آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے
سیکرٹری جنرل خواجہ امین مختارکا انتقال13ستمبر1997ءکو ہوا۔ان کی میت رات
کو مسلم کانفرنس کے دفتر میں رہی جہاں سردار محمد عبدالقیوم خان،خواجہ
عبدالصمد وانی (مرحوم)اور ان کے چند دوسرے ساتھی رات بھر ان کے پاس موجود
رہے۔اور اگلی صبح ان کا جنازہ اٹھایا گیا۔معروف کشمیری رہنماخواجہ محمدعلی
کنول(مرحوم) ایک طویل عرصہ مسلم کانفرنس کے جنرل سیکرٹری رہے اور ان کی
وفات کے بعد خواجہ امین مختاراپنی وفات تک طویل عرصہ مسلم کانفرنس کے جنرل
سیکرٹری رہے۔ چودھری غلام عباس(مرحوم)اور سردار محمد ابراہیم خان(مرحوم) کے
اختلافات میں خواجہ امین مختار نے سردار محمد ابراہیم خان کا ساتھ دیا۔آپ
آزاد مسلم کانفرنس کے مرکزی بانی رہنماﺅں میں شامل تھے اور پھر آپ سردار
محمد ابراہیم خان کے ساتھ پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے۔آپ چودھری نور حسین
کے بھی قریبی دوست تھے۔خواجہ امین مختار ایک طویل عرصہ سردار محمد ابراہیم
خان کے دست راست رہے۔آپ 1974ءمیں صدر آزاد کشمیر سردار محمد ابراہیم خان کے
مشیر بنے اور 1977ءمیں پاکستان میں مارشل لاءلگنے پر اپنے عہدے سے مستعفی
ہو گئے۔ خواجہ صاحب کی وفات کے چند دن بعد میں نے ان پر ایک کالم لکھا۔ان
کی زبانی سنے کئی تاریخی سیاسی واقعات میرے ذہن میں محفوظ ہیں۔جب بھی کبھی
میرا اپنا لکھا یہ کالم نظروں سے گزرتا ہے تو میری آنکھوں میں آنسو آجاتے
ہیں،یہ آنسو صرف خواجہ امین مختار کے لئے نہیں ہوتے بلکہ ہر اس کشمیر ی کے
لئے ہوتے ہیں جو اپنا گھر،رشتہ دار ،اپنا علاقہ چھوڑ کر آزادی کی تلاش میں
آزاد کشمیر/پاکستان آئے اور عمر بھر عزت نفس کی تگ و دو میں مصروف
رہے۔خواجہ محمد امین مختار کی 15ویں برسی پہ وہی کالم قارئین کے لئے پیش
خدمت ہے۔
قبائلی پٹھان نے ایک کشمیری لڑکے پہ بندوق تانتے ،چلاتے ہوئے کہا کلمہ پڑھو،
اس لڑکے نے بھی اسی تیزی سے جواب دیا کہ تم کلمہ پڑھو پھر دونوں ایک ساتھ
کلمہ پڑھنے لگے ۔اس کے ساتھ ہی وہ لمبا چوڑا قبائلی اس کشمیری لڑکے کو اپنے
بازوﺅں میں اٹھا کر رقص کرنے لگا۔ وہ کشمیری لڑکا کشمیر کے سابق حکمران
ڈوگرہ خاندان کے ایک فرد سلدیو سنگھ کی جائیداد کے منتظم کا بیٹا تھا ۔قبائلیوں
کی آمد پرسلدیو سنگھ اور اس کا خاندان کئی دن پہلے ہی اشم سے جموں بھاگ چکا
تھا۔ اس دبلے پتلے کشمیری لڑکے نے پندرہ بیس لڑکوں کو اکٹھا کیا اور
قبائلیوں کی حمایت سے گاﺅں کا نظام سنبھال لیا ۔ انہوں نے گاﺅں کے نمبردار
کو ساتھ رکھ کر فیصلے بھی صادر کرنے شروع کردیئے۔ اس لڑکے نے اپنی کمر کے
ساتھ ایک چھوٹی تلوار باندھی ہوتی تھی اور ایک طاقتور اور مضبوط جسم کے
لڑکے کے ”رمضانا“ کو اپنی فورس کا انچارج بنا رکھا تھا۔ اس لڑکے کو اس وقت
پتہ نہ چلا کہ کیا ہوا لیکن قبائلی تیزی سے واپس پلٹ گئے، پھر انڈین آرمی
بھی آگئی اور سلدیو سنگھ کا خاندان بھی واپس آگیا لیکن اب ان پاکستان کے
