پریشانی انسانی زندگی کا حصہ ہیں۔
کوئی مالی پریشانی سے دوچار ہے تو خانگی مسائل کا نشانہ بنا ہواہے۔ کسی کو
جائیداد کا تنازعہ درپیش ہے اور کسی کو رشتہ داروں سے مسائل ہیں۔ کوئی
سیاسی ابتلاءکا شکار ہے تو کوئی حاسدوں کے حسد کی زد میں ہے۔ شاید ہی کوئی
انسان خود کو مطمئن محسوس کر رہا ہو۔ ہمارے دوستوں کی مجلس میں سائیں شاکر
ہمیشہ پریشانیوں کا رونا رہتا ہے۔ جب بھی ملاقات ہوتی ہے اس کا چہرہ اڑھا
رہتا ہے، بال بکھرے ہوئے، اوسان خطا ہوئے ۔ وہ بتدریج ڈیپریش کا مریض بنتا
جا رہا ہے۔ ڈاکٹروں اور حکیموں کے چکر لگا چکا، اب پیروں اور آستانوں سے
سکون کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ اس کے مسائل ہماری رات گئے کی نشستوں کا
موضوع رہتے ہیں۔ اسی لیے اس نو جوان کے نام کے ساتھ ”سائیں“ کے لاحقے کا
اضافہ بھی ہوگیا ہے۔ گزشتہ ہفتے ہمارے دیرینہ دوست حاجی خوش دل خان سالوں
بعد بیرون ملک سے لوٹے تو اور مجلس یاراں کی یاد تازہ کرنے تشریف لائے۔ حسب
معمول سائیں شاکر کا معاملہ زیر بحث تھا۔
حاجی خوش دل خان نے کیس سٹڈی کے بعد سب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تم
پاکستان میں رہتے ہو، روزانہ نہیں تو ہفتہ وار جمعے کے دن تو مسجد کا منہ
دیکھ ہی لیتے ہو گے۔جن لوگوں کا اپنے رب کے ساتھ ہفتہ وار تعلق بھی رہے ،
وہ زندہ رہنے کے لیے روحانی سانس لے لیتا ہے مگر جن ملکوں میں ہم رہتے ہیں
وہاں جسم کی ضرورتوں کا تو سب خیال رکھتے ہیں لیکن روح کی چارجنگ کا کوئی
راستہ ان کے ہاں موجود نہیں ہے۔ وہ کماتے تو خوب ہیں لیکن سکون کی دولت سے
محرومی کی وجہ سے ان کی زندگی پریشانیوں سے عبارت ہوتی ہے۔ ان خدا بیزار
لوگوں نے ان پریشانیوں سے نکلنے کے لیے کچھ تراکیب طے کررکھی ہیں۔ میں
انہیں اپنے ماحول کے مطابق چند ایک ترامیم کے ساتھ آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔
ساری مجلس یکسوئی سے بات سننے پر آمادہ ہو گئی۔ سائیں شاکر جو کسی کاوعظ
سننے سے ہمیشہ الرجک رہتا تھا وہ بھی متوجہ ہوگیا۔ اس سنجیدہ ماحول میں
ظفری نے تحریک التواءپیش کردی کہ جب تک حاجی صاحب پکوڑوں کا بندوبست نہیں
کرتے، ان کی تقریر شروع نہیں ہوسکتی۔ کچھ لے دے کے بعد پکوڑے بھی آگئے اور
بات پھر سے شروع ہوئی۔شاکر نے کہا ہم سن تو لیتے ہیں لیکن یہ صوبیداروں کی
طرح پانچ گھنٹوں پر مشتمل کہانی نہیں ہونی چاہیے۔ ہم فوجیوں کی کہانیاں سن،
سن کر تھک چکے ہیں، ان کی کامرانیوں کی داستان کبھی ختم نہیں ہوتی لیکن
بھارت کا پلہ ہمیشہ بھاری ہی رہتا ہے۔
حاجی صاحب نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ پریشانی سے نجات کا ایک آسان
نسخہ تو یہ ہے کہ آپ اسے سرپر سوار نہ کریں بلکہ اپنے دماغ کو دوسرے کاموں
میں مصروف رکھیں ، جونہی وہ کام کرنا چھوڑ ے گا پریشانی اسے گھیر لے گی۔ہاں
آپ اس مخصوص پریشانی کے علاوہ عمومی طور پر ایسی پریشانیوں سے نجات کے
متبادل ذرائع کے بارے میں غوروفکر کرتے رہیں، اس مشق سے آپ کو کئی ایک
متبادل حل مل جائیں گے۔دوسری بات یہ ہے کہ پریشانیوں کی تسبیح کرنے کے
بجائے زیادہ وقت اللہ تعالیٰ کی یاد میں گزارنے کی کوشش کریں۔ اس سے روح کو
نئی زندگی ملے گی، سوچ کے دھارے دوبارہ سے مرتب ہوں گے، امید کی کئی ایک
راہیں دکھائی دیں گی اور سکون کے لمحات میں اضافہ ہوتا جائے گا۔تیسرا طریقہ
یہ ہے کہ آپ اپنے مخصوص ماحول سے کچھ وقت کے لیے الگ ہوکر کسی رشتہ دار،
