کیا آزاد بلوچستان کے لیے ایک اہم پیش رفت۔۔۔!
بلوچستان کی سنگین صورتحال اور لاپتہ افراد کے معاملے کا جائزہ لینے کے لئے
اقوام متحدہ کے وجد کی بلوچستان آمد کی خبریں زوروں پر ہیں- بلوچ قوم پرست
رہنما اقوام متحدہ وفد کی بلوچستان آمد کا خیرمقدم کرنے کے ساتھ ساتھ اس
خدشے کا اظہار بھی کررہے ہیں کہ یو این ٹیم کو حقیقت سے دور رکھا جائیگا
اور پاکستان حکام ان کی آزادانہ نقل و حرکت میں مشکلات پیدا کرکے صورتحال
سے آگاہی حاصل کرنے سے روکنے اور غلط معلومات فراہم کرکے گمراہ کرنیکی
کوششیں کریں گے- جبکہ دوسری جانب گزشتہ دنوں سینٹ اجلاس میں حکومتی
اتحادیوں اور اپوزیشن جماعتوں نے بلوچستان میں اقوام متحدہ کے امن مشن کی
آمد کو انتہائی خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ امن مشن کے بعد امن فوج بھی
آسکتی ہے- سینٹ اراکین کی تشویش بلوچ رہنماؤں کے خدشے کو تقویت دینے کیساتھ
ساتھ اس جھوٹ کا پردہ بھی چاک کرتی ہے کہ بلوچستان کے حالات کی خرابی میں
چند لوگوں کا ہاتھ ہے- اگر بلوچستان کے حالات نا خوشگوار نہیں اور وہاں
گڑبڑ پھیلانے والے مٹھی بھر عناصر ہیں تو سینٹ میں حکومت اور اپوزیشن
اراکین کیونکر اس مسئلے پر ہمنوا بن کر اقوام متحدہ کی ٹیم کی بلوچستان آمد
پر خفگی کا اظہار کررہے ہیں البتہ ان کی تشویش کو بجا کہا جاسکتا ہے کہ
بلوچستان میں امن فوج بھی آسکتی ہے- کیونکہ بلوچستان کے حالات وہاں
ہونیوالے مظالم کی خود گواہی دیتے ہیں- ایسے میں اگر کوئی غیر جانبداری سے
جائزہ لیتا ہے تو اس پر وہاں مداخلت کرنا واجب ہوجاتا ہے-
پاکستانی پارلیمنٹ کے نمائندوں کی تشویش اس بات کی واضح کرتی ہے کہ ان
نمائندگان کو بلوچستان کے حالات کا درست ادراک ہے مگر وہ اپنی ریاست کی
بقاء کو ملحوط خاطر رکھتے ہوئے حقائق پر پردہ ڈالنے اور اس انسانی مسئلے کو
دبانے کی کوشش میں لگے ہیں پاکستان کی سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کی
علمبردار تنطیمیں اگر واقعی بلوچستان مسئلے کے مثبت حل کی خواہشمند ہیں تو
وہ حکومت پاکستان اور اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ ڈالیں کہ وہ اقوام متحدہ کی ٹیم
کو بلوچستان کی صورتحال کا جائزہ لینے اور اقدامات کے حوالے سے خلل نہ
ڈالیں- |