یہ کس دھرتی کے بیٹے ہیں ؟

13ستمبرسندھ میں بلدیاتی نظام کے حوالے سے ہڑتال کی کال دی گئی ہے جس کی ، سندھ ،خیبر پختونخوا کی قوم پرست جماعتوں کے علاوہ ، مسلم (ن) ، (ق) اور تحریک انصاف نے بھی حمایت کی ہے۔بلدیاتی نظام کے حوالے سے پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کی کور کمیٹیوں کا اجلاس مسلسل کئی سالوں سے اپنے سرد و گرم مزاج کے ساتھ ہوتا رہا ہے ۔ ایم کیو ایم اپنے تحفظات کے حوالے سے پیپلز پارٹی کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہی اور جو ان کی پارٹی کا موقف تھا انھوں نے اپنے منشور کے مطابق کیا ۔پیپلز پارٹی نے ایم کیو ایم کی بار بار حکومت سے علیحدگی اورانھیں اپنے ساتھ اتحادی قائم رکھنے کے لئے جو جتن کئے وہ انھوں نے اپنی پارٹی پالیسی کے مطابق کئے ، یہ تو رہا پی پی ی اور ایم کیو ایم کا اتحادی سفر ، جس میں روٹھنا منانا شامل حال رہا ۔ لیکن پاکستان کی وہ سیاسی جماعتیں اِس عرصے میں کیا کر رہی تھی جب تین سال سے زائد عرصے سے ان دونوں جماعتوں کی کور کمیٹیوں کا گھنٹوں گھنٹوں اجلاس منعقد ہوتا تھا ۔ اب یہ تاثر دینا بے وقوفی ہے کہ رات کی تاریکی میں فیصلے کئے جاتے رہے ، کیونکہ آج کا میڈیا اتنا فعال ہوچکا ہے کہ لمحہ بہ لمحہ کی رپورٹ کروڑوں لوگوں تک پہنچا رہا ہوا تھا ۔ گھر سے نکلنے سے لیکر گورنر ہاﺅس ، وزیر اعلی ہاﺅس ، گاڑیوں کی روانگی ، کھانے پینے ، ذرائع کی خبریں ، غرض ایسی کون سے بات ہے جیسے میڈیا نے آشکارہ نہ کیا ہو۔ ایسی راتیں چاند رات ہوا کرتی ہیں کیونکہ روزہ نہ رکھنے والے ہی عید کا اس قدر مہنگا اہتمام کرتے ہیں جیسے پورے سال کی روزے رکھے ہوں۔ کچھ ایسی صورتحال بد قسمتی سے سندھ میں بھی ہے ۔ جیسے ہی حساس ایشو میڈیا میں آتے ہیں ، نو کر کو فوری طور پر آرڈر کردئےے جاتے ہیں کہ "کاٹن اور شیروانی " تیار کر لی جائے ، اسٹوڈیو جانا ہوگا ، کچھ نمک کے غرارے کرنے بیٹھ جاتے ہیں تاکہ پروگرام میں بے ہنگم گفتگو کے دوران آواز کی بلندی میں کوئی عمل رکاﺅٹ کا درجہ نہ بنے ۔اور تیز آواز کو اس طرح استعمال کیا جائے کہ سامنے والا متاثر ہونے کے بجائے ڈر جائے اور ناظرین کو بھی سمجھ میں نہیں آئے کہ وہ کہنا کیا چاہتے ہیں ۔ اکثر لیڈروں کے پاس مہنگے موبال فونز کی نقل چائنا موبائل ہوتے ہیں۔ جب الیکڑونک میڈیا میں ان سے" بیپر"لیا جا تا ہے تو دو نمبر موبائل سے نکلنے والی آواز اس طرح آتی ہے جیسے آٹے کی چھنی ، چھانی جا رہی ہو ۔ اور اکثر ایسے لیڈر بھی ہیں کہ اپنے جوش خطابت میں باتیں کم تھوک زیادہ اگلتے ہیں۔ اینکر پرسن بچارا بعد میں ڈاکٹر سے حفاظتی تدابیر کے طور ر ٹیکے ضرور لگاتا ہوگا تاکہ اس کے منہ پر اڑنے والے چھنٹوں سے کوئی وائرس نہ آگیا ہو۔
