این ڈی اے کی سیاسی شعبدہ بازی

ہرسیاستداں کےلئے یہ بات اہم ہوتی ہے کہ اس کا نام سرخیوں میں اوراس کا بیان خبروں اور تبصروں میں بحث کا موضوع بنتا رہے۔ چنانچہ چند روز قبل با ل ٹھاکرے نے اس وقت سرخیوں میں جگہ پائی جب انہوں نے اپنے اخبار ’سامنا‘ میں شائع ایک انٹرویو میں مسزسشما سوراج کو وزیراعظم کے منصب کےلئے بی جے پی میں اہل ترین لیڈر قرار دیا۔ان کے اس بیان پر ابھی ٹی وی چینلز میں ’مباحثے ‘جاری ہی تھے کہ شرد یادو کا یہ بیان صحافیوں کےلئے مرغوب شگوفہ بن گیا کہ جنتا دل (یو) گجرات اسمبلی کا چناﺅ تنہا لڑے گی۔ دہلی سے شائع ہونے والے جاگرن گروپ کے اردو اخبار کو نہ جانے کہاں سے یہ سراغ مل گیا کہ شردیادو کے اس اعلان سے ’مودی کی نیند حرام ‘ ہوگئی، جس کو اس نے اپنی شہ سرخی بنایا اور ساتھ ہی جلی حروف یہ اعلان بھی کردیا کہ ” گجرات میں این ڈی اے منتشر، جے ڈی (یو) علیحدہ“۔ حقیقت واقعہ اس سے قطعی متضاد ہے۔ جے ڈی (یو) کے الگ الیکشن لڑنے سے مودی کی راہ آسان ہوگی، بھاجپا شرد یادو کی ممنون ہوگی ، نہ مودی کی نیند اڑنے کی کوئی وجہ ہے اور این ڈی اے میں انتشارکا قرینہ ہے۔

وزیراعظم بننے کی خواہش
یہ کوئی غیر فطری بات نہیں کہ آڈوانی سے لیکر گڈکری تک بی جے پی کے کئی چھوٹے بڑے لیڈر وزیراعظم بن جانے کے خواہش مند ہیں ۔ سیاست کافطری خاصہ یہ ہوتا ہے کہ ہر کارکن اور ہر لیڈر یہ چاہتا ہے وہ آج جس پائدان پر کھڑا ہے، کل کو اس سے اگلے پائدان پر پہنچ جائے۔ اس لئے اگر سشما سوراج، ارن جیٹلی، نریندر مودی، راج ناتھ سنگھ، یشونت سنہا، جسونت سنگھ وغیرہ بھاجپائی لیڈروںکے علاوہ دیگر پارٹیوں کے لیڈر پرکاش سنگھ بادل، نتیش کمار ، کماری جئے للتا ، ملائم سنگھ یادو اور کماری مایاوتی وزیراعظم بن جانے کے آرزو مند ہیں اور اس کےلئے کچھ جوڑ توڑ بھی کررہے ہیں تواس میںکوئی تعجب کی بات نہیں۔ مگر سنسنی خیزی کی صحافت نے سیاست کے اس پہلو کو ایک چیستاں بنا دیا ہے۔ وزیراعظم کا فیصلہ دو سال بعد پارلیمانی چناﺅ کے نتائج آجانے پر پیدا شدہ سیاسی حالات کریں گے نہ کہ شری موہن بھاگوت، بال ٹھاکرے، دگ وجے سنگھ یا دیگر کسی لیڈر کی آج کی خواہشات کے تحت فیصلہ ہوگا۔

