادران سے موٹا مال لینے کا الزام لگا دیا ۔ ایسا کرتا ہوئے سشما جی بھول گئیں کہ اگریہ الزام سچ بھی ہو تب بھی وہ بی جے پی خلاف ہے ۔ اس لئے کہ کرناٹک ریڈی برادران جن کی چوری اب طشت ازبام ہو چکی ہے کانگریس کے نہیں بلکہ بی جے پی کے ارکانِ اسمبلی اور وزراء تھے ۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب سشما جی خود کرناٹک میں ریڈی کے زیر اثر علاقہ سے پارلیمان میں جانے کی کوشش کررہی تھیں ۔ ارون جی کرناٹک بی جے پی نگرانِ کار تھے ۔ انٹر نیٹ پر سشما کی دونوں ریڈی برادران کے سر پر ہاتھ رکھی ہوئی مسکراتی تصویر کس نے نہیں دیکھی اب جن سیاسی رہنماؤں کو سشما کا آشیرواد حاصل تھا اور انہوں نے موٹا مال دے کر جو مایاجال بنا اس میں ان کے سیاسی گرو کا حصہ نہ رکھا ہو کیایہ ممکن ہے ؟ سشما کا داؤں خود انہیں کے خلاف پڑ گیا اس سے کانگریس پارٹی کے وارے نیارے ہو گئے۔اس نے بی جے پی مختلف وزرائے اعلیٰ کو لپیٹ میں لے لیا ۔

سچ تو یہ ہے کہ اس معاملے سے تینوں فریقوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور اگر کوئی خسارے میں رہا تو وہ ان سیاسی جماعتوں کے رائے دہندگا ن ہیں جن کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آیا ۔ وہ بیچارے ٹی وی کے آگے بیٹھ کر بلا وجہ ہاتھ ملتے رہے ۔ اس معا ملہ کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ دونوں فریقوں کا مؤقف بظاہر معقول معلوم ہوتا ہے ۔کانگریس کا یہ کہنا کہ حزب اختلاف پارلیمان کے وقار کا خیال کرے اور اس معاملے پر مباحثہ میں شریک ہویہ نہایت موققل تقاضہ ہے اس لئے کہ عوام نے اپنے نمائندوں کو اسی مقصد کے تحت منتخب کر کے بھیجا ہے ۔ کانگریس اس معاملے میں بحث ومباحثہ کے بعد رائے دہندگی کیلئے بھی تیار ہے ۔ اس کامطلب یہ ہے کہ اگر اس مسئلہ پر پیش ہونے والی تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہو جاتی ہے تو یہ حکومت اپنے آپ گر جائیگی ۔حزب اختلاف کا بلا بحث وزیر اعظم کا استعفیٰ طلب کرنا اور اس مطالبہ کو پارلیمان کے کام کاج سے مشروط کر دینا سیاسی بلیک میلنگ کے مترادف ہے اس لئے کہ بلاتحقیق کسی کو سزا دینا قانونِ فطرت کی خلاف ورزی ہے ۔ کانگریس کی یہ دلیل بھی درست ہے کہ اگر حزب ِ اختلاف کی بات کو تسلیم کر کے کوئلہ کے ٹھیکوں کو مسترد کردیا جائے تو عدالت میں یہ فیصلہ ٹک نہیں پائےگا اور اس کے خلاف آنے والے عدالتی احکامات حکومت کی سبکی کا سبب بنیں گے اور اس صورت میں پارلیمان کاوقار مجروح ہوگا-

یہاں تک تو سب ٹھیک ہے لیکن اس کے بعد کانگریس کا مؤقف خطرناک موڈ لے لیتا ہے ۔اس کا کہنا ہے کمپٹرولر اور آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کو من و عن تسلیم نہیں کیا جاسکتا ۔یہ نہایت خطرناک طرزِعمل ہے ۔ کمپٹرولر اور آڈیٹر ایک دستوری ادارہ ہے ۔ اس کے اختیارات کو چیلنج کرنا اور اس کی کارکردگی پر شکوک و شبہات پیدا کرنا دستور کی سیدھی خلاف ورزی ہے جو بر سرِ اقتدار جماعت کو زیب نہیں دیتی ۔ اگر اس کی سفارشات بے وقعت ہیں تو اسے معطل کر دیا جانا چاہئے اور اس پر خرچ ہونی رقم کا کوئی اورمفید استعمال ہونا چاہئے ۔ اسی کے ساتھ اگر سی اے جی رپورٹ حزب ِ اختلاف کے خلاف ہوتی ہے تو اس کی صداقت کی قسمیں کھائی جاتی ہیں لیکن اگر خود کانگریس کے اپنے خلاف ہو تو اسے جھوٹ کا پلندہ قراردے کر مسترد کر دیا جاتا اس سے بڑھ کر منافقت اور کیا ہو سکتی ہے؟