بلدیاتی نظام کے حوالے سے احتجاج ہو یا کسی بھی معاملے پر اختلاف رائے ، یہ سب کا جمہوری حق ہے ۔کراچی سمیت پورے سندھ میں کل ہونے والی یہ پہلی ہڑتال نہیں ہوگی بلکہ سندھ کے لوگ ، آئے دن کی ہڑتالوں کے عادی ہوچکے ہیں ۔لیکن بات چلی تھی کہ ان تین سال سے زائد عرصے دیگر جماعتوں کا سندھ کی عوام کے لئے کیا کردار رہا ہے ۔ پنجاب ، خیبر پختونخوا ، بلوچستان میں بھی دوہرا نظام چل رہا ہے لیکن کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا ۔ بلکہ بے چارے سندھ کے دیہی علاقوں کے عوام کو تو یہ بھی معلوم نہیں ہوگا کہ سندھ میں اب تک کس نظام کے تحت ان پر حکم چلائے جاتے رہیں ہیں۔ وہ تو صرف یہ جانتے ہیں کہ انھیں جو وڈیرہ سائیں کہتا ہے ، وہ کافی ہے ،پولیس ہو ، سرکاری ملازم ہو ، یا عام آدمی ہو ، انھیں صرف یہ معلوم ہے کہ اندرونِ سندھ میں صرف وڈیروں کا حکم چلتا ہے اس لئے کمشنر ہو یا ڈپٹی کشنر ، جب تک وڈیرے کی دہلیز پر سر نہ جھکائے وہ کام تو کیا کرے گا ، زندہ سلامت بھی نہیں رہ سکتا۔یہی وجہ ہے کہ جب پی پی پی کے قائم مقام گورنر نثار کھوڑونے ایم کیو ایم کے گورنر ڈاکٹر عشرت العباد کے مستعفی ہونے کے بعد کمشنری نظام کی بحالی کے فوری احکامات جاری کئے تو اس دن وہی صورتحال تھی جو آج ہے ، افسوس کا مقام یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی جانب سے اکثریت ہونے کے باوجود بھی بلدیاتی نظام کے حوالے سے کبھی بھی فیصلہ نہیں کیا گیا کیونکہ ان کے پاس جمہورےت کے نرسری کےلئے بلدیاتی نظام کی کبھی ااہمیت نہیں رہی ۔وڈیروں ، سرداروں کے خاندان میں ہر شخص" پی ایچ ڈی"ِسیاست اور اقتدار کو اپنا مورثی حق سمجھتا ہے ، اگر گلی کوچوں سے عوام سے لیڈر پیدا ہونے لگ گئے تو یہ بچارے کیا کریں گے۔یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے اپنی کسی حکومت میں بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے۔باقی رہی بات دوسری جماعتوں کی تو ان کی تو اپنے صوبوں میں مستحکم حکومیتں ہیں ، اس عرصے میں بلدیات کے حوالے سے قانون سازی کرکے سندھ کے سامنے نمونہ پیش کردیتی کہ پاگلوں ،کیا رات رات بھر شب بیداری کرتے ہو ، یہ لو ہم نے متفقہ بل منظور کرکے، عوام کی بھلائی کےلئے یہ نظام بنایا ہے ایسے اپنے صوبے میں نافذ کرو ۔ سندھ نے گذشتہ سال اسمبلی سے بل پاس کیا کہ کیونکہ سندھ میں سیلاب کی وجہ سے انفرا اسٹرکچر تباہ ہوگیا ہے اس لئے غیر معینہ مدت تک بلدیاتی انتخاب موخر رکھیں جائیں ۔ اب ایسی کیا قیامت آ رہی ہے کہ صدی کی سب سے زیادہ بارشوں کے نتیجے میں سینکڑوں دیہات زیر آب آکر تباہ ہوچکے ہیں ، لاکھوں لوگ بے گھر ہوچکے ہیں۔ مرنے والوں کی تعداد روز ہ روز بڑھتی جا رہی ہے لیکن سندھ دھرتی کے وارثوں کو ان کی بحالی کے بجائے ہڑتال کی پڑی ہے ، کراچی میں دو گارمنٹ فیکٹریوں میں جھلس کر جاں بحق ہونے والوں کی تعداد تین سو سے بھی زیادہ ہو چکی ہے امدادی کاروائیاں جاری ہیں ۔ کہاں ہیں سندھ سے محبت کا دعوی کرنے والے جو ان سندھ کے سپوتوں کے غم میںشریک ہوں۔کیا خیبر پختونخوا سے کو ئی آیا ، کیا پنجاب سے کوئی آیا ؟ ہاں بیانات ضرور آئے کہ ہمیں افسوس ہے ، دکھ ہے ، لیکن تھوک اگلتے سیاست دانوں ،یہ تو جواب دو کہ سندھ دھرتی ہی کو کیوں تختہ مشق بنایا جا رہا ہے ، عام انتخاب وقت سے قبل نہ ہوں اس لئے سندھ میں افرا تفری اور انارکی پیدا کرنے کے لئے "بھٹو" تلاش کیا جارہا ہے ۔