بال ٹھاکرے کی چال
لیکن اس کے باوجود بال ٹھاکرے کا یہ بیان قومی سیاست میں اپنی اہمیت رکھتا ہے کہ ان کی نظر میں وزیر اعظم کے منصب کےلئے سشما سوراج مودی کے مقابلے زیادہ موزوں ہیں۔ ان کا یہ خیال ایک حد تک درست بھی ہے۔مسز سشماسوراج کو پارلیمانی سیاست کا وسیع تجربہ ہے۔جبکہ مودی گجرات تک محدود ہیں۔ان کی سیاست چھ کروڑ گجراتیوں اور گجرات کی اسمیتا کی ہنکار تک محدود ہے جبکہ سشما سوراج قومی سطح پر سرگرم رہی ہیں اور نسبتاً اعتدال پسند سمجھی جاتی ہےں۔ لیکن بہر حال ان کی شخصیت وزیراعظم کے منصب کے تقاضے پورے نہیں کرتی۔ان کی انتظامی صلاحیت سوالوں کے گھیرے میں ہے، سیاست پر ان کی گرفت کمزور ہے۔ جب سے وہ اپوزیشن لیڈر بنی ہیں، ان کی حکمت عملی کی بدولت پارلیمنٹ مفلوج ہوکر رہ گئی ہے اور ان کی کئی چالیں الٹی پڑی ہیں۔ وہ جذبات سے مغلوب ہوکراپناسرتک منڈانے پر آمادہ ہوجاتی ہیں۔ ٹھاکرے جیسے لیڈروں کےلئے ان کواپنے اشاروں پر نچانا آسان ہوگا۔ہر چند کہ ان کو خاتون ہونے کا کچھ فائدہ پہنچ سکتا ہے لیکن نہ تووہ اندرا گاندھی کی طرح حوصلہ مند ہیں اور نہ سونیا گاندھی کی طرح صاحب تدبر ہیں۔

بیان کا ایک اہم پہلو
بال ٹھاکرے کے بیان کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ اس سے جو ابہام پیدا ہوگیا ہے وہ لوک سبھا چناﺅ میں بی جے پی کوٍ فائدہ پہنچائے گا۔یہی وجہ ہے بی جے پی کے کسی لیڈر نے اس پر منفی ردعمل ظاہر نہیں کیا بلکہ محتاط انداز اختیار کیا ہے۔اس ابہام سے پارٹی کو فائدہ اس طرح پہنچے گا کہ مودی کے نام پر اقلیت دشمنی کی لہر پر بہہ جانے والاکٹرہندو ووٹ جوش و خروش کے ساتھ پارٹی کی جھولی میں جائےگا اور سشما سوراج کے نام پرخصوصاً خواتین اورعموماً اعتدال پسندہندو ووٹ راغب ہوگا۔

سشماسوراج کی تائید میں ٹھاکرے کے موقف پر جو تبصرے الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا میں آرہے ہیں ان میں ا س بات کوابھارا جارہاہے کہ ٹھاکرے خود کٹر ہندو پرست ہیںاور وہ اس بات کوہرگز پسند نہیں کریں گے کہ ایک دوسرے کٹر ہندو فرقہ پرست لیڈر کا قد قومی سطح پراتنا بڑھ جائے کہ وہ خود بونے نظر آنے لگیں۔چنانچہ انہوں نے یہ شگوفہ مودی کی مخاصمت میں چھوڑا ہے۔اس قیاس میں سچائی ہوسکتی ہے، لیکن اس کا مطلب تویہی ہوا ہندتووا کے نام پر نفرت کی سیاست کرنے والے خود آپس میں دست و گریبان ہیں؟ یہ بات عام مشاہدے خلاف ہے۔ ان کی آپس کی مخالفتیں صرف ذاتی اغراض کی خاطر ہوتی ہیں ورنہ سارے فرقہ پرست عناصرایک دوسرے کے معاون ہوتے ہیں۔ البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ بال ٹھاکرے نے مودی کو یہ جتادیا ہے کہ تنہا تم ہی ہندو کٹر فرقہ پرستوں کے نمائندہ نہیںہو، ہم بھی ہیں ۔تم ہم کو نظر انداز کرکے آگے نہیں بڑھ سکتے ۔ بڑھنا چاہتے ہوتو ہم سے معاملہ طے کرنا ہوگا۔ چنانچہ بال ٹھاکرے نے آج جو پوزیشن سشماسوراج کی تائید اور نریندرمودی کی کاٹ میں اختیار کی ہے وہ ہرگزکوئی ایسی پوزیشن نہیں جوکل کو بدلی نہ جاسکتی ہو اور جس کو بدلنے کےلئے نریندر مودی اور شری بھاگوت کی جھولی میں کوئی حل نہ ہو۔ سیاست میں مخالفت کا مطلب ہوتا ہے زیادہ قیمت کی طلب، زیادہ حصے کا مطالبہ۔ اب اگر مودی کو ملک کی بدقسمتی سے وزیراعظم بن جانے کا موقع ملتا ہے تو شیو سینا سے معاملہ طے کرلینانہ توان کےلئے بعید از قیاس ہوگااورنہ سنگھ کےلئے گھاٹے کا سودا ہوگا ۔ اگر بات ممبئی ، ناگپوریا دہلی سے نہیںبنی توتل ابیب کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں۔جس کی معاونت کو وہ ملک کےلئے مفید تصور کرتے ہیں ،پارٹی کےلئے اس سے مددلینے میں کیا قباحت ہوسکتی ہے؟

