ایک اور بدنامی

لاہور میں آج(٣ مارچ ٢٠٠٩) کو شہر کے پوش ایریا اور مصروف ترین کاروباری مرکز لبرٹی میں سری لنکا سے آئی ہوئی مہمان کرکٹ ٹیم پر ہونے والی مبینہ دہشت گردی کی کاروائی نے پاکستان کے سیکورٹی اداروں کی قابلیت کا بھانڈہ پھوڑ کے رکھ دیا ہے۔ اور گڈ گورننس کا دعویٰ کرنے والی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس دہشت گردی کی کاروائی میں پانچ پولیس اہلکار جاں بحق ہوئے ہیں۔ پچیس منٹ تک جاری رہنے والی اس کاروائی میں تمام دہشت گرد بحفاظت بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ دہشت گرد انتہائی تربیت یافتہ تھے جنہوں نے کامیابی سے اپنی کاروائی کو پورا کیا۔اور سیکورٹی اداروں کے گھیرے کو توڑتے ہوئے نامعلوم مقام کی طرف نکل گئے۔ پنجاب کی انتہائی تربیت یافتہ پولیس تاحال ان کو گرفتار نہیں کر سکی۔

اس خبر سے تمام لوگوں کی نظر گزری ہو گی لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ پاکستانی عوام کی جیب سے نکلی ہوئی بے تحاشا دولت پہ پلنے والے ادارے کیا اتنے نااہل ہیں کہ مٹھی بھر دہشت گرد جب چاہیں لاھور جیسے بڑے شہر میں من مانیاں کرتے پھریں اور انکو روکنے والا کوئی نہ ہو؟ ہماری مہذب ترین پولیس جس کی قابلیت کا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا تھا اور جس نے گزشتہ آٹھ ماہ کے دوران ١٠٢ پولیس مقابلوں میں ١٨٥ لوگوں کو پار کیا ہو۔ کیا وہ ان تمام معاملات سے بے خبر تھی کہ زندہ دلانِ لاہور ایسے واقعات کی اذیت سے گزرنا پڑا؟ آج بچہ بچہ خوف و ہراس کا شکار ہے۔ جبکہ صحافیوں کی جانب سے سیکورٹی لیپ کے سوال پر سی سی پی او پولیس نے مسکراتے ہوئے بیان داغا کہ اگر سیکورٹی لیپ تھا بھی تو اس میں سب سے زیادہ نقصان پنجاب پولیس کے جوانوں نے اٹھایا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ محترم سی سی پی او صاحب کو صرف پولیس کے جوانوں کی شہادت ہی نظر آتی ہے جب کہ پاکستانی قوم کو اس کاروائی کے نتیجے میں جو ذلت اور رسوائی ملی ہے اسکا کوئی دکھ نہیں ہے۔ پاکستان کا امیج پوری دنیا میں خراب ہوا ہے اور جو اکا دکا لوگ کبھی کبھار بھول کر پاکستان کا رخ کرتے تھے اب یہ سلسلہ بھی رک جائے گا۔ پاکستان کی داخلی صورتحال کے پیشِ نظر آسٹریلیا اور انڈیا کی ٹیمیں پہلے ہی ہمارے ملک میں کھیلنے سے انکار کر چکی تھیں جب کہ یہ صرف سری لنکا کی ٹیم تھی جس نے تمام تحفظات کے باوجود خیر سگالی کے جذبے کے تحت یہاں کھیلنے کے لیے آئی۔ چاہیے تو یہ تھا کہ انکی حفاظت کا بھرپور انتظام کیا جاتا تاکہ اس قسم کے کسی بھی واقعہ کی نوبت ہی نہ آتی۔ لیکن کیا کیجیے پاکستانی افسر شاہی کا جو تساہل اور سستی کی وجہ سے پہلے ہی بدنام ہے اب مزید بدنامی کی حقدار ٹھہری ہے۔ حق تو یہ تھا کہ سی سی پی او صاحب فوری طور پر اس نااہلی کو تسلیم کرتے اور استعفیٰ دے دیتے لیکن جناب نے صرف مسکرانے پہ ہی اکتفا کیا۔ حکومتِ وقت کو چاہیے تھا کہ اس افسوسناک موقع پر انکی بے وقت مسکراہٹ کا سخت نوٹس لیتی لیکن یہ امید صرف ترقی یافتہ ممالک میں ہی کی جا سکتی ہے پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ملک میں یہ خواہش رکھنا عبث ہے۔

اس واقعہ سے پاکستان کا عالمی برادری میں جو تاثر پیدا ہوا ہے اس کو زائل ہونے میں وقت لگے گا لیکن اس سے پاکستان میں بین الاقوامی سطح کے کھیلوں کا انعقاد بھی ایک لمبے عرصے تک رک جائے گا۔ دعا ہے کہ اﷲ پاک اپنے کرم سے پاکستانی عوام کو اس مصیبت سے نکالے تا کہ ہم بھی دنیا میں ایک باوقار قوم کی حیثیت سے سر اٹھا کے چل سکیں۔
Naveed Qamar
About the Author: Naveed Qamar Read More Articles by Naveed Qamar: 17 Articles with 16392 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.