پیپلزپارٹی اور متحدہ قومی
موومنٹ کے درمیان 5 روز کے طویل مذاکرات کے بعد نئے بلدیاتی نظام کے مسودے
پر اتفاق ہوگیا ہے، وزیراعلیٰ سندھ اور گورنر نے فوری طورپر منظور کرتے
ہوئے اسے 7 ستمبر 2012ءسے نافذ کردیا۔ ذرائع کے مطابق 184 صفحات پر مشتمل
اس آرڈیننس کے تحت سندھ میں دہرا بلدیاتی نظام لاگو کیا گیا ہے، جس میں
کراچی ڈسٹرکٹ کونسلیں اور پانچوں ڈی ایم سی ختم کردی گئی ہیں۔ تاہم صوبائی
ریونیو معاملات کے لیے پانچوں اضلاع اور ڈپٹی کمشنر فعال رہیں گے، جب کہ
میونسپل خدمات کے لیے کراچی کے 18ٹاﺅن اور اندرون سندھ 101کالعدم ٹی ایم اے
کی سطح پر بلدیاتی ادارے بحال ہوں گے۔
نئے بلدیاتی نظام کے تحت کراچی اور صوبے کے دیگر 4 بڑے شہروں میں
پیپلزمیٹروپولیٹن کارپوریشن قائم کی جائیں گی جن کا سربراہ میئر ہوگا، جب
کہ میئر اور ڈپٹی میئر کا انتخاب 2001ءمیں سابق صدر پرویز مشرف کے متعارف
کردہ بلدیاتی نظام میں رائج طریقے کے مطابق کیا جائے گا۔ اس نظام میں حیدر
آباد کی اپریل 2005ءسے پہلے کی حیثیت بحال نہیں کی گئی، یوں حیدرآباد ضلع
تین شہری اور ایک دیہی تحصیل پر مشتمل ہوگا، جب کہ اندرون سندھ کے 4 اضلاع
لاڑکانہ، میر پور خاص، سکھر اور حیدرآباد کے سواباقی 18 اضلاع میں ضلعی
کونسلز قائم ہوں گی۔ اس طرح بلدیاتی نظام کے ساتھ کمشنری نظام بھی بحال رہے
گا اور اس نظام میں سندھ کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے جس کے باعث اس کی
سخت مخالفت کی جارہی ہے۔
نئے بلدیاتی نظام کی منظوری نے سندھ کی سیاسی، مذہبی، قوم پرست جماعتوں اور
عوامی حلقوں میں ہلچل مچادی، حکمران اتحاد میں بھی دراڑیں پڑگئیں۔ متعدد
سیاسی، سماجی اور شہری حلقوں نے سخت رد عمل کا اظہار شروع کردیا۔ اے این پی،
فنکشنل لیگ اور نیشنل پارٹی صوبائی حکومت سے احتجاجاً الگ ہوگئیں۔ ان تینوں
جماعتوں کے 4 صوبائی وزرا اور 2 مشیروں نے اپنے استعفے جمع کرادیے ہیں، جب
کہ پیپلزپارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ اس منظر نامے میں تنہا رہ گئی ہیں۔ اے
این پی کے صوبائی صدر سینیٹر شاہی سید نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے متحدہ
قومی موومنٹ کے سربراہ الطاف حسین پر الزام لگایا کہ وہ لندن سے دہشت گردی
کرارہے ہیں۔ اتحادی جماعتوں کی جانب سے سخت رد عمل پیپلزپارٹی کے لیے ایک
بڑے دھچکے سے کم نہیں ہے۔ صدر زرداری اپنے اتحادیوں کو منانے اور ان کے
تحفظات دور کرنے کے لیے متحرک ہوگئے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ اتحادی جماعتیں اس
موقع سے بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے ”مطالبات“ منواکر دوبارہ حکمران
اتحاد کا حصہ بن جائیں۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب اس بات پر تمام جماعتیں متفق تھیں کہ
بلدیاتی انتخابات قومی الیکشن کے بعد ہوں گے تو صدر زرداری نے یہ بیان کیوں
داغا کہ عام انتخابات سے قبل بلدیاتی الیکشن کرائے جائیں گے۔ بظاہر اس کی
وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ پیپلزپارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ سمیت حکمران
اتحاد کو اپنی ”گورننس“ کا اچھی طرح احساس ہے اور انہیں یقین ہے کہ اگر ان
حالات میں عام انتخابات کے لیے میدان میں اترے تو عوام انہیں بری طرح مسترد