شرد یادو کا شگوفہ
شرد یادو کے اس بیان میں کوئی چونکا دینے والی بات نہیں کہ ان کی پارٹی آئندہ اسمبلی الیکشن میں گجرات میں اپنے امیدوار کھڑے کریگی اور بھاجپا سے کوئی انتخابی سمجھوتہ نہیں کریگی۔ جنتا دل (یو ) نے 2002 اور2007کے اسمبلی انتخابات میں بھی ایسا ہی کیا تھا۔ 2007کے چناﺅ میں اس نے ریاست کی 182 سیٹوںمیں سے کل 35پر اپنے امیدوار کھڑے کئے تھے۔ان میں سے 33کی ضمانتیں ضبط ہوگئی تھیں۔واحد امیدوار چھوٹو وساوا تھے جو جھگڈیا کی سیٹ سے چناﺅ جیتے تھے۔پارٹی کو ان 35سیٹوں پر کل ملاکر 3.68 فیصد (دس ہزار میں 368) ووٹ ملے تھے۔ممکن ہے اس بار یہ فیصد کچھ بڑھ جائے مگر کسی بڑی کامیابی کی توقع نہیں کی جاسکتی۔

اہم سوال غور طلب یہ ہے اگرگزشتہ چناﺅ میں جے ڈی (یو)نے امیدوار کھڑے نہ کئے ہوتے تو یہ ووٹ جو اس کو ملا کس کو جاتا ؟ ایک بات تو صاف ہے، بھولا بھٹکا ہی سہی، جو ووٹ جے ڈی (یو) کو ملا وہ مودی کے پرستاروںکا ووٹ ہرگز نہیں تھا۔ اگر جے ڈی (یو)نے امیدوار نہ کھڑے کئے ہوتے تو یہ ووٹ یقینابھاجپا کے مدمقابل کسی دوسرے امیدوار کو جاتا۔ اس کا صاف مطلب یہ ہوا کہ جے ڈی یو امیدواروں نے مودی کے مخالفوں کے ووٹ کاٹ کرباالواسطہ طور پر بھاجپا امیدواروں کی مدد کی۔ مسٹر وساوا نے اب بھی انہی 35سیٹوں پر امیدوار کھڑے کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے، جب کہ مسٹر شرد یادو نے ایک سو سیٹوںکی بات کہی ہے۔ یہ بات غیر اہم ہے کہ جنتا دل (یو ) کے کتنے امیدوار کھڑے ہونگے؟ قیاس کیا جاسکتا ہے امیدوار انہی سیٹوں پر کھڑے کئے جائیں گے جن پر بھاجپا کو فائدہ پہنچایا جاسکے ۔ اس بار گزشتہ کے مقابلے مودی کچھ کمزور پڑ گئے ہیں اس لئے ان کو فتحیابی کےلئے جے ڈی (یو) کی باالواسطہ مدد 35 زیادہ سیٹوںپر درکار ہوسکتی ہے چنانچہ شرد یادو اگر 100سیٹوںپر بھی امیدوار کھڑے کردیںتو کچھ تعجب نہیں۔