دوست کو ملنے کے لیے شہر سے باہر چلے جائیں۔ کچھ وقت نئے دوستوں اور رشتہ
داروں کے ساتھ گزاریں، وہاں ماحول بھی نیا ہوگا اور موضوعات بھی نئے ہوں
گے۔چوتھا طریقہ یہ ہے کہ ہمیشہ مایوس اور ناامید لوگوں سے دور رہیں، جو ہر
بات میں منفی پہلو تلاش کرکے یہی نتیجہ نکالتے ہیں کہ یہ کام نہیں
ہوسکتا۔اس میں بہت دشواریاں ہیں، اس کے لیے بہت محنت کی ضرورت ہے۔ اس کام
میں فلاں اور فلاں ناکام ہو چکا ہے۔ اس انداز فکر کے مبلغین سے ہمیشہ کے
لیے چھٹکارا حاصل کرلیں۔
پانچواں طریقہ یہ ہے کہ کامیاب اور پرامید لوگوں کی صحبت حاصل کریں۔ ان کے
سوچنے، فیصلے کرنے اور ان پر عمل درآمد کا جائزہ لیں۔ ان کی کامیابیوں کے
اسباب تلاش کریں اور ان کی رفتار کار سے ممیز حاصل کریں ۔ چھٹا طریقہ یہ ہے
کہ کچھ نئے مشاغل اختیار کریں، گھر میں چند ایک گملے رکھ کر ان میں پودے
لگائیں، سبزیاں کاشت کریں اور روزانہ ان کی دیکھ بھال کے لیے کچھ وقت صرف
کریں۔ یوں آپ کو ہر روز نکلنے والی نئی کونپل زندگی کے حقیقت سے آشکار کرتی
رہے گی اور آپ کے وقت کا بڑا حصہ صحت مند سرگرمیوں میں گزرے گا۔ساتواں
طریقہ یہ ہے کہ آپ ہفتے میں ایک دن یتیم خانے میں جائیں اور یتیم بچوں کے
ساتھ کچھ وقت صرف کرکے ان کی محرومیوں کا اندازہ بھی لگائیں اور انہیں
حوصلہ دیں۔ یوں آپ کو زندگی کے حقائق کو دیکھنے اور مشکلات کا مقابلہ کرنے
کا بالکل نیا انداز بھی دیکھنے کو ملے گا۔ آپ اپنی پریشانیوں کو بھول کر
اپنے سے زیادہ پریشان لوگوں سے مل کر کچھ نہ کچھ سکون بھی حاصل کریں گے اور
پریشانیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے نئی قوت بھی حاصل کریں گے۔ اپنی گزری ہوئی
زندگی کا جائزہ لے کر دیکھیں کہ آپ کتنے ہی مشکل مراحل سے گزر کر پھر سکون
سے فیضایاب ہو چکے ہیں۔تب آپ کو اندازہ ہو گا کہ یہ مشکل وقت بھی چند دنوں
میں گزر ہی جائے گا، مجھے اس کو پوری شخصیت پر طاری کرکے اپنی صحت اور
خانگی زندگی سمیت سب کچھ کو اجیرن نہیں بنانا چاہیے۔
حاجی صاحب نے شاکر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ ہاں ان سارے طریقوں پر عمل
کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اپنے دن کا آغاز نماز فجر سے کیا کرو، قرآن کریم
کی چند آیات کی تلاوت کرو اور اس کے نتیجے میں ملنے والی روحانی قوت سے
مذکورہ طریقہ کار کو بروئے کار لاتے ہوئے نئی زندگی کا آغاز کرنے کی کوشش
کرو۔ اپنے ارد گرد پھیلی ہوئے انسانوں کا جائزہ لو، ہر ایک انہی راستوں سے
گزر کر کامیابیوں سے ہمکنار ہوئے ہیں۔ کوئی بھی راتوں رات یہاں نہیں پہنچا۔
حاجی صاحب نے گہرا سانس لیا اور ہاتھ بلند کرکے کہا دیکھو بھائیو مشکلات
انسان کو کنندن بنانے کے لیے حائل کی جاتی ہیں۔ جس شخص کو اللہ تعالیٰ
مشکلات سے دوچار کرتا ہے، دراصل اسے کسی بڑے کام کے لیے تیار کیا جاتا ہے
تاکہ جب اس پر بڑی ذمہ داری ڈالی جائے تو وہ اس کو بخوبی سرانجام دے سکے۔
حاجی خوش دال خان کی گفتگو کے بعد مجلس یاراں کے سارے ہم نشیں تفکرات سے
نجات کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ رات خاصی گزر چکی تھی۔ حاجی صاحب نے کہا
کہ آج کی نشست یہی ختم کرتے ہیں ، کل آپ سب نے اس موضوع پر اپنی، اپنی رائے
کا اظہار کرنا ہے۔ مجھے کل کا یقین نہیں کہ وہ طلوع ہوگئی یا نہیں اس لیے
میں حاجی خوش دل خان کے ارشادات قارئین کی نذر کرتا ہوں تاکہ کوئی نہ کوئی
اس راہ پر چل کر اپنے دکھوں کا مداوا کرلے۔ |