کردیں گے، کیوں کہ موجودہ دور حکومت میں جس طرح کی ریکارڈ کرپشن ہوئی اور
عوام کا بدترین استحصال کیا گیا اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ اس وجہ سے
پیپلزپارٹی نچلی سطح پر اپنی جڑیںمضبوط کرنے کے لیے بلدیاتی انتخابات کرانا
چاہتی ہے ،تاکہ حکومت اور اس کے اتحادیوں کو فائدہ ہو۔ جب کہ اندرون سندھ ن
لیگ اور دیگر قوم پرست جماعتوں کا قائم ہونے والا اثر و رسوخ ختم کرانے کے
لیے بھی ضروری ہے کہ نچلی سطح پر پیپلزپارٹی کی حکومت ہو۔ بلدیاتی انتخابات
کرانے کا فائدہ ایم کیو ایم کو کراچی میں ہوگا۔ اگر سندھ میں بلدیاتی
انتخابات ہوتے ہیں تو مسلم لیگ ن پر بھی دباﺅ بڑھے گا کہ وہ پنجاب میں
بلدیاتی انتخابات کرواکر اپنی پوزیشن مضبوط کرلے، اگر وہ ایسا نہیں کرتی تو
اسے سیاسی طور پر نقصان اٹھانا پڑے گا۔
دوسری جانب ن لیگ، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے بھی نئے بلدیاتی
آرڈیننس کو مسترد کردیا ہے۔ قائد حزب اختلاف چودھری نثار کا کہنا تھا کہ یہ
آرڈیننس صوبے کی تقسیم کے مترادف ہے، اس سے ثابت ہوگیا ہے کہ صدر زرداری
اپنے مفادات کے لیے سندھ کا بھی سودا کرسکتے ہیں۔ جماعت اسلامی کے رہنما
فرید پراچہ کا موقف ہے کہ یہ الیکشن میں دھاندلی کی سازش ہے۔
سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے سربراہ جلال محمود شاہ کی زیر صدارت سندھ کی سیاسی،
مذہبی اور قوم پرست جماعتوں کا اہم اجلاس حیدر منزل کراچی میں منعقد ہوا،
جس میں مسلم لیگ ن سندھ کے رہنما سلیم ضیا، جسقم کے قائم مقام چیئرمین نیاز
کالانی، جئے سندھ تحریک کے قائم مقام چیئرمین حبیب جتوئی، جئے سندھ محاذ کے
سربراہ ریاض چانڈیو، پختونخوا ملی پارٹی، اے این پی اور جماعت اسلامی سمیت
سندھ بچاﺅ کمیٹی میں شامل تمام قوم پرست جماعتوں نے شرکت کی۔ اجلاس میں
مذکورہ آرڈیننس کو سندھ کی تقسیم کی سازش قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا گیا کہ
اسے فوری طور پر منسوخ کرکے صوبے بھر میں سندھ اسمبلی سے منظور شدہ 1979ءکا
بلدیاتی نظام رائج کیا جائے۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ سندھ بچاﺅ کمیٹی
کی جانب سے 13 ستمبر جمعرات کو مذکورہ آرڈیننس کے خلاف پہیہ جام ہڑتال کی
جائے گی، جب کہ وزیراعلیٰ ہاﺅس کا گھیراﺅ بھی کیا جائے گا۔
ایک ہی صوبے میں دو الگ نظام لاگو کرنے کا فیصلہ عوامی نہیں، سیاسی مفادات
کے پیش نظر کیا گیا، تاکہ پیپلزپارٹی اندرون سندھ اور ایم کیو ایم کو کراچی
میں فائدہ ہو، جس کے خلاف تمام جماعتیں سراپا احتجاج ہیں۔ جب کہ اس آرڈیننس
کو سپریم کورٹ میں چیلنج بھی کردیا گیا ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ حکمرانوں کو عوام کے حقوق کو اپنے سیاسی مفادات کے
بھینٹ نہیں چڑھانا چاہیے بلکہ عوام کے نمایندوں کو شہریوں کو ریلیف دینے کے
لیے ایسا نظام نافذ کرنا چاہیے جس پر تمام جماعتوں کا اتفاق ہو۔ اگریہ
آرڈیننس عوام کے حقوق کے تحفظ کا ضامن ہوتا، تو اپوزیشن احتجاج اور حکمران
اتحاد میں شامل جماعتیں ہر گز حکومت سے الگ ہونے پر مجبور نہیں ہوتیں۔ عوام
کا مفاد اسی میں ہے کہ ایسا بلدیاتی نظام رائج کیا جائے جو حکمرانوں کے
نہیں، بلکہ عوام کے مفادات اور ان کے حقوق کے حصول میں معاون ہو۔ |