آج صبح اہل وطن بڑی ازیت اور تکلیف کے ساتھ اس خبر کو سنا کہ جس میں یہ خبر
دی گئی کہ سری لنکن ٹیم پر اس وقت حملہ کیا گیا جب وہ ٹیسٹ میچ کھیلنے
لبرٹی لاہور کے راستوں پر رواں دواں تھی اپنی منزل یہ قزافی اسٹیڈیم لاہور۔
کیا ہم یہ سمجھنے ہیں کہ یہ سری لنکن ٹیم پر حملہ تھا ہاں بادی النظر میں
یہ سری لنکن ٹیم پر حملہ تھا مگر حقیقتاً یہ مملکت خداوند پر حملہ تھا اور
اس کے فی الوقت کے نتائج یہ ہیں کہ دنیا میں یہ خبر بریکنگ نیوز کی طرح دی
گئی اور اس طرح کا تاثر دیا گیا کہ جیسے پاکستان میں یہ معمول کے واقعات
ہیں اور مزید یہ کہ سری لنکن ٹیم کو کیا ضرورت پڑی تھی کہ وہ پاکستان جسے
روگ ریاست کا درجہ دلانے کی کوششیں کی جارہیں ہیں کا دورہ کرتی۔
اس واقع کو وسیع تر تناظر میں دیکھنے کے لیے ہم کو سیاسی نظر سے دیکھنا ہو
گا کہ کس طرح اور کس طرف ملکی سیاست جا رہی ہے۔ اور مملکت پاکستان کی
موجودہ حکومت کو بدنام کرنے کے لیے دشمن پاکستان جو کہ نا صرف باہر کی
حکومتوں کے زریعے بلکہ ملک میں بھی بیٹھے سیاست کی بساط بچھا کر بھی اپنا
کام کر رہے ہیں اب یہ سارا شور شرابہ بدنامی کس کے نام چڑھے گی ظاہر ہے
زرداری صاحب اور حکومت کے تو بھائیوں زرداری صاحب کو اس کا کیا فائدہ ہو گا
۔ ہاں اب آئی بات سمجھ میں کہ اس کا فائدہ کس کو بلکہ کس کس کو ہوگا اب
پکڑو انکو جو اس کا فائدہ اٹھائیں گیں اور انکے جلسے جلوس دھرنے اور سیاسی
قلابازیاں اپنے عروج پر ہونگی۔ گزشتہ مہینوں میں لاہور اور پنجاب کے مختلف
شہروں میں کریکرز اور دستی بموں کے کئی واقعات ہوئے مگر شہباز شریف صاحب کی
حکومت میں کتنے لوگ گرفتار ہوئے اگر اس وقت ان اقدامات کا جائزہ لیا جا چکا
ہوتا اور ملزمان قرار واقعی سزا پاچکے ہوتے تو اتنا شرمناک واقعہ ہوتا۔ بات
یہ ہے کہ چند دن پہلے تک حکومت کرنے والے اور حکومتی مشینری کی یہ طاقت اور
حکمرانی تھی کہ ایسے واقعہ کو اتنی آسانی کے ساتھ سر انجام ہونے دیا گیا۔
شاباش کے مستحق ہیں وہ شہدا جو آج کے واقعہ میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو
بیٹھے اور اپنی طرف سے ملک و قوم کا سر فخر سے بلند کیا کہ پاکستانی پولیس
کے پانچ سات افراد سب سے پہلے شہادت کا جام نوش کر گئے۔
یہ ہم سب کے لیے شرم کا مقام ہے کہ ہم اپنے ملک میں اپنے مہمانوں کی حفاظت
کا خیال نہیں رکھ پاتے مگر نہیں ٹھریے ہم تو اپنوں کی سیکورٹی کا خیال نہیں
رکھ پاتے پاکستان وہ واحد ریاست ہے کہ جب سے ہمارا وطن معرض وجود میں آیا
ہے ہمارے رہنما، سیاستدان، علما و مشائق اور دوسرے ایسے لوگ جو ملک و قوم
کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں انہیں بڑی آسانی کے ساتھ اس ملک سے ملک عدم کی
