انتخابی دال میں بلدیاتی نظام کا تڑکا

صدر آصف علی زرداری یاروں کے یار ہیں۔ جو یاروں کا یار ہوتا ہے وہ دشمنوں کا دشمن بھی ہوتا ہے! جس انسان میں یہ دونوں اوصاف یا خصوصیات پائی جائیں اُس کا حافظہ غضب کا ہوتا ہے اور غضب ڈھانے پر کمر بستہ بھی رہتا ہے۔ صدر زرداری نے ساڑھے چار برسوں کے دوران ثابت کیا ہے کہ وہ جب چاہیں، بھولنے کی بیماری کو اپنے ذہن میں activate کرسکتے ہیں! اور پھر جب بھی اُن کا موڈ ہو، بہت کچھ بُھولا ہوا یاد بھی آ جاتا ہے! صدر جب سیاسی بازار کی رونق بڑھانے کے mood میں ہوتے ہیں تب اُن کا حافظہ جب activation کے mode میں آتا ہے تب قومی سیاست میں ہلچل مچتی ہے اور لکھنے والوں کی، تھوڑی دیر کے لیے چاندی ہو جاتی ہے۔

بعض کمپیوٹرز سوفٹ ویئرز کی بدولت کوئی بھی چیز کمپیوٹر کے مانیٹر پر اچانک اُبھر کر سامنے آ جاتی ہے۔ اِسے pop-up کہا جاتا ہے۔ بلدیاتی نظام کا اِشو بھی ہماری سیاست میں وقفے وقفے سے pop-up ہوتا رہا ہے۔ اب یہ اِشو ایک بار پھر ہمارے سامنے اپنے تمام جلووں کے ساتھ بے نقاب ہے۔ جب جب یہ اِشو سَر اُٹھاتا ہے، بہت کچھ بدلنے لگتا ہے یا بدلتا دکھائی دیتا ہے۔ اِس وقت بھی سندھ کی سیاست میں بہت کچھ بدلنے کے مُوڈ میں دکھائی دے رہا ہے۔ کل تک جو حکومتی اتحاد میں شامل رہ کر اقتدار کے مزے لُوٹ رہے تھے وہ اب کانٹوں پر لَوٹ رہے ہیں!

مون سون اب ختم ہو چلا ہے اور انتخابی موسم کی بوندا باندی شروع ہوچلی ہے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ انتخابات کی بات چلے اور بھولے بھٹکے ہی سہی، بلدیاتی انتخابات کو یاد نہ کیا جائے؟ جس طرح بار بی کیو شاپ پر مُرغیاں لٹکی ہوئی ہوتی ہیں بالکل اُسی طرح حکومت نے مقامی اداروں کے نظام اور انتخابات کا معاملہ ساڑھے چار سال تک سیاسی بار بی کیو شاپ پر اُلٹا رکھا ہے۔ اور اب جبکہ بلدیاتی معاملات کی چکن لٹکے لٹکے سَڑ چکی ہے تو اُسے بھون کر عوام کے سامنے رکھنے کا عندیہ دیا جارہا ہے!

بلدیاتی نظام کا ٹنٹا ساڑھے چار برسوں میں کئی بار کھڑا ہوتا رہا ہے یا کھڑا کیا جاتا رہا ہے۔ اب پھر سندھ میں بلدیاتی آرڈیننس جاری کرکے رونق میلہ لگانے کی کوشش کی گئی ہے۔ بعض کی نظر میں بلدیاتی نظام کی خوشبو سوندھی سوندھی ہے جبکہ دوسرے بہت سے لوگ کہہ رہے ہیں کہ عام انتخابات کا مزا کِرکِرا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

ہماری سیاست بھی کیا عجب مزاج لیکر وارد ہوئی ہے۔ ناصر کاظمی مرحوم نے کیا خوب کہا ہے۔
گزر رہے ہیں عجب مرحلوں سے دیدہ و دِل
سحر کی آس تو ہے، زندگی کی آس نہیں!
بیشتر سیاسی جماعتوں کا معاملہ تو یہ ہے کہ
عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب
دِل کا کیا رنگ کروں خون جگر ہونے تک!