شیدائی اور عقیدت مند لڑکوں کا جینا دو بھر ہو گیا ۔ان مشکل حالات میں بھی
انہوں نے شیخ عبداللہ اور دوسرے بھارت نواز لیڈروں کو دھمکی آمیز خطوط لکھے
اور پاکستان کے حق میں مظاہروں کا سلسلہ جاری رکھا۔ پھر وہ وقت آ گیا کہ جب
صاف محسوس ہونے لگا کہ یا تو نیشنل کانفرنس کے غنڈے ان لڑکوں کو قتل کردیں
گے یا پولیس ٹارچر کرتے ہوئے انہیں معذور بنا دے گی۔ ان حالات میں دو
کشمیری لڑکوں نے ایک ساتھ پاکستان ہجرت کرنے کافیصلہ کیا۔ ان میں سے ایک
کانام خواجہ محمد امین مختار جو اشم کا وہی لڑکا تھا اور دوسرے کا نام
خواجہ عبدالصمد وانی جن کا تعلق صفاپور سے ہے ۔خواجہ عبدلصمد وانی14سال سے
بھی کم عمر میں انہی دنوں سرینگر کے تھانہ کوٹھی باغ میںایک ماہ پولیس
کاشدید تشددسہنے کے بعد رہا ہوئے تھے اور پولیس ان کی دوبارہ گرفتاری کے
لئے چھاپے مار رہی تھی ۔ ان دونوں لڑکوں کی پاکستان کے متعلق معلومات اتنی
ہی تھی کہ پاکستان میں قائداعظم اور لیاقت علی خان ہیں اور کسی کو بھی وہ
نہیں جانتے تھے۔ اس وقت قائداعظم وفات پاچکے تھے جبکہ لیاقت علی خان
پاکستان کے وزیر اعظم تھے ۔ ان لڑکوں نے اپنے طریقے سے حساب لگایا کہ تین
چار مہینے تک دوبارہ قبائلی آئیں گے اور وہ ان کے ساتھ ہی واپس کشمیر آئیں
گے ۔انہوں نے اپنی رہنمائی کے لیے اپنے سے بڑی عمر کے ایک حریت پسند حفیظ
مانسبلی سے اپنے ساتھ پاکستان چلنے کی بات کی کیونکہ وہ قیام پاکستان سے
پہلے پنجاب جا چکے تھے ۔حفیظ مانسبلی نے ہنستے ہوئے کہا کہ لڑکوں پھر سوچ
لو ، جس نے پنجاب کا پانی پیا وہ وہیں کا ہو کر رہ گیا ،لیکن ان دونوں
لڑکوں نے اصرار سے کہا کہ نہیں نہیں ہم تو تین چار ماہ میں واپس لوٹ آئیں
گے ۔پھر یہ تینوں وادی نیلم کے علاقے جندر سیری کے قریب سے سیز فائر لائن
عبور کرتے ہوئے آزادکشمیر پہنچ گئے۔ کئی سال گزر گئے ، لیکن تین چار ماہ کی
مدت پوری نہ ہو سکی ۔حفیظ مانسبلی لاہور چلے گئے، خواجہ امین مختار اور
خواجہ عبدالصمد وانی نے راولپنڈی کے بوہڑ بازار کے ایک مکان میں اکٹھے رہنا
شروع کر دیا ۔دونوں کا نظریہ ایک تھا مقصد ایک تھا ،امین مختار نے سیاست کا
راستہ اپنایا اور عبدالصمدوانی نے سیاست اور صحافت کے ذریعے جدوجہد آزادی
کشمیر کا راستہ اختیار کیا ۔یہ دونوں کشمیری نوجوان قبائلیوں کی مدد سے
مقبوضہ کشمیر کو بھارت سے آزاد کرانے کی امید لے کر آئے تھے لیکن ان کی
جوانیاں پاکستان میں مسئلہ کشمیر اور نظریہ الحاق پاکستان کو زندہ اور سر
بلند رکھنے میں گزر گئیں ۔اور یہی وہ کشمیری نسل تھی جس سے کئی کشمیری یہ
کہتے ہوئے مر گئے کہ ”جب کشمیر آزاد ہو جائے تو میری قبر پر آ کر بتادینا
“۔
میں ہولی فیملی ہسپتال کے انتہائی نگہداشت کے شعبے میں کھڑا خواجہ امین
مختار کے زور زور سے آخری سانس لیتے ہوئے جسم کو دیکھ کر سوچ رہا تھا کہ
کیا میں خواجہ امین مختار کی قبر پر جا کر انہیں کشمیر آزاد ہونے کی نوید