طرٍف بھیج دیا جاتا ہے اور ناکارہ اور نا اہل لوگوں کو ہمارے درمیان سیاست
و حکومتیں کرنے کی آزادی دی جاتی ہے ۔ اب زرداری صاحب کو ہی لیجیے جب وہ
قومی مصالحت اور بات چیت کے زریعے حکومت کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کی
مخالفت میں کئی ایسے لوگ جو چلے ہوئے کارتوس ہیں چاہے وہ ایکس سروس مینز
ہوں یا پرانی بو دیتی عدلیہ کے کرتا دھرتا جو اپنے وقتوں میں تو اپنی
ملازمتوں کے دوران خوب مزے کر کر اور عیاشیاں کر کے نکل گئے اور اب کی
حکومتوں میں انہیں کیڑے نظر آرہے ہیں مسئلہ صرف یہ ہے کہ انہیں رقوم کی
فراہمی بند ہو گئی ہے اور باقائدگی سے ملنے والے چیک اب بند ہو گئے ہیں اور
جو ایک دو افراد چیک دینے والے رہ گئے ہیں وہ بھی حکمرانی کے لیے با ضابطہ
نا اہل قرار دیے جاچکے ہیں۔
ہم سری لنکن کرکٹرز اور عوام سے شرمندہ ہیں کہ آپ نے تو ہمارے ملک کا دورہ
کرنے کا نا صرف یہ کہ فیصلہ کیا بلکہ اس پر عمل بھی کیا جبکہ آپ کو ہر طرف
سے دھمکیاں اور مشورے مل رہے تھے کہ پاکستان مت جانا ورنہ یہ ہو گا اور وہ
ہوگا مگر آپ سری لنکنز نے جس طرح خطرات میں گھرا ہونے کے باوجود ہمارے ملک
کا تاثر بحال کرنے کا فیصلہ کیا ہم آپ کے شکر گزار ہیں اور ہم انشاﺀ اللہ
سری لنکن فیصلوں کی قدر کرتے ہیں اور ہم شرمندہ ہیں ہم اپنی طرف سے کوئی
حیلہ بہانہ نہیں کرنا چاہتے ہم صرف شرمندہ ہیں اور باقی جو کچھ ہم ہیں وہ
ہم اپنی ملکی سیاست میں کریڈٹ لیتے آپکو نظر آجائیں گے۔
آج حقیقت میں پنجاب اور لاہور کے سافٹ امیج کو جو نا قابل تلافی نقصان
پہنجا ہے اور لاہور جو ثقافت اور تفریح کا گہوارہ ہے اس شہر میں آج جو دہشت
گردی کی واردات ہوئی ہے اس کی مثال ہمیں اس نوعیت کی نہیں ملتی۔ آج اس مشکل
گھڑی میں ہم لاہوری ہم وطنوں کے ساتھ ہیں اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس ہم سب
پاکستانیوں کو بدنام کرنے کی سازش رچی گئی ہے۔ ہم سب ایک ہیں اور ہم سب
دہشت گردی کی ہر طرح سے مذمت کرتے ہیں۔
آخر میں سیاستدانوں سے گزارش ہے کہ خدارا وقت کی نزاکت کو سمجھیں ایک ہو
جائیں اور صرف اقتدار کے لیے ایک دوسرے کا گلا نا دبائیں کہیں ایسا نا ہو
کہ سب کا گلا دبانے کے لیے دشمن جو بھیڑ کے روپ میں بھیڑیا بیٹھا ہو ہے وہ
آپ سب کو دبوچ کر چبا جائے خدا کے واسطے سیاست کرو اچھی حکومت کرنے کے لیے
نا کہ حکومت کا قبضہ جمانے اور راج کرنے کے لیے۔
ایک بار پھر دکھی دل اور پراگندہ خدشات کے ساتھ آپ سب سے معاملہ فہمی کی
درخواست کرتا اور نا پنجابی، نا سندھی، نا بلوچی اور نا پٹھان بلکہ اپنے
ملک پاکستان کا ایک پاکستانی ہم وطن بننے کی درخواست کرتا ایک پاکستانی۔
اللہ پاکستان کی حفاظت فرمائے آمین |