نائن الیون اور قائد اعظم

قائداعظم محمد علی جناح اپنی زندگی کے آخری ایام میں بستر مرگ پر اس عزم کو دوہرا تے ہوئے فرما رہے تھے ۔"خدائے عظیم و برتر کی قسم ، جب تک ہمارے دشمن ہمیں اٹھا کر بحیرہ عرب میں نہ پھینک دیں ، ہم ہار نہ مانیں گے ، پاکستان کی حفاظت کےلئے میں تنہا لڑوں گا ، اسوقت تک لڑوں گا جب تک میرے ہاتھوں میں سکت ہے اور جسم میں خون کا ایک قطرہ بھی موجود ہے مجھے آپ سے کہنا ہے کہ اگر کوئی ایسا وقت آجائے کہ پاکستان کی حفاظت کےلئے جنگ لڑنے پڑے تو کسی صورت ہتھیار نہ ڈالیں ، پہاڑوں میں ، جنگلوں میں اور دریاﺅں میں جنگ جاری رکھیں ۔"(ڈاکٹر ریاض علی شاہ کی کتاب ، قائد اعظم کے آخری ایام)

قائداعظم کو کیا معلوم تھا کہ بستر مرگ پر جو وصیت قوم کو کر رہے ہیں ، ملت کے پاسبان صرف ایک ٹیلی فون کال پر اس ڈر سے ہتھیار ڈال دیں گے کہ" اگر ان کا ساتھ نہیں دیا تو پاکستان کو پتھر کے دور میں پہنچا دیں گے۔"قائداعظم کو کیامعلوم تھا کہ جس تاریخ کو ان کی رحلت ہو رہی ہے اسی تاریخ پاکستان کے حکمران اپنی قوم کو امریکہ کی غلامی میں دینے کےلئے سرتسلیم کئے ہونگے ۔

The Balck Banners : The Inside Story of 9/11 and the war against Al- Qaaedaنامی کتاب جو ایف بی آئی کے سابق اہلکار علی صوفان کی یادوں پر مشتمل تھی اس کے متعدد حصے کتاب سے اس وجہ سے نکلوا دئے کیونکہ گیارہ ستمبر کے واقعے کے حوالے سے متاثرہ عناصر کی جانب سے لاحق خطرات سے سی آئی اے کی بے اعتنائی کے بارے میں معتبر ثبوت و شواہد پیش کئے گئے تھے۔دنیا اب تک گیارہ ستمبر کے واقعے کے حوالے سے امریکی عزائم سے بخوبی واقف ہوچکی ہے اور امسال بھی بڑی تقاریب کا اہتمام کیا جائے گا اور گیارہ ستمبر کے دن تین ہزار افراد کی ہلاکت کا دن منایا جائے گا۔لیکن کوئی ان لاکھوں افراد کی یاد میں موم بتیاں کب جلائے گا جو لاکھوں کی تعداد میں کلسٹر بموں کی برسات میں ہلاک کردئے گئے ، لاکھوں کی تعداد میں معذور کردئے گئے اور آج بھی روزانہ بے گناہ انسان بیرونی جارحیت کے ہاتھوں نقصان اٹھا رہے ہیں۔ایک ایسی مملکت جو دنیا میں امن قائم کرنے دعویٰ کرتی ہو لیکن خود ایسے اپنی عوام کے لئے آتشیں اسلحہ رکھنے کی قانونی حیثیت حاصل ہو، تیس کروڑ کی آبادی والے ملک امریکہ میں بیس کروڑ آتشیں ہتھیار موجود ہیں۔جو ظاہر کرتا ہے کہ کسی قوم کے مزاج کو ۔ امریکہ میں تشدد اور خون ریزی کی ثقافت اس قدر بھیانک ہوگئی ہے کہ بڑی تعداد میں ملیشیا گروپ سرگرم ہیں جس میں سے بعض مسلح کاروائیوں کو اپنی ترجیحات میں شامل کیا ہوا ہے۔اس کے ساتھ دنیا میں کوئی ایسا ملک نہیں ہے جہاں اگر جنگ ہو رہی ہو اور امریکہ اس میں اپنا کردار ادا نہ کر رہا ہو ، پوری دنیا میں امن کو جنگ میں تبدیل کرنے والا امریکہ ایک زمانے میں کمیونزم کے خطرے کا مقابلہ کرنے کےلئے داخلی اور خارجہ پالیسیاں مرتب دیتا رہا اور اس کے لئے اس نے ہر قوم اور ہر مذہب کو استعمال کیا ، بعد ازاں نام نہاد ریڈیکل اسلام کی باری آئی تو عراق کیمیائی ہتھیاروں کے نام پر امریکی جارحیت کا نشانہ بنا تو افغانستان نائن الیون کے بہانے حالت جنگ سے نکل نہ سکا ، پاکستان کی خارجہ پالیسوں کی سبب افغانستان کے اندرونی معاملات میں مسلسل مداخلت نے خود پاکستان کو دہشت گردی کا اکھاڑا بنا دیا ۔