اسی کے ساتھ کپلسبل کی یہ دلیل نہایت کمزور ہے کہ ترقی کی رفتار کو قائم رکھنے کیلئے ضابطہ کی خلاف ورزی ضروری تھی ۔ اس کیلئے لازمی ہے کہ پہلے ضابطہ کو بدلا جائے ۔ ایسا کرنے کا اختیار حکومت کو حاصل ہے لیکن ضابطہ کو تبدیل کئے بغیر اس کی خلاف ورزی کا کو ئی جواز نہیں بنتا ۔ وزیر خزانہ چدمبرم کا یہ کہنا چونکہ ابھی کان کنی کا کام شروع نہیں ہوا ہے اس لئے نقصان کا الزام لگانا درست نہیں ہے نہایت بچکانہ منطق ہے ۔ یہ تو ایسا ہی ہے کہ کوئی جان لیوا حملہ کرنے والایہ کہے چونکہ ملزم ابھی مرا نہیں اس لئے وہ قاتل نہیں بے قصور ہے ۔ کانگریس چونکہ اس پر اصرار کر رہی ہے کہ ان ٹھیکوں کو کالعدم قرار نہیں دے گی اس کا مطلب یہ ہے کہ آج نہیں تو کل نیلامی سے صرفِ نظر کرنے کا نقصان سرکاری خزانے کو ہو کر رہے گا ایسے میں وزیر خزانہ کا یہ کہنا ان کی اپنی ذمہ داری سے وشواس گھات ہے ۔ اگر کان کنی ہو چکی ہو تی تو چدمبرم کہتے اب تو کوئلہ جل کر راکھ ہو گیا اب اس کو کریدنے سے کیا حاصل گویا چت بھی میری اور پٹ بھی میری والی یہ دلیل ہے ۔جس ملک کا وزیر خزانہ قومی وسائل کا دشمن بن جائے اس خزانے لٹتے دیر نہیں لگتی ۔

اس کے برعکس بی جے پی کی بات میں بھی دم ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ بحث و مباحثہ بے سود ہے اس لئے کہ کانگریس نے مخالفین کو خریدنے کے فن میں مہارت حاصل کر لی ہے اور اگر معاملے میں تحریک عدم اعتماد ناکام ہو جاتی ہے جو یقینی ہے تو ساری مشق بیکار ہو جائیگی اور حکومت کا غلط مؤقف اکثریت کی بنیاد پر صحیح ہو جائیگا ۔ کمپٹرولر و آڈیٹر جنرل ایک قابل احترام ادارہ ہے ۔ اس کی تحقیق وتفتیش کو یکسر جھٹلایا نہیں جاسکتا ۔ اس لئے اس بے ضابطگی کا واحد حل یہ ہے کہ اسے درست کیا جائے اور سارے ٹھیکے منسوخ کر دئیے جائیں ۔دوبارہ ضابطہ کے مطابق نیلامی سے سرکاری خزانے کو ایک لاکھ چھیاسی ہزار کروڈ سے زیادہ کا منافع ہوگا ۔ سی اے جی اس معاملے میں ضروری تحقیق و تفتیش کر چکا ہے اس لئے مزید کسی بحث و مباحثہ کی گنجائش نہیں ہے اس لئے اس پر کارروائی کی درکار ہے اور اس کا بنیادی تقاضہ ٹھیکوں کو منسوخی ہے ۔ چونکہ یہ بدعنوانی وزیر اعظم کے دستخظ سے ہوئی ہے اس لئے انہیں اپنی اخلاقی ذمہ داری تسلیم کر کے استعفی ٰ دے دینا چاہئے ۔

ان نکات کا غیر جانبدارانہ جائزہ لیا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ سیاسی جماعتوں کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ سیاسی نظام کی مشکل ہے جو بیک وقت متضاد مؤقف کی تائید کرتا ہے اس لئے کوئی ایسا حل پیش کرنے سے قاصر ہے جو ساری جماعتوں کیلئے قابلِ قبول ہو اور پھر سیاسی جماعتیں بھی اپنے مفادات کے پیشِ نظر ان مسائل کو حل کرنے میں مخلص نہیں ہیں ۔ وہ چاہتی ہیں کہ یہ ہنڈیا پکتی رہے ۔ یہ ایک حقیقت ہے بی جے پی کا کمل صاف ستھرے پانی میں نہیں کھلتا اس کیلئے بدعنوانی یا فرقہ واریت کا دلدل ضروری ہے ۔ کانگریس کا ہاتھ بھی اسی ماحول میں چلتا ہے اور تیسرے محاذ کی سائیکل کا بھی یہی حال ہے کہ وہ ملک کی بگڑتی سیاسی ڈھلان پر تو خوب تیزی سے دوڑتی ہے لیکن مسطح سڑک پر نہیں چل پاتی اور اگر اونچائی کا راستہ آجائے تو پنچر ہوجاتی ہے کمیونسٹ کوئتا بھی بدعنوانی کی فصل کاٹنے میں خوب طاق ہے لیکن امن و سلامتی کی فضا میں اس کی دھار کند ہو جاتی ہے ۔ اس لئے ضرورت اس بات کی نہیں ہے کہ کسی ایک جماعت یا دوسری کو اس کیلئے موردِ الزام ٹھہرایا جائے ۔اس لئے کہ ہر کسی کی اپنی اپنی مجبوری ہے اور کوئی ایک بھی اس پر اپنے طور سے قابو نہیں پاسکتا الاّ یہ کہ کوئی ایسا متبادل نظام برپا ہو جو عوام کے ساتھ ساتھ ان سیاسی جماعتوں کو بھی راہِ راست پرلے آئے۔