کچھ تو خدا کا خوف کرو ،کہ سندھ میں سیلاب کی تباہ کاریاں بام عروج پر ہیں، لاکھوں خاندان بے گھر بے آسرا ہوچکے ہیں ،بے روزگاری اپنے عروج پر ہے ،بدامنی کا کوئی سبدباب نہیں ، مسئلے کا حل دو ، دو سیٹیں رکھنے والے اتفاقی سیاست دانوں تمھارے پاس نہیں ۔ اپنے ووٹرز سے کئے وعدے تم نبھا نہیں سکے ، غریبوں کے مسائل تم حل نہیں کرسکے ،بے گناہ انسانوں کی جان کا تحفظ تم نہیں کرسکے ، دہشت گردوں کی بیخ کنی تمھارے بس میں نہیں ، مفادات کےلئے ایک صوبے میں اپوزیشن اور دوسرے میں اتحادی بنے بیٹھے ہو ، قیادت کا فقدان ہے ، کوئی نون ہے تو کوئی قاف ہے ، تو کوئی ف ہے ، کوئی کیا ہے تو کوئی کیا ہے ، خود تو اپنی صفوں میں اتفاق پیدا کر نہیں سکتے ،عوام کی صفوں میں کیوں صف ماتم برپا کرنا چاہتے ہو۔یہ منصوبہ طشت ازبام ہوچکا ہے کہ عام انتخابات کو ملتوی کرانے اور قومی اسمبلی سے ایک سال کا اضافی وقت آئین کے تحت مانگا جائے گا ، کیونکہ کوئی حکمران جاعت ایسی نہیں جو ووٹ کے لئے عوام کے پاس فخر سے جا سکے کہ ان کی بھلائی کی انھوںنے کیا کارنامے انجام دئےے ہیں۔کیا انھوں نے بے روزگاری ختم کرکے ملک میں امن قائم کردیا ہے ، انسان کی عام ضروریات کی اشیا ءکی قیمتیں ت آسمان پر پہنچا دیں ہیں ، ڈیزل 115 رے ، تو پٹرول سینچری کرچکا ہے ۔ سندھ کی قوم پرست جماعتوں سے صرف اپیل کی جاسکتی ہے کہ سندھ کو پنجاب کی سیاست کا اکھاڑہ نہ بننے دیں ، پنجاب کی جانب سے سندھ اور خیر پختونخوا کا ہمیشہ استحصال کیا گیا ، قو م پرستوں نے تکالیف برداشت کرکے دنیا کو آگاہ کیا ، قوم پرست سندھ ہونے ولی سیلاب کی تباہ کاریوں میں سندھیوں کی بحالی کےلئے اپنا کردار ادا کریں ۔نفرتوں کو پروان مت چڑھائیں ، شہری علاقوں کی عوا م کو دیہی علاقوں کی عوام سے بدظن ن کریں ۔ انھیں گمراہ کرنے سے صرف شہری و دیہی تفریق میں مزید اضافہ ہوگا ۔عوام تو اس وقت بھی تھے جب سندھ میں انگریزوں کا نظام تھا ، یہی عوام اس وقت بھی تھے جب ایوب خان نے بنیادی جمہوریت کے نام ر بلدیاتی ادارے بنا کر دس سال آمریت کی ، یہی عوام اب بھی ہیں جب ضیا الحق اور پھر پرویز مشرف کے بلدیاتی نظام جمہوری اداور سے زیادہ چلے لیکن کبھی احتجاجی بیان تک جاری نہیں کیا ، ہم ان ے ضرور وپوچھنا چاہتے ہیں کہ سندھ ہندوﺅں کو جبری مسلمان بناے ، اغوا برائے تاوان ، کارو کاری ، ٹارگٹ کلنگ ، بھتہ خوری ،کے خلاف ہڑتال کیوں نہیں کی ؟ ۔صرف اس وقت ہڑتال کیوں جب کہ لاکھوں انسان بے گھر ، سینکڑوں دیہات صفحہ ہستی سے مٹ گئے ، لیکن امدادی کاروائیوں کے بجائے ہڑتال ؟ یہ کس دھرتی کے بیٹے ہیں ؟ ۔۔
Qadir Afghan
About the Author: Qadir Afghan Read More Articles by Qadir Afghan: 399 Articles with 263247 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.