قائد اعظم جانتے تھے کہ بیرونی جارحیت کیا ہوتی ہے اور اس کے لئے کس عزم کی ضرورت ہے ۔انگریز مسلمانوں کے خلاف کیا کرنا چاہتا تھا اس کے متعلق قائد اعظم نے اکتوبر 1938ئسندھ مسلم لیگ کی سالانہ کانفرنس میں کہا تھا کہ "برطانیہ ہندوستان کے مسلمانوں کو بھیڑیوں کے حوالے کرنا چاہتا ہے ، اس میں شبہ نہیں کہ برطانیہ سے وہی بازی لے جا سکتا ہے جس میں قوت ہو ۔"اب انھیں کیا معلوم تھا کہ ایسا وقت بھی آئے گا جب پاکستان کی سرزمیں ایسے بھیڑیوں کے ہاتھوں پامال ہوگی جہاں ڈالروں کے عوض سینکڑوں پاکستانیوں کو امریکہ کے حوالے کردیا گیا ، جہاں امریکہ کی خوشنودی کےلئے اقتدار اسی قوتوں کو دے دیا گیا جن کے نزدیک پاکستانی جان کی کوئی اہمیت نہیں بلکہ اپنے اقتدار کی طوالت کے لئے رسہ کشی 63سال سےغریب عوام کی بد حالی کا موجب بن رہی ہے۔

9/11کے دن گیارہ منٹوں میں فولاد اور سینمٹ کا وہ ڈھانچہ تباہ ہوگیا جو دنیا میں معاشی استعارہ کہلایا جاتا تھا ۔امریکن آرکیٹیکٹ ایسوسی ایشن کے رکن رچرد گیج نے کہا تھا کہ" فیڈرل ایمرجنسی ڈیپارٹمنٹ اور نیشنل اسٹینڈرڈ اینڈ ٹیکنالوجیکل انسٹی ٹیوٹ نے ڈبلیو ٹی سی کے کنارے عمارت کے انہدام کے بارے میں جو دلیلیں پیش کیں ہیں وہ ناقابل قبول اور ناقص ہیں اور حقائق سے تضاد رکھتی ہیں۔"امریکہ کے تحقیقاتی گروہ کی جدید ترین تحقیقات سے صاف ظاہر ہوگیا ہے کہ گیارہ ستمبر کے واقعات جھوٹ کا پلندہ تھے ۔ڈیجیٹل جرنل کی ویب سائٹ کے مطابق امریکہ میں سول انجیئنرز اور فنِ تعمیر کے ماہرین کے گروہ نے وسیع تحقیقات انجام دینے کے بعد یہ نتیجہ اخذکیا کہ ورلڈ ٹریڈ سینٹرکی جڑواں عماررتوں کا انہدام کے حوالے سے عالمی میڈیا میں جو کچھ بتا یا گیا کہ یہ دو طیارے عمارت کے ٹکرانے کی وجہ سے سبب بنے تو ایسا ممکن نہیں ہے کیونکہ صرف طیارہ انجن کے نتیجے میں لگنے والی اتنی شدت نہیں رکھتی کہ وہ لوہے اورفولاد کو پھگالے دے۔ماہرین کا کہنا تھا کہ عمارتیں طیاروں کے ٹکرانے کے باعث نہیں بلکہ ان عمارتوں میں پہلے ہی دہماکہ خیز مادہ نصب کیا گیا تھا جس کے سبب کثیر منزلہ عمارت کا نہدام ہوا اور تین ہزار افراد لقمہ اجل بنے ۔ جس کا انتقام سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے تحت افغانستان میںا علانیہ اور پاکستان میں غیر اعلانیہ جنگ کرکے لیا گیا اور لاکھوں انسانوں کو مفادات کی بھینٹ چڑھادیا گیا۔جس کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔

لارڈ مونٹ بیٹن 13اگست 1947ء کو انتقال ِ اختیارات کے سلسلہ میں کراچی آیا ہوا تھا تو اس نے پاکستان کے گورنر جنرل قائداعظم سے کہا تھا کہ پاکستان کو حکومت مل رہی ہے مجھے یقین ہے کہ جہاں تک غیر مسلم اقلیتوں کا تعلق ہے ، پاکستان شاہنشاہ ِ اکبر کی (رواداری) کی پالیسی پر عمل کرے گا۔ اس پر قائد اعظم نے جواب دیا کہ ہمیں اس تلقین کی ضرورت نہیں ۔ ہم ان روایات کے حامل ہیں جن کی رو سے ہمیں غیر مسلموں کےساتھ رواداری ہی کا نہیں بلکہ فیاضیانہ سلوک کرنے کی تعلیم دی گئی ہے۔

یہ تھا ملت اسلامیہ کا وہ چراغ جس نے نائن الیون 1948ئ تک لاکھ اندھیروں کا مقابلہ کیا اور کامیاب و کامران دنیا سے رخصت ہوا ان کی وفات پر دنیاکے عظیم سیاست دانوں اور مفکروں نے ان کےلئے خراج تحسین پیش کیا ۔ حتی کہ لندن ٹایمز جیسے اخبار نے لکھا ۔"انہوں نے اپنی ذات کو ایک بہترین نمونہ پیش کرکے اپنے اس دعوی کو ثابت کردیا کہ مسلمان ایک علیحدہ قوم ہے ۔ ان میں وہ ذہنی لچک نہیں تھی جو انگریز کے نزدیک ہندوستانیوں کا خاصہ ہے۔ان کے خیالات ہیرے کی طرح قیمتی مگر سخت ، واضح اور بین ہوتے تھے ۔ ان کے دلائل میں ہندو لیڈروں جیسی حیلہ سازی نہ تھی بلکہ وہ جس نقطہ نظر کو ہدف بناتے تھے اس پر براہ راست نشانہ باندھ کر وار کرتے تھے وہ ایک ناقابل تسخیر حریف تھے "مضمون کا سر عنوان نائن الیون اور قائد اعطم لکھنے کا مقصد یہی تھا کہ پاکستان کس قدر مشقت اور لازوال قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا اور سرزمین کی حفاظت کے حوالے سے قائداعظم کے خیالات کیا تھے لیکن ایک نائن الیون کے سوچے سمجھے منصوبے کی سازشوں نے لاکھوں انسانوں کی جانی و مالی قربانیوں کو کس قدر اپنوں کے ہاتھوں روند ڈالا ۔پاکستان کو لگنے والے زخم کسی پرائے کے دَین نہیں بلکہ اپنے ہی لوگوں کی کارستانیاں ہیں ۔ ملکی خارجہ و داخلہ پالیسی اگر قائد اعطم کے افکار اور مقاصد تشکیل پاکستان کے تحت رکھی جاتی تو آج ایک فون پر دہمکی کے ڈر سے ملکی حرمت کو غیروں کے پاﺅں تلے روندنے کی کوئی جرات نہیں کرتا ۔
Qadir Afghan
About the Author: Qadir Afghan Read More Articles by Qadir Afghan: 399 Articles with 296486 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.