جمہوری روایات کافروغ ہندوستان کی بنسبت پاکستان میں بہت کم ہوا ہے لیکن وہاں عدلیہ کا شعبہ ہندوستان سے زیادہ مؤثر نظر آتا ہے ۔جنرل پرویز مشرف جیسے آمر کے قدموں اکھاڑنے میں بحالیٔ عدالت کی تحریک نے بڑا رول ادا کیا ۔ بدعنوانی کا مقدمہ نںؤ چلانے کی پاداش میں یوسف رضا گیلانی کو استعفی ٰ دینا پڑا اور نئے وزیر اعظم پر بھی یہ تلوار لٹک رہی ہے۔ ہندوستان کی عدالتیں حزب اقتدار کےطاقتور وزراء کے خلاف ابھی تک اس طرح کے فیصلے نہیں کر پائی ہیں ۔ اسی لئےچدمبرم آج بھی عیش کررہے ہیں اور وزیراعظم کے خلاف حزب اختلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کی جرأت نہیں کر پارہا ہے ۔وزیر اعظم منموہن سنگھ عرصۂ دراز سے امریکہ کی آنکھوں کا تارہ رہے ہیں ۔ صدر اوبامہ نےصدارت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سب سے پہلے انہیں قصرِ ابیض کا مہمان بنایا لیکن جب سے انہوں نے ایران کے معاملے امریکہ کے دباؤ میں آنے سے انکار کر دیا اورایران کے ساتھ اپنے تجارتی رشتوں کو نہ صرف باقی رکھا بلکہ ناوابستہ تحریک کی کانفرنس میں شرکت کرنے کا فیصلہ کیا، امریکی ذرائع ابلاغ ان کے پیچھے پڑ گیا ہے ۔ وہ براہِ راست یہ تو نہیں کہتا کہ منموہن امریکہ کی بات کیوں نہیں مانتے بلکہ بلواسطہ ان کی مخالفت پر کمر بستہ ہو گیا ہے ۔

اس مہم کا آغاز جولائی میں ہوا جب معروف جریدہ ٹائم نے ایشیائی خصوصی شمارے کے سرِ ورق پر منموہن سنگھ کی تصویر شائع کی اورانہیں امیدوں پر کھرا نہیں اترنے والے شخص کے خطاب سے نوازہ۔اسی کے ساتھ منموہن سنگھ کی قیادت پر سوالیہ نشان لگاتے ہوئے لکھا کہ ’بھارت کو جس نئی شروعات کی ضرورت ہے۔ کیا وزیر اعظم منموہن سنگھ اس کے اہل ہیں؟مؤقرجریدےنے انہیں ایک ایسا کمزور رہنما بتایا ہے جو ان اصلاحات کو جاری رکھنے کے خواہش مند نہیں جس کے ذریعے ملک کو دوبارہ ترقی کی راہ پر ڈالا جا سکے۔یو پی اے حکومت پر معاشی ترقی میں گراوٹ، زبردست مالی خسارے اور روپے کی گرتی قیمت کے علاوہ بدعنوانی کا لزام بھی لگایا گیا ۔ٹائم کے مطابق ملکی اور غیر ملکی صارفین میں اعتماد کی کمی آئی ہے، مہنگائی بڑھنے اور حکومت کے اعتماد کو نقصان پہنچانے والے تنازعات کے سبب عوام کے اعتماد میں بھی کمی آئی ہے۔ٹائم کے بعد واشنگٹن پوسٹ نے اگست میں کوئلے کی کانوں کے الاٹمنٹ پر تنازعہ کے پس منظر میں لکھا کہ منموہن سنگھ شاذ و نادر ہی کسی مسئلہ پر اپنی رائے ظاہر کرتے ہیں اور ان کی خاموشی اب ان کی کمزوری بن گئی ہے اخبار کے مطابق منموہن سنگھ کی شبیہ اب پوری طرح بدل چکی ہے۔پہلے وہ ایک قابل احترام اور انتہائی سادگی میں یقین رکھنے والے دانشور منتظم مانے جاتے تھے لیکن اب وہ انتہائی بدعنوان حکومت کی سربراہی کرنے والے غیر مؤثر افسر شاہ نظر آتے ہیں گویا اب کوئلہ کی دلالی میں ہندوستانی سیاستدانوں کے ساتھ امریکی انتظامیہ بھی ذرائع ابلاغ کے توسط سے اپنے ہاتھ کالے کرنے میں جٹ گیا ہے بقول افتخار عارف ؎
جس دن سے ہم بلند نشانوں میں آئے ہیں
ترکش کے سارے تیر کمانوں میں آئے ہیں
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1454790 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.