اسی پہلو کے مد نظر مسٹر شرد یادو نے صاف کیا ہے گجرات میں بی جے پی کے مقابلے چناﺅ لڑنے سے این ڈی اے میں کوئی تنازعہ کھڑا نہیں ہوگا۔ ظاہر ہے تنازعہ تو اس وقت ہوتا جب بھاجپا کو نقصان کا اندیشہ ہوتا۔ اب جب کہ حلیف پارٹی کے الگ چناﺅ لڑنے سے فائدہ ہی فائدہے تو تنازعہ کیوںہوگا؟یہی بات پارٹی کے ریاستی صدر مسٹر وساوا نے بھی کہی ہے۔ لیکن اس خبر کے ساتھ واقعاتی سرخی کے بجائے تاثراتی سرخی جماکر قارئین کو یہ مغالطہ دینا کہ جے ڈی (یو) نے مودی کی نیند حرام کردی یا تو سادہ لوحی ہے یا صحافتی عیاری ہے ۔ بہرحال صورت کچھ بھی کیوں نہ ہو، ایک ایسے اخبار کےلئے افسوسناک ہے جو مارکیٹنگ کے مختلف حربے اختیار کرکے چوٹی پر پہنچنے کےلئے کوشاں ہے۔ اردو اخبارآجکل مسلمان ہی پڑھتے ہیں اور عام قاری اخبار کی ہر خبر کو سچ سمجھ لیتا اس لئے بادل نخواستہ ان کی آگاہی کےلئے یہ وضاحت کی گئی۔
شرد یادو نے ڈرامائی انداز میں یہ اعلان کرکے اور خود کو مودی مخالف جتاکر دراصل اپنی پارٹی کے رائے دہندگان کو خوش گمانی میں مبتلا رکھنے کی کوشش کی ہے۔ اب میڈیا کے ذریعہ اس بات کو پھیلایا جائےگا تاکہ ان کا ووٹ بنک مضبوط ہو جس میں بڑا حصہ مسلم رائے دہندگان کا ہے اور وہ اصل کھیل کو سمجھے بغیر جے ڈی (یو) کی طاقت کو بڑھاتے چلے جائیں اورپارٹی اپنی اس طاقت سے بھاجپا کی قیادت میں این ڈی اے اور مضبوط کرسکے۔یہ بات ثانوی ہے کہ این ڈی اے کی حکومت اگربنی تو وزیر اعظم کون ہوگا ، یہ بات بنیادی ہے کہ اس سے سنگھی نظریہ مضبوط ہوگا جو ملک کے وسیع تر مفاد، قومی اتحاد اور اقلیتوں کے وجود کےلئے خطرہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نتیش کمار ایک کامیاب وزیر اعلا ہیں۔ ان کی تدابیر سے بہار میں جو خوشگوار تبدیلیاں آرہی ہیں وہ قابل تعریف ہےں۔ اس کا فائدہ پوری ریاست کو پہنچ رہا ہے۔لیکن جے ڈی (یو) کے بارے یہ بھرم کہ وہ واقعی گجرات کے مسلم کش فساد کے تعلق سے مودی سے نالاں ہے، ایک دھوکہ ہے اور حقائق کے منافی ہے، جن کے تجزیہ کا یہاں موقع نہیں۔

شیو سینا
شیو سینا نے بھی گزشتہ اسمبلی چناﺅ میں گجرات میں 38سیٹوںپر امیدوار کھڑے کئے تھے اور اس کواعشاریہ نو فیصد ( ہزار میںنو) سے کم ووٹ ملے تھے۔ تمام امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہوگئی تھیں۔ یہ اس بات کی علامت ہے گجرات میں فرقہ ورانہ بنیاد پر ووٹرس کا جو پولیرائزیشن ہوا ہے اس میں ہندو فرقہ پرست ووٹ متحد ہے جب کہ اعتدال پسند اور اصلاح پسند ووٹ منتشر ہے۔ گزشتہ انتخابی مہم میں مودی نے ”موت کے سوداگر“ کے طنز کو خوب بھنایا تھا۔ اب بھی اطلاعات یہ ہیں کہ نرودا پاٹیہ کی مسلم کشی پر پارٹی کی اہم لیڈر کوڈنانی کی سزا اور سہراب الدین، کوثر بی اور پرجا پتی کے انکاﺅنٹر کے معاملے میں فرد جرم کو بھنانے کی تیاری کی جارہی ہے۔ یہی وجہ ہے ریاست کے اپوزیشن لیڈر اس بار محتاط ہیں اور انہوں نے مسلم کشی کے معاملات پر کسی جذباتی ردعمل کے اظہار سے گریز کیا ہے۔ اس سے ممکن ہے کہ مودی مخالفوں کچھ بددلی ہوئی ہو مگر آخر سیاست کے بھی تو کچھ تقاضے ہوتے ہیں۔ (ختم)
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 163215 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.