سندھ میں بلدیاتی نظام کے حوالے
سے سندھ کی دو بڑی سیاسی جماعتوں میں اتفاق ہوگیا ہے جن میں حکمراں جماعت
پیپلز پارٹی اور دوسری سندھ حکومت میںشامل سب سے بڑی اتحادی متحدہ قومی
موومنٹ شامل ہیں ۔جو اپنے اپنے حلقوں میں بھرپور عوامی منڈیٹ رکھتی ہیں یہ
دونوں جماعتیں پچھلے ڈھائی سالوں سے بلدیاتی نظام کی ازسرِنو تشکیل کے لیے
مذاکرات کی میز پر سرگرم رہی ہیں اور اب بالآخر دونوں جماعتوں نے سندھ اور
سندھ کی عوام کے وسیع تر مفاد میں ایک ایسے نظام پر اتفاق کرلیا ہے جس سے
سندھ کی ترقی و خوشحالی کو ممکن بنایا جاسکے اس نظام کے تحت سندھ کے پانچ
بڑے شہروں کو میٹروپولٹین کا درجہ دیتے ہوئے پورے سندھ میں ڈسٹرکٹ کونسلوں
تعلقہ کونسلوں یونین کونسلوں کا قیام عمل میں لایا گیا ہے تاکہ عوام کے
مسائل جلد سے جلد اور انکے دروازے پر حل ہوسکیں ۔اس نئے بلدیاتی نظام کو
سندھ پیپلز لوکل گورنمنٹ 2012 ءکا نام دیا گیا ہے جسے فِل حال ایک آرڈیننس
کے زریعے سندھ میں فل فور نافظ بھی کردیا گیا ہے اور بہت جلد صوبائی اسمبلی
سے باقائدہ قانون سازی کے ساتھ ایک بل کی صورت میں منظور بھی کرایا جائے گا
۔ جہاں تک حکمراں جماعت کی اتحادی متحد ہ قومی موومنٹ کی بات ہے تو وہ شروع
دن سے اس نظام کے حق میں بات کرتی آئی ہے اور اس نظام کے نفاظ کے لیے عملاً
کو شش بھی کرتی آئی ہے۔ جہاں تک پیپلز پارٹی کی بات ہے اس نے اپنے پچھلے
کسی حکومتی ادوار میں بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے لیکن یہاں یہ امر قابلِ
ذکر ہے کہ پچھلے حکومتی ادوار میںاس کی حکومت کو دو سال سے زیادہ رہنے ہی
نہیں دیا گیا لہذا پیپلز پارٹی یہ بات کہنے میں حق باجانب ہے کہ بلدیاتی
انتخابات کرانے کا اسے موقع ہی نہیں ملا لیکن اب چونکہ پیپلز پارٹی کو
موجودہ دور ِ حکومت میں بھر پور حکومت کرنے کا موقع ملا ہے لہذا اب وہ اس
بات کو اپنے لیے ڈھال نہیں بنا سکتی اور ویسے بھی پیپلز پارٹی کی موجودہ
کارکردگی ساڑھے چار سالہ دور میں بالکل زیرو رہی ہے لہذا اپنے لیے عوامی
حمایت حاصل کرنا اسکے کے لیے ناممکن ہوگیا ہے اگلے الیکشن میں کامیابی کے
لیے اسے عوام کے دل جیتنے ہونگے شاید اس بات کو پیپلز پارٹی کی قیادت نے
بھی بھانپ لیا ہے کہ اگر سیاسی میدان میں خود کو زندہ رکھناہے تو عوامی
حمایت کا ہونا ضروری ہے اور عوامی حمایت کے لیے عوام کازندہ رہنا ضروری
ہوتا ہے۔ خیر کیسے بھی پیپلز پارٹی نے اپنے ساڑھے چار سالہ دور میں کوئی تو
عوامی کام کیا جو کہ آزاد جمہوریت کے لیے ایک خوش آئند قدم ہے ۔قارئین جیسا
کہ یہ بات سب جانتے ہیں کہ بلدیاتی نظام جمہوریت کی طرف پہلا قدم ہے اور
اصل جمہوریت کی پہچان ہے دنیا میں ہم کسی بھی بڑے سے بڑے جمہوریت پسند اور
ترقیافتہ ممالک پر نظر ڈالیں تو ہمیں وہاں اس نظام کی موجودگی کااحساس ہر
سو پھیلتا نظر آئے گا کیونکہ اس نظام کے بغیر دنیا میں کوئی ملک جمہوریت کو
فروغ دے سکتا ہے نہ اپنے ملک میں ترقی و خوشحالی کے دروازے کھول سکتا
ہے۔لہذا یہ بات ایک روشن حقیقت ہے کہ لوکل گورنمنٹ ہی جمہوریت کی اصل پہچان
جمہوریت کی اصل روح ہے ۔ اور اگر کوئی جمہوریت کو اسکی روح کے بنا اپنانا
چاہتا ہے تو وہ جمہوریت کی آڑ میں اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل چاہتا ہے اسے
نہ جمہوریت سے کوئی سروکار ہے نہ اس ملک سے اور نہ اس ملک کی محبِ وطن عوام
سے ۔لہذا جو جماعتیں اس نظام کی مخالفت کررہی ہیں وہ دراصل آمریت زدہ ذہنوں
پر مشتمل مفا د پرست ٹولہ ہے جنھیں نہ عوام کی حمایت حاصل ہے نہ عوام کے
لیے ان کے دلوں میں محبت ۔اس مفاد پرست ٹولے کو بخوبی علم ہے کہ اگر اس
بلدیاتی نظام کے تحت عوامی حکومت قائم ہوگئی تو ساری دینا کو ان کی حیثیت
اور مقام کا اندازہ ہوجائے گا۔ قارئین وقت آنے پر آپ دیکھیں گے جس بلدیاتی
آرڈنینس کو یہ ملک دشمن سندھ دشمن قرار دے رہے ہیں جب اس آرڈیننس کو اسمبلی
سے پاس کراکے حکومت بلدیاتی انتخابات کا اعلان کرے گی تو یہی مفاد پرست
ٹولہ اسی نظام کے تحت بلدیاتی الیکشن میں بھر پور حصہ لیتا نظر آئیگا ۔
لہذا سندھ کی باشعور عوام کو جمہوریت کے دشمنوں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے
جو اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل کے لیے سندھ میں نفرت و عصبیت کابیج بو کراس
دھرتی کے سچے سپوتوں کو آپس میں لڑانا چاہتے ہیں۔سندھ میں رہنے والے تمام
لوگوں کو چاہیئے کہ وہ سندھ پیپلز لوکل گورنمنٹ آرڈیننس کو سپورٹ کرتے ہوئے
سندھ کی تعمیر و ترقی اور خوشحالی کے لیے اپنا کردار ادا کریں ۔ |