سنا سکوں گا ؟یا پھر میرا کوئی عزیز میری قبر پر آکر آزادی کشمیر کی
خوشخبری سنائے گا ،یا پھر یہ وصیت کچھ اور نسلوں تک سفر کرے گی !لیکن اب
مجھے یہ اطمینان ہے کہ جدوجہد آزادی کشمیر کچھ اور طویل ہو سکتی ہے لیکن
ناکام کبھی نہیں کیونکہ خواجہ امین مختار کی نسل کا جذبہ مجھ میں بھی موجود
ہے ۔
”ان کے گھر والوں اور رشتہ داروں کو اطلاع کر دیں کیونکہ اب یہ تھوڑی ہی
دیر کے مہمان ہیں “۔شاید مریض کے آخری لمحات میں اس کی رشتہ دار خواتین کو
نہ دیکھ کر لیڈی ڈاکٹر کو یہ خیال آیا تھا ۔”اس کا تو پاکستان میں خونی
رشتہ دار کوئی بھی نہیں ہے “۔ لیڈی ڈاکٹر نے کہا لیکن آپ تو بہت سارے لوگ
دن رات ان کے پاس ہوتے ہیں ،میں نے آنسو اپنی آنکھوں سے بہنے سے روکنے کی
ناکام کوشش میں بھرائی ہوئی آواز میں جواب دیا کہ اس آدمی نے ساری عمر
نظریہ اور واقفیت ہی تو کمائی ہے ،اس کے سوا اور کیا ہے اس کے پاس ۔
میں دیکھ رہا تھا کہ ”بڑے بڑے لوگ “خواجہ امین مختار کے آخری سانس لیتے
ہوئے جسم کو دیکھنے آ رہے تھے اور اپنی بھر پور حمایت کا اعلان کر رہے تھے
میری نگاہوں میں 93 ءکا وہ وقت آگیا جب خواجہ امین مختار پر فالج کا حملہ
ہوا تھا ۔اس وقت وہ مکمل ہوش میں رہے ۔اب ان کی موت پر جو سیاسی شخصیت سب
سے آگے رہی انہوں نے 1993 ءمیں خواجہ صاحب کی 3 ماہ کی بیماری کے دوران ایک
مرتبہ بھی انہیں دیکھنے کی زحمت گوارہ نہ کی ۔وہ اپنے پرانے ”خیر خواہوں
“کو یاد کرتے رہتے لیکن ان میں سے ”بڑے لوگوں “کے پاس وقت نہ تھا ۔ ایک
”بڑے شخص “جن کی رفاقت میں خواجہ صاحب ایک طویل عرصہ رہے ،تو خواجہ صاحب کی
بیماری کے بارے میں بتایا لیکن انہوں نے الٹا مجھ پر ذمہ داری ڈالتے ہوئے
کہا کہ ”تم میری طرف سے امین کو دیکھنے جانا “میں نے جواب دیا جناب میں تو
روزانہ انہیں دیکھنے جاتا ہوں ۔وہ ”بڑے صاحب “فرمانے لگے نہیں ،ایک مرتبہ
میری طرف سے دیکھنے جانا ،ان بڑے صاحب سے میں زندگی میں پہلی مرتبہ کلام کر
رہا تھا ۔ان ”بڑے لوگوں “کو آتے دیکھ کر میرے ذہن میں پرانے واقعات گھوم
رہے تھے ،93ءکے ،اس سے پہلے کے اور اس کے بعد کے ، کیا کیا ستم ظریفیاں
ہوئیں اس درویش صفت انسان کے ساتھ شاید ان مشکل ترین حالات سے خواجہ صاحب
صرف اپنی مضبوط قوت ارادی کے بل بوتے ہی نبرد آزما ہو سکے۔ کہا ،لکھا بہت
کچھ جا سکتا ہے لیکن اس وقت مناسب نہیں ۔
میں نے 93ءکے اٹیک کے بعد کئی مرتبہ انہیں پر زور طریقے سے کہا کہ آپ ایک
ملازم رکھ کر زیادہ وقت مطالعہ او رآرام کریںاور اپنی یاداشتیں لکھیں لیکن
وہ زندگی کو حقیقتاََ عارضی زندگی کے طور پر گزارنے والا شخص میرے اصرار پر
ہنس دیتا اور کہتا ”ہوئے اس قدر مہذب کہ کبھی گھر کا منہ نہ دیکھا کٹی عمر
ہوٹلوں میں مرے ہسپتال جا کر “ لوگوں پر پیسے لٹانے والا اور لوگوں کو کھلا
پلا کر جیبیں خالی کرکے خوش ہونے والے شخص نے کبھی اپنی کوئی کمزوری یا
ذاتی دکھ کو کبھی بھی کسی کے سامنے عیاں نہیں ہونے دیا ۔خواجہ صاحب میری
تحریروں کو پڑھ کر بہت خوش ہوتے اور کہتے کہ تم میرے جذبات کی ترجمانی کرتے
ہو ۔وہ کئی مرتبہ میری تحریروں پر خوش ہو کر مجھے سو دو سو روپے انعام کے
طور پر دے کر کہتے کہ اگر میرے پاس پیسہ ہوتا تو تمھیں ایک لاکھ روپے انعام
دیتا ۔اپنی وفات سے چھ سات دن قبل ان سے میری کافی دنوں بعد ملاقات ہوئی
میں اپنے کمرے سے نکل رہا تھا کہ اچانک وہ سامنے آگئے ۔میں نے انہیں دیکھا
انہوں نے ہاتھ میںچھڑی پکڑی ہوئی تھی ہٹلر کی طرح کی مونچھ کے بال بہت بڑھے
ہوئے تھے اور اپنی بیماری سے کچھ تھکے تھکے سے لگ رہے تھے ۔مجھ سے کہنے لگے
”اطہر یار تو اب ملتا ہی نہیں ہے “ میں نے کہا چاچاجی صبح آٹھ بجے دفتر
پہنچناہوتا ہے واپسی چھ ساڑھے چھ بجے ہوتی ہے اور کھر آکر بھی باقی وقت
لکھنے پڑھنے میں گزر جاتا ہے کہنے لگے ”مجھے فون تو کر سکتے ہو “میں نے کہا
کہ آپ کو کہاں فون کرتا ۔کہنے لگے ”کیوں تم مجھے دفتر (مسلم کانفرنس )میں
فون نہیں کر سکتے “جونہی میرا کوئی فون آئے وہ فوراََ گاڑی بھیج کر مجھے
اطلاع دے دیتے ہیں ۔
گیارہ ستمبر کو میں ”کے پی آئی “ کے دفتر میں بیٹھا تھا کہ اچانک ایک خبر
کمپوز ہو کر میرے سامنے آئی ،”خواجہ امین مختار کو برین ہیمرج ، انہیں ہولی
فیملی کے انتہائی نگہداشت کے شعبے میں داخل کر دیا گیا ہے ۔ “ یہ خبر پڑھتے
ہی میں حیران وپریشان ہو گیا کہ صبح ہی تو وہ ٹھیک ٹھاک گھر پر موجود تھے
اور میرے ساتھ ہی انہوں نے ناشتہ کیا تھا۔ انہوں نے راولپنڈی پریس کلب میں
”یوم وفات قائداعظم “پر مسلم کانفرنس کی ایک تقریب میں جانا تھا ۔حضرت
قائداعظم کی شخصیت سے انتہائی عقیدت رکھنے والے خواجہ صاحب پر عظیم قائد کے
یوم وفات کے دن ہی موت حملہ آور ہوئی ۔نظرئیہ پاکستان اورقائد اعظم محمد
علی جناحؒ ان کے ایمان کا حصہ تھے۔وہ ہمیں بچپن سے ہی قائد اعظم اور تحریک
کی باتیں سناتے تھے،یوں میری سیاسی تربیت میں ان کا بھی کافی حصہ ہے۔قائد
اعظم کی ذات سے انہیں بے پناہ عقیدت تھی اور وہ انہیں اپنا حقیقی قائد کہتے
تھے۔انہوں نے نہ تو کوئی جائیداد بنائی نہ ہی مال بنانے پر کوئی توجہ دی۔
ڈاکٹروں کے مطابق ان کے دماغ کی بڑی رگیں پھٹ چکی تھیں اور ان کی رائے کے
مطابق یہ فوری موت کی صورتحال تھی لیکن مضبوط قوت ارادی والا خواجہ امین
مختار ،جس نے مشکل ترین حالات میں کبھی ہار نہیں مانی دو دن موت سے لڑنے کے
بعد 13 ستمبر کو شام کے قریب پانچ بجے زندگی کے دوسرے اور مستقل سفر کی
جانب روانہ ہو گیا ۔ برین ہیمرج کی خبر پڑھتے ہی آپ کی زندگی اور شخصیت
میرے ذہن میں گونجنے لگے ۔شاید تاریخ کے ادوار میں جینے والا شخص خواجہ
محمد امین مختار کی شخصیت اور اس کی ذات کے دکھ کو اچھی طرح محسوس کر سکے
خواجہ صاحب کی قبر پر مٹی ڈالنے کے بعد آپ کے دوستوں ،ساتھیوں نے قبر کی
مٹی پر ہتھیلیاں رکھتے ہوئے کہا ،”اچھا امین مختار خدا حافظ“ ۔ |