جنہیں گزشتہ انتخابات میں کچھ نہیں مل سکا تھا وہ ساڑھے چار سال سے انتظار کا ”کشٹ“ اٹھا رہے ہیں کہ انتخابی میلہ لگے تو پھر اپنی دکانداری چمکائیں! مگر انتخابات سر پر آ چکنے کے باوجود دُور جاتے دِکھائی دے رہے ہیں۔ ملک کے حالات نے انتخابی معاملات کو بھی اٹکانے اور لٹکانے کی قسم کھا رکھی ہے۔
سندھ میں بلدیاتی آرڈیننس کے اجرا سے سیاسی پانیوں میں کچھ پتھر پڑے تو ہیں، تھوڑی بہت ہلچل مچی تو ہے۔ سندھ حکومت میں بہت کچھ اُلٹ پلٹ گیا ہے۔ اتحادیوں نے حکومت چھوڑ کر احتجاج کا مورچہ لگانے کی قسم کھالی ہے۔ صدر زرداری کو معلوم ہے کہ کِس اتحادی کو کِس حد تک خوش رکھنا ہے اور کِس کی ناراضی کا متحمل ہونا ہے۔ ممبئی کی عوامی بھاشا میں کہیے تو سندھ کی سیاسی منڈی اِس وقت ”بھاؤ کھا رئیلی ہے!“ مگر خیر، سیاسی منڈی میں بھاؤ کچھ اِسی طور اونچائی پر جایا کرتا ہے! سب کو ناراض تو کیا جاسکتا ہے، ہر ایک کو خوش رکھنا کِسی طور ممکن نہیں۔

وقت نکالنے اور وقت گزارنے کا ہُنر سیاست میں بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ ساڑھے چار برسوں میں صدر زرداری نے ثابت کیا ہے کہ وہ اِس ہُنر میں بھی یکتا ہیں۔ بلدیاتی نظام کے گڑے مُردے کو وقفے وقفے سے زندہ کرنا، سیاسی سرد خانے سے باہر لانا اور تھوڑی بہت ”بَلی“ چڑھاکر دوبارہ (عارضی) موت کی نیند سُلانا کچھ آصف علی زرداری ہی کا خاصہ ہے اور وہ اِس کا عملی مظاہرہ بھی عمدگی سے کر رہے ہیں۔ بلدیاتی سیاست کی بلّی ایک بار پھر تھیلے سے باہر آگئی ہے۔ سندھ میں کچھ لوگوں کی مُراد بر آئی ہے کہ اُنہیں احتجاج کے نام پر عوام کے سامنے آنے اور نئے ”ایجنڈے“ کے تحت سیاسی دُکان چمکانے کا موقع ملا ہے۔ اگر دِل ہی دِل میں صدر کو کوسنے والے کم نہیں تو اُنہیں دِل کی گہرائیوں سے دُعائیں دینے والے بھی اچھے خاصے ہیں! سندھ کی حد تک تو صدر زرداری نے معاملات کو تہہ و بالا کردیا ہے تاکہ سیاست کے مُردے میں کچھ جان تو پڑے، محفل کی رونق کچھ تو بڑھے۔ ایک بار پھر ثابت ہوگیا کہ صدر زرداری سب پر نہ سہی، بہتوں پر بھاری ہیں!

سیاسی چولھا تیز آنچ کے ساتھ جل رہا ہے۔ انتخابی پتیلی بھی چولھے پر چڑھائی جاچکی ہے۔ لوگ جوتیوں میں دال بانٹے جانے کے منتظر ہیں۔ انتخابی پتیلی میں جو دال پک رہی ہے اُس میں تڑکے کی کمی بھی پوری کردی گئی ہے۔ انتخابی دال میں بلدیاتی نظام کا تڑکا وہی شور پیدا کر رہا ہے جو تڑکا لگانے سے پیدا ہوا کرتا ہے۔ فرق صرف اِتنا ہے کہ تڑکے کے شور میں بعض اتحادیوں کی بھنبھناہٹ بھی شامل ہوکر وکھری ٹائپ کا صوتی تاثر پیدا کر رہی ہے!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